فلم باغبان


آج کا ہمارا تبصرہ ”باغبان“ کے نام سے بننے والی ایک فلم پر ہے۔ اس کہانی کو بی آر چوپڑہ نے لکھا ہے اور پروڈیوسر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ ان کے ساتھ لائن پروڈیوسر کے طور پر اشوانی چوپڑا نے اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھایا ہے۔ روی چوپڑا نے ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا ہے۔ کاسٹنگ میں امیتابھ بچن، راج ملہوترہ کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں، ہیما مالنی پوجا ملہوترہ کے روپ میں سامنے آئی ہیں۔ سلیمان خان آلوک راج کے نام سے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کہ راج ملہوترا کا لے پالک (adoptee) ہے۔ امن ورما، سمیر سونی اور ساحل چڈھا اور ناصر خان نے راج ملہوترا کے بیٹوں کا کردار ادا کیا ہے۔

اس کے علاوہ پریش راول اور شرت سیکسینا نے بھی مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔

اس کہانی کو پسند کرنے کی مختلف وجوہات ہی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ ہمارے ہی قبیلے یعنی لکھاریوں کی وہ اندوہ ناک کہانی بھی کہلائی جا سکتی ہے جس میں ایک مصنف اپنے آپ کو جلا کر وہ آگ پیدا کرتا ہے جسے لوگ بعد میں چراغ کا نام دیتے ہیں۔ جس طرح ایک مصنف کا اس کے سفر کے دوران کوئی بھی ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں ہوتا اسی طرح اس کہانی کے کلیدی کردار راج ملہوترا کو کوئی سہارا نہیں دیتا سوائے اس ہرمانت پٹیل کے جو اس کو موٹا بھائی یعنی بڑا بھائی بنا کر رکھتا ہے۔ جب لوگ شہرت دیکھ کر آپ کہ ہم پلہ ہو جاتے ہیں تو یہ بھی وہ آفاقی سچائی ہے جو اس فلم میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ راج ملہوترا کے لالچی بیٹے جب اس کے پاس دولت کی ریل پیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔

دوسری وجہ اس کتاب کا عنوان ”باغبان“ ہے جو کہ ایک طرف اپنی سوچ کی آبیاری کرنا ہے تو دوسری طرف اس کا مطلب خاندان کی ان کونپلوں کی آ بیاری کرنا ہے جو کہ بڑے ہو کر اس باغبان کے تو کسی کام کے نہیں البتہ وہ اپنے اپنے شجر کی وہ مضبوط ٹہنیاں ثابت ہو سکتی ہیں جو کہ اس شجر کو بیک وقت سایہ اور سہارا فراہم کر سکتی ہیں۔ اوپر والے تمام لائنیں اس کہانی کے راج ملہوترا اور اس کے بیٹوں سے مسابقت رکھتی ہیں۔ راج ملہوترا کو باغبان اور اس کے بیٹوں کو وہ کونپلیں تصور کیا جا سکتا ہے جو اپنے شجر یعنی اپنے بال بچوں کے لئے تو سہارے کا باعث ہیں لیکن انہیں باغباں یعنی آپ نے والد سے کوئی واسطہ نہیں۔

کہانی کو پسند کرنے کی تیسری وجہ اس کا منفرد پن ہونا ہے کہ جس میں تمام روایتی فلموں کی طرح پریم کہانی کا مرکز کوئی نوجوان جوڑا نہیں بلکہ عمر رسیدہ میاں بیوی کے درمیان التفات کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جو کہ شاید کسی کہانی میں کبھی دکھایا گیا ہو۔ اس سے پہلے جتنی بھی کہانیاں دکھائی گئیں ان میں محبت دو نامحرم لوگوں کے کے درمیان دکھائی گئی یا پھر وہ نوجوان جوڑے جنہوں نے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا ہو کے درمیان دکھائی گئی۔

اس اس کہانی کی انفرادیت اسی چیز میں پنہاں ہے کہ اس میں بہو بیٹوں والے ماں باپ کے درمیان وہ بچپن والا پیار دکھایا گیا ہے کہ جس میں دونوں ایک دوسرے سے رابطہ بھی رکھتے ہیں اور سماج سے خائف بھی رہتے ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کو خطوط لکھنا، ایک دوسرے کی یاد اور تڑپ میں اتنا بے بس ہو جانا کہ سب سے چھپ کر ٹرین کے پلیٹ فارم پر جا ملنا، پھر دونوں کا رات کے کسی پہر کال پر بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کھانا کھلانا، راج ملہوترا کے پاس کھانے کا نہ ہونا اور اس کا خالی پلیٹ پر چمچے سے شور پیدا کرنا، اپنے منہ کو اس طرح سے ٹیڑھا کر کے آواز پیدا کرنا اور اس کا عینک ٹوٹ جانے کے باعث خط نہ پڑھ سکنا، ہرمانت پٹیل کی ٹی شاپ میں جا کر اس کی بیوی سے خط کا پڑھوانا اور اور اس کی بیوی کا بہتے آنسو سے خط آدھا چھوڑ دینا یہ وہ سب لمحات تھے جنہوں نے مجھے اشک بار کر دیا اور اور اور شاید ارسطو نے اسی تطہیر (catharsis ) کو ہی تو ادب اور المیے کی اساس قرار دیا تھا۔

ہرمانت پٹیل کا کردار بھی کہانی میں جان ڈال دیتا ہے۔ ایک ہنس مکھ، خوش اخلاق اور دوسروں کی پرواہ کرنے والا وہ جاندار کردار ہے جس نے ہیرو کے خیالات اور افکار بدلنے میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ ایک موقع پر جب راج ملہوترا ان کی شاپ پر بیٹھا ہوتا ہے اور پٹیل صاحب غلط محاورہ پڑھ دیتے ہیں۔ اپنے ہی بات کے جواب میں پٹیل صاحب کہتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر محاورات غلط پڑھتے ہیں تاکہ ان کی بیوی تصحیح کر کے خوش ہو اور جو خوشی اس کے لبوں پر میرے غلط ہونے سے آتی ہے وہی خوشی میرے لیے قیمتی ہے۔ اسی طرح سے، بے اولاد ہونے کے باوجود کئی بچوں کو اپنا پن دینا اور انہیں میں بچوں کی طرح پالنا وہ خصوصیات ہیں جن سے راج ملہوترا صاحب بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اسی کو اپنی کتاب کا موضوع بھی بناتے ہیں۔

کہانی کا اختتام بھی بڑے غیر روایتی انداز میں ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کیا آخر میں تمام گناہ گاروں کو یا تو ختم کر دیا جائے گا یا پھر انہیں بری الذمہ قرار دیا جائے گا۔ لیکن اس کہانی میں نہ تو کوئی مکمل طور پر مجرم ہے نہ کسی کو مکمل طور پر معافی دی جاتی ہے اس لئے راج ملہوترا اپنے بیٹوں کو کشمکش کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے۔ کہانی کے آخر میں سکرین پر نمودار ہونے والا جملہ ہی اس کہانی پر فدا ہونے کے لئے کافی ہے جو کہ کچھ اس طرح سے ہوتا ہے۔

“Because there is no end to love “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments