منٹو کی مسٹر حمیدہ


برقعے میں چہرہ چھپائے ایک لحیم شحیم عورت ہمارے سامنے کھڑی تھی۔ نقاب الٹے بنا بھاری مردانہ آواز آئی،
”آپ کو بہت دور سے دکھانے آئی ہوں“

برقعہ اور مردانہ آواز۔ یا خدا کہیں پھر کسی نے فرار ہونے کا منصوبہ تو نہیں بنایا؟ ہم نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔
”ڈاکٹر، زندگی چھپ چھپ کے گزر گئی لیکن اب تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اس لئے آنا پڑا“
”دیکھیے جو بھی ہوا میرے بس میں، ضرور کروں گی“

”ڈاکٹر صاحب، پیٹ کے نچلے حصے میں بہت درد ہے، اٹھنا بیٹھنا محال ہو چکا ہے“
”کب سے درد ہے آپ کو؟“
”جی ہلکا ہلکا درد تو برسہا برس سے ہے لیکن ابھی کچھ ماہ سے بہت شدید ہے“

”شادی شدہ؟“
”نہیں جی“
”ماہواری کیسی آتی ہے؟“
”کبھی آئی ہی نہیں“
”کیا مطلب؟“
”جی مجھے ماہواری کبھی نہیں ہوئی“

”اوہ۔ دیکھئیے آپ کا معائنہ کرنا پڑے گا، آپ برقعہ اتار کر پردے کے پیچھے لیٹ جائیے ”
کچھ متذبذب کچھ پریشان، وہ آہستہ آہستہ اٹھی اور پردے کے پیچھے چلی گئی۔

ہم نے پرچی پہ نگاہ ڈالی، نام شہناز بی بی، عمر پینتالیس برس، ساکن راولپنڈی کا کوئی نواحی گاؤں۔
پردے کے پیچھے سے نرس نے آواز دی، آ جائیے ڈاکٹر۔

وہ چپ چاپ کاؤچ پر بیٹھی تھی۔ نقاب الٹا جا چکا تھا۔ تقریباً پونے چھ فٹ قد، لمبے بالوں کی چوٹی، چوڑے کندھے اور چھاتی، بھاری ہاتھ، بڑے بڑے مردانہ پاؤں اور چہرے پہ داڑھی مونچھ!

”ارے، یہ منٹو کی“ مسٹر حمیدہ ”کہاں سے آ گئی؟“
ہم نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔

“رشید نے سمجھا کہ شاید ہیجڑا ہو مگر نہیں۔ وہ ہیجڑا نہیں تھی۔ اس لئے کہ اس میں ہیجڑوں کی سی مصنوعی نسوانیت کے کوئی آثار نہیں تھے وہ مکمل عورت تھی۔ ناک نقشہ بہت اچھا۔ کولہے چوڑے چکلے۔ رشید رقعہ ملتے ہی ہوسٹل گیا، بڑی مشکل سے کمرہ تلاش کیا۔ اندر داخل ہوا تو سمجھا کہ کوئی مرد جس نے کئی دنوں سے شیو نہیں کی، کمبل اوڑھے لیٹا ہے ”
( افسانہ۔ مسٹر حمیدہ۔ منٹو)

کیا چیز تھے استاد منٹو بھی؟ وہاں تک رسائی رکھتے تھے جہاں میڈیکل کی بھاری بھرکم اصطلاحات اور تشخیص ڈاکٹروں کو بھی الجھا دیتی ہے۔

چہرہ سپاٹ رکھتے ہوئے ہم نے پوچھا
”یہ بال کب سے ہیں آپ کے چہرے پہ؟“
”جی تقریباً پندرہ برس کی عمر سے“

”کیا کبھی چیک کروایا کہ کیوں؟“
”نہیں جی، ایک تو ہمارا گاؤں شہر سے بہت دور تھا۔ دوسرے مجھے شرم آتی تھی۔ میں نے اماں سے کہا میں کہیں نہیں جاؤں گی“

”ماہواری نہ ہونے پہ کیا پریشانی نہیں ہوئی؟“
”ہوئی، اماں کو بہت ہوئی لیکن جی کسے بتاتیں۔ اپنا پیٹ کیسے ننگا کرتیں؟ بس جی ہم ماں بیٹیاں پی گئیں اس بات کو“

”اور خاندان کے باقی لوگ؟“

”بس جی اماں نے مجھے ایسے چھپا لیا جیسے مرغی چوزے کو پروں میں چھپا لیتی ہے۔ ابا کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا، بس جی اماں نے کہہ دیا کہ میں نے بیٹی کی شادی نہیں کرنی۔ ہم ماں بیٹیاں اکٹھی رہیں گی ہمیشہ“

”یہ قد اور یہ آواز۔“

”جی قد تو بیس برس تک بڑھتا ہی رہا، رکنے میں ہی نہیں آیا۔ آواز بھی عجیب مردانہ سی ہو گئی۔ شروع میں ہر کوئی پوچھتا تھا لیکن پھر ہم نے گھر سے نکلنا اور ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ اماں کسی بہت ضروری کام سے باہر جاتی تھیں۔ بس جی گزر ہی گئی۔

”ان بالوں کو کیسے سنبھالا؟“

”کبھی اماں کریم لا دیتی تھی، کبھی ریزر۔ کبھی کبھی دل اکتا جاتا تھا تو بال اتارنا چھوڑ دیتی تھی لیکن پھر اماں منت سماجت کر کے اتروا دیتی تھی“

”اچھا آپ پاجامہ اتار کے لیٹ جاؤ اور گھبرا نا مت“

معائنے میں جنسی اعضاء بظاہر تو زنانہ ہی نظر آتے تھے سوائے اس کے کہ کلائی ٹورس ( clitoris) تھوڑا سا بڑا تھا۔

درد ناف کے نچلے حصے میں اس جگہ پہ تھا جہاں پیٹ اور ٹانگیں آپس میں جڑتی ہیں۔ ایک گلٹی نما شے بڑے ابھار میں موجود تھی جسے دبانے سے درد زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی سکین اور خون کے ٹیسٹ کروا کر ہی ہم اپنے شک کو یقین میں بدل سکتے تھے۔

نتیجہ آ چکا تھا اور وہی تھا جو ہم نے سوچا تھا۔ وہ ڈی ایس ڈی ( Disorders of sex differenciation) کا شکار ہوئی تھی۔
فائیو الفا ریڈیکٹیز ( 5۔ Alpha reductase ) ایک انزائم جس کی کمی کسی بھی انسان کی زندگی معمہ بنا سکتی ہے۔

شہناز بی بی جنیاتی طور پہ مرد تھی اسے باپ سے وائی کروموسوم اور ماں سے ایکس کروموسوم ملا تھا۔ لیکن ایکس وائی ملنے کے باوجود مرد بننے میں کمی رہ گئی تھی۔

پیٹ میں بچہ بننا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اگر کروموسومز لڑکے والے ہوں تو خصیے ( Testicles) تو بنیں گے ہی لیکن ان سے آگے کی منزل خصیوں سے نکلنے والے ہارمونز اور انزائم طے کرتے ہیں۔

خصیوں سے خارج ہونے والا ہارمون ٹیسٹوسٹیرون اس وقت تک بیرونی جنسی اعضاء ( عضو تناسل) کی نشوونما ٹھیک طرح نہیں کر سکتا جب تک وہ ایک اور ہارمون DHT میں نہ بدل جائے اور یہ بدلاؤ انزائم فائیو الفا کے بغیر ممکن نہیں۔

شہناز بی بی کے کروموسومز مردانہ تھے۔ بیرونی جنسی اعضا زنانہ تھے اور اندرونی جنسی اعضا مردانہ یعنی خصیے تھے۔ یاد رکھیں کہ حمل میں افزائش کے دوران خصیے بچے کے پیٹ میں بنتے ہیں جو بعد میں اپنی مخصوص تھیلی ( scrotum ) تک پہنچتے ہیں۔

شہناز بی بی میں رحم، بیضہ دانی اور ویجائنا کا اوپر والا حصہ موجود نہیں تھا۔ ویجائنا کا ابتدائی حصہ اور بڑے چھوٹے ابھار بمعہ کلائی ٹورس کے موجود تھے۔ خصیے تھیلی تک نہیں پہنچ سکے تھے کہ تھیلی فائیو الفا کی کمی کی وجہ سے بنی ہی نہیں تھی سو خصیے بڑے ابھار میں آ کر ٹھہر گئے تھے۔ فائی ایلفا کی کمی کی وجہ سے DHT نہیں بنا تھا سو عضو تناسل بھی انتہائی چھوٹا رہ گیا تھا جو دیکھنے میں کلائی ٹورس ہی لگتا تھا۔

اس لئے پیدائش پہ شہناز بی بی کو لڑکی سمجھا گیا۔

چھاتی پہ پستان نہیں بنے تھے کہ زنانہ ہارمونز بلوغت پہ نہیں بنے۔ بلوغت آنے پہ خصیوں سے خارج ہونے والے ٹیسٹوسٹیرون نے بھاری آواز، لمبا قد، مردانہ ڈیل ڈول اور داڑھی اگانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔

شہناز کو درد خصیوں میں اٹھتا تھا کہ وہ اصلی جگہ پر موجود نہیں تھے بلکہ اصلی جگہ تو بنی ہی نہیں تھی۔ اب خصیوں کی ضرورت تو تھی نہیں کہ وہ عمر شہناز بی بی کے طور پہ گزار چکی تھی۔ سو اب کچھ اور کرنے کی بجائے یہی ضروری تھا کہ اس کے خصیے نکال دیے جاتے۔ اگر پندرہ برس کی عمر میں تشخیص ہو گئی ہوتی تو پھر اس کا مستقبل مسٹر حمید کے طور پہ ہوتا لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا۔

آپریشن ہم نے ہی کیا تھا۔
ہسپتال سے جاتے ہوئے وہ ہمیں گلے ملی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ڈھلتی عمر میں بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments