بس بہت ہو چکا! للی پوٹ پارا


(سلووینین زبان میں لکھی گئی اس کہانی کی مصنفہ للی پوٹ پارا ہیں۔ وہ سلوینین ادب کی ایک معروف اور انعام یافتہ ادیبہ ہیں اور مترجم ہیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ”باٹمز اپ اسٹوریز“ کو 2002 میں پروفیشنل ایسوسئیشن آف پبلشرز اینڈ بک سیلرز آف سلووینیا کی طرف سے پرائز فار بیسٹ لٹریری ڈبیو ”کے اعزاز سے نوازا گیا۔ موجودہ ترجمہ کرسٹینہ ریئرڈن کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ ہے، جو“ ایلکیمی جرنل آف ٹرانسلیشن ”میں شائع ہوا تھا۔ )

***

سیمون بہت تنگ کر رہا ہے۔ ماں جھنجھلائی ہوئی ہے۔ اس کے پاس پہلے ہی کئی مسئلے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب بچے اپنی ماں کے لئے بھی مصیبت بن جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ ہار جاتی ہے۔ وہ سوچنے لگتی ہے کہ وہ ایک اچھی ماں نہیں اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کی اپنی ماں آ کر اسے چھوٹی سی بچی کی طرح اپنی بانہوں میں سمیٹ لے۔

سیمون چیزیں توڑنے لگتا ہے۔ وہ چیزیں فرش پر پھینک کر چیختا ہے۔ ماں یہاں وہاں سے چیزیں اٹھا کر اسے پرسکون کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ماں کہتی ہے کہ سیمون ایک خبیث روح کی طرح چیختا ہے۔ لیکن سیمون کبھی نہیں پوچھتا کہ خبیث روح کون اور کیا ہے؟ ماں بھی ایک خبیث روح کی طرح چیخنا چاہتی ہے۔ لیکن مائیں چیخا نہیں کرتیں، کیونکہ مائیں ماں ہوتی ہیں اور مائیں ہمیشہ جانتی ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔

پھر اچانک ماں نہیں جانتی کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور بے ساختہ اس کا تھپڑ چٹاخ سے ننھے چہرے پر پڑتا ہے۔ سیمون کے نرم گال پر پانچوں انگلیوں کے نشان چھپ جاتے ہیں۔ وہ درد سے بلبلا اٹھتا ہے اور چپ ہو جاتا ہے۔ اس کی شرارت تھم جاتی ہے۔ ماں بھی تھم جاتی ہے اور جس ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا اسے سلوموشن میں اپنے جسم کی طرف واپس آتے دیکھتی ہے۔ ”بس! بہت ہو چکا!“ وہ بے بسی سے کہتی ہے۔ وہ یہ جملہ کسی اور سے کہنے کے بجائے خود سے کہتی ہے۔

سیمون اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اور ماں وہیں بے حس و حرکت کھڑی رہ جاتی ہے۔ اب نہ وہ ناراض ہے اور نہ اداس۔ وہ بے بس ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جسے کوئی غیرت مند ماں کبھی قبول نہیں کر سکتی۔ اس کے بجائے وہ چھوٹا سیمون، بلکہ چھوٹی سیمونہ ہو کر تھپڑ کھانا پسند کر لے گی۔ وہ اپنے چہرے کی جلن سے نپٹ سکتی ہے۔ لیکن اسے نہیں معلوم کہ وہ اس عجیب ہاتھ کا کیا کرے جو اتنے پرتشدد انداز میں اس کے قابو سے باہر ہو گیا۔

ماں کو معلوم ہے کہ بچے کو پیٹنا نہیں چاہیے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ تھپڑ کتنا درد دیتا ہے۔ ماں کو یہ اس لئے معلوم ہے کیونکہ وہ بھی کبھی بچی تھی۔ ماں کو معلوم ہے کہ ”سوری“ لفظ کتنا بھاری ہوتا ہے اور یہ سننے والے کے کانوں کو کیسے بھر لیتا ہے۔ پھر بھی کبھی کبھی یہ سچے دل سے نہیں کہا جاتا اور اسی لئے آسانی سے منہ سے نہیں نکلتا۔

ماں اس رات یہ لفظ بولتی ہے، لیکن سچے دل سے اور بہت سال گزر جانے کے بعد ۔ اب سیمون بڑا ہو چکا ہے۔ ماں سے بھی بڑا۔ اور اس کا ہاتھ بھی بے قابو ہو کر اٹھنے ہی کو ہے۔ تب ماں کو لگتا ہے کہ یہی صحیح وقت ہے۔ یہ صحیح وقت ہے بھی۔ تب اس کے منہ سے بہت آسانی سے ”آئی ایم سوری!“ نکلتا ہے اور سیمون پھر سے ایک چھوٹا بچہ بن جاتا ہے۔ اور پھر اچانک دونوں ایک ہی قد کے ہو جاتے ہیں۔ بیک وقت چھوٹے بھی بڑے بھی۔ اتنے چھوٹے کہ وہ جانتے ہیں کہ کس چیز سے درد ہوتا ہے، اور اتنے بڑے کہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کیسے ہاتھ کو قابو میں رکھا جائے۔ ماں سیمون کو پیار سے گلے لگاتی ہے اور وہ خود کو چھڑانے کی کوشش نہیں کرتا۔ حالانکہ اب وہ اتنا بڑا ہے کہ ماں کا اس کو گلے لگانا اسے اٹ پٹا لگتا ہے، اور سیمون کہتا ہے، ”آئی ایم سوری ٹو!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments