ڈاکٹر عبدالسلام: پاکستان کا روشن چہرہ


یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم؟

ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنے محسنوں اور ہیروز کو ذلیل کیا ہے۔ ہم نے اپنے ہیروز سے نفرت کے لیے کبھی عقیدوں کا استعمال کیا تو کبھی ان کی نسل، رنگ کا تو کبھی ان کے سائنسی خیالات کو غیر شرعی قرار دے دیا۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے کبھی یعقوب الکندی کو کوڑے مارے، کبھی ابن رشد کو مسجد کے سثون سے باندھ کر پیٹا، کبھی ابن سینا کے پیچھے جاسوس چھوٹے، کبھی زکریا الرازی کو مار مار کر اندھا کیا گیا، کبھی خراسان والوں نے جابر بن حیان کو مارنے کی کوشش کی اور انتقاماً ان کی والدہ کو شہید کروایا گیا اور کبھی عراق کے قاضیوں نے انھیں سزائے موت سنائی۔ الغرض ہم ہمیشہ سے سافٹ امیج اجاگر کرنے والے علم دوست ہیروز کے دشمن ہی رہے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی نفرت کا یہ کاروبار آج تک جاری ہے۔ جس نے بھی عالمی سطح پہ پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کیا وہ ہمیشہ ہماری نفرت کی زد میں رہا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا شمار بھی انھی لوگوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے فخر کی علامت ہیں۔ وہ جس ملک میں ٹھہرے، ان کے لیے وہ لمحات فخر کا باعث بن گئے، دنیا کے 36 ممالک نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں جبکہ اپنے ملک میں ان کی علمی کاوشوں کو عقیدوں کے تناظر میں نفرت انگیز بنا دیا گیا۔ جس وقت یورپ کے اکثر ملکوں میں خلائی تحقیق کا کوئی ادارہ نہیں تھا تب انھوں نے پاکستان میں سپارکو کی بنیاد رکھی۔

ایٹمی توانائی کمیشن میں سائنسدانوں کے لیے وظائف مقرر کروائے۔ لاہور میں پی اے ای سی اور قائداعظم یونیورسٹی میں مرکز برائے نظری طبعیات میں ریسرچ شروع کروائیں۔ ان کی کوششوں سے ڈاکٹر اشفاق احمد، رضی الدین اور عشرت عثمانی جیسے لوگ سرن جیسی جگہوں کو چھوڑ کر واپس آئے اور ایٹمی توانائی کمیشن میں کام شروع کیا۔ انھوں نے ملک میں پلوٹونیم اور یورینیم کی تلاش کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں۔ پاک امریکی خلائی تعاون کا معاہدہ بھی ان کے ذریعے ہوا اور 1961 میں ناسا نے بلوچستان میں خلائی تحقیقاتی مرکز بھی قائم کر دیا۔ 1965 میں ان کی کوششوں سے پاک کینیڈا جوہری توانائی معاہدہ ہوا۔ ان کی ذاتی کوششوں سے 1965 میں امریکہ نے پاکستان کو ایک ری ایکٹر بھی دیا اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کا معاہدہ بھی کیا۔

لیکن ان سب خدمات کے عوض انھیں اپنے وطن میں نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی ان کے ذاتی عقیدے کو نفرت کا معیار بنایا گیا تو کبھی اس بات پہ ان پہ سنگ برسائے گئے کہ وہ نوبل پرائز لیتے وقت پنجابی لباس اور پگ میں کیوں گئے جبکہ وہاں سب سوٹ اور ہیٹ میں تھے العرض ہم وطنوں نے ان سے نفرت کے اپنے اپنے معیار بنا لیے ہیں۔

وہ اٹلی میں مقیم رہے تو وہاں ان کے نام کا ریسرچ سنٹر بنا دیا گیا جہاں آج بھی پاکستانی سٹوڈنٹس مفت ریسرچ کرتے ہیں۔ ان سے صرف ہاسٹل کی فیس لی جاتی ہے۔ برطانیہ میں تو ڈاکٹر عبدالسلام کی رہائشگاہ کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ ان کی علمی کاوشوں کا اعتراف گھر کے باہر لگی تختی پہ ان الفاظ میں کنداں کیا گیا ہے : ”نوبل انعام یافتہ فزیسٹ، ترقی پذیر ممالک میں سائنس کے چیمپئن یہاں پر رہائش پذیر رہے“

ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے رہائشی تھے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنھوں نے پاکستان کو نوبل پرائز دیا۔ ان کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جاتا یہ کہ وہ غدار اور پاکستان مخالف تھے۔ پاکستان کے نامور سائنسدان ڈاکٹر مبارک علی نے اس سوچ کی کئی فورم پہ سختی سے تردید کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی فوٹو پہ سیاہی ملنے کے افسوسناک واقعے پہ ڈاکٹر مبارک صاحب نے ان الفاظ میں مذمت کی تھی

” دنیا بھر میں جب سائنسدان اپنے شعبوں میں کام کرتے ہیں تو وہ ایسا اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی سائنسی قابلیت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیونکہ انتہا پسندی داخل ہو گئی ہے تو اس لیے ہم ایک سائنسدان کا مذہبی عقیدہ دیکھتے ہیں لیکن اس کی سائنسی قابلیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ “

جب پاکستانیوں نے اس شخص کو جس نے ساری زندگی پاکستان کو دی، غدار قرار دیا تو ملک سے باہر کھڑے ہو کر بھی ان کا جملہ یہی تھا ”پاکستان کچھ بھی کہتا رہے بالآخر ہمارا ملک ہے“

یاد رکھیں اگر باہر مرنا اور اپنی دھرتی پر دفن ہونا غداری ہے تو پھر چوہدری رحمت علی سمیت کئی نام سامنے آئیں گے، اس پر کیا کہا جائے گا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے شہریت کی آفر کے باوجود آخری وقت تک پاکستانی پاسپورٹ کو گلے لگائے رکھا؟

اگر غیر مسلم ہونا نفرت کی وجہ ہے تو پھر پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ بے معنی ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اعلیٰ عہدوں پہ اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ سے لے کر ملکی سرحدوں کے دفاع تک غیر مسلم پاکستانی اپنا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور وقت پڑنے پہ جان قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے پاکستانی شہری ہونے کے ناتے ان کی خدمات کا اعتراف پاکستان کرتا ہے۔ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے 65 اور 71 کی جنگوں میں بہادری کی تاریخ رقم کی۔ جس پہ انہیں 65 کی جنگ میں تمغہ جرات عطا کیا گیا اور 71 کی جنگ میں انہیں ستاہ جرات سے نوازا گیا۔ اسی طرح ونگ کمانڈر مارون لیز نے 65 کی جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے اپنی جان ملک پہ قربان کی۔ اس سے پہلے وہ اسرائیل کے خلاف عربوں کی جنگ میں بھی شامل رہے تھے۔

اسی طرح احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والی قابل احترام شخصیت سیکنڈ لیفٹیننٹ دانیال 71 میں اپنے ساتھیوں کو بچاتے ہوئے وطن پہ قربان ہوئے۔ کیپٹن میخائل ولسن سے لے کر ایرک جی ہال تک وطن پہ قربان ہونے والا ہر پاکستانی ہمارے لیے قابل احترام ہے اور ان کے عقیدے کی بنا پہ ان کی عظیم قربانیوں کو پس پشت ڈالنا غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل ہو گا

پاکستان کے غیر مسلم طبقات نے ہر شعبہ زندگی میں پاکستان کی خدمت کی ہے اور کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس اے آر کورنیلئس، جسٹس (ر) رانا بھگوان داس، ائر کوموڈور ڈبلیو جے ایم ٹورووکس، گروپ کیپٹن سیزل چوہدری، ونگ کمانڈر مرون مڈل کوٹ، گلوکار اے نیئر، ایرین پروین، ایس بی جان، اداکار رابن گھوش اور شبنم، بنجامن سسٹرز یعنی نریسہ، بینہ اور شبانہ، ستیش آنند جیسے نامور فلم میکر، تاجر اور ڈسٹری بیوٹر، دیبو اور کرکٹر ویلس متھیاس اور دنیش کنیریا، مییئر جمشید مہتا۔ ۔ الغرض تجارت سے لے کر کرکٹ کے میدانوں تک، اعلیٰ عہدوں سے لے کر فلم انڈسٹری تک نامور اور ٹیلنٹڈ غیر مسلم پاکستانی بھی ہمارا فخر ہیں جنھوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کیا۔

بالکل اسی طرح سائنس کے شعبے میں دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ لینے والے ڈاکٹر عبدالسلام بھی پاکستان کا روشن چہرہ اور ہمارے لیے قابل فخر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments