کراچی دھرنا: پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی ملی بھگت


             

آج جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ( سندھ حکومت ) کے درمیان معاہدہ طے پا گیا، جماعت اسلامی کا اکیس روزہ دھرنا ختم ہوا! جماعت اسلامی نے کراچی میں کراچی کے حقوق کے لئے بالخصوص بلدیاتی ایکٹ کے خلاف دھرنا دیا ہوا تھا جو بالا آخر اختتام پذیر ہوا، سوشل میڈیا پر مبارک باد کا سلسلہ جاری ہے کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے لئے جنگ جیت لی۔ یہاں یہ بات بتانی ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس صرف ایک نشست ہے تو پھر سندھ حکومت نے گھٹنے کیسے ٹیک دیے؟ دوسری بات یہ کہ جماعت اسلامی کے پہلے بھی دو کراچی کے میئر رہ چکے ہیں پہلے عبدالستار افغانی اور بعد میں نعمت اللہ، تو انہوں نے کراچی بلدیہ کے لئے کیا اقدامات اٹھائے تھے؟ کون سے قوانین بنائے تھے؟

یہ دھرنا جماعت اسلامی نے نہیں دیا تھا بلکہ پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد اور پشت پناہی پر دیا گیا تھا، معاہدہ تو پہلے دن ہی طے تھا دھرنا تو صرف ایک کھیل اور ڈرامہ تھا! جماعت اسلامی کو کراچی میں آگے لایا جا رہا ہے جو کبھی 1947 سے کبھی تین چار نشستوں سے آگے نہیں بڑھی اچانک اسے کراچی کا دکھ درد اٹھنے لگا! اس جماعت نے 48۔ 1947 سے 1986 تک اربوں روپے کی قربانی کی کھالیں تو جمع کیں، کراچی سے صوبائی اور قومی نشستیں بھی حاصل کیں اور مئیر شپ بھی حاصل کی، کونسلر بھی بنے مگر کبھی بھی عوام میں نظر نہیں آئے نہ ہی جیتنے کے بعد امیدواروں کا کبھی دیدار ہوا کہ آخر جنہیں ہم نے ووٹ دیے تھے وہ تھے کون؟ صرف اپنی جماعت کے لوگوں اور ہمدردوں کے ہی کام کیے عام لوگوں کو تو کبھی ان کی موجودگی کا پتہ ہی نہیں چلا، قربانی کی کھالوں کے پیسے کہاں گئے، ان سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا!

ہم پیچھے کی طرف چلتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ آج یہ دھرنا اور معاہدہ کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟

ایم کیو ایم فوج کی آشیر باد سے بنی اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ضیاءالحق نے سندھ کے شہری علاقوں سے پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لئے ایم کیو ایم پر ہاتھ رکھا مگر جلد ہی ایم کیو ایم کو بے پناہ کامیابیاں اور شہرت ملی اور وہ کراچی کی بلاشرکت غیرے واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری، اب نہ ایم کیو ایم کو فوج کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی سے الحاق۔ وہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں کلین سویپ کرنے لگی، جب ایک سیاسی جماعت اتنی کامیابیاں سمیٹنے لگے تو لا محالہ لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہونے لگتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ایم کیو ایم میں لوگ شامل ہوئے کہ اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کون اچھا ہے اور کون برا؟

شروع میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے سیاست کی تو دیگر سیاسی جماعتوں نے لسانیت کا شور مچانا شروع کر دیا، حالانکہ پاکستان میں درجنوں قومیت کے نام پر سیاسی جماعتیں ہیں ان پر کسی کو کبھی اعتراض نہیں ہوا، ایم کیو ایم بننے کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ پاکستان کی دیگر قومیں مہاجروں سے کس قدر نفرت کرتی ہیں اور وہ لوگ بھی نفرت کرتے ہیں جو کبھی نہ کراچی آئے نہ کسی اور سندھ کے شہر، ایم کیو ایم نے قومی دھارے میں شامل ہونے کے لئے اپنی جماعت کا نام تبدیل کر لیا اور مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ ہو گئی مگر یہ تبدیلی بھی کسی کو ہضم نہیں ہوئی اور ان پر ملک دشمنی اور غداری کی الزامات لگنے شروع ہو گئے، جناح پور کے نقشوں کا تماشا کھڑا کیا گیا جو بعد میں بریگیڈیئر امتیاز نے نیشنل ٹی وی چینلز پر بارہا بتایا کہ سب الزامات تھے اور جھوٹ کا پلندا تھے، نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی بانی ایم کیو ایم کو اندازہ ہو گیا کہ فوج اپنا کھیل کھیلنے جا رہی ہے تو لندن چلے گئے اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کرلی اور ان کا اندازہ اس وقت صحیح ثابت ہوا جب جون 1992 میں آفاق احمد اور عامر خان کو انٹیلی جینس ایجنسیز بزور طاقت کراچی پر چڑھائی کرانے لے آئیں اور اس وقت سب نے دیکھا کہ یہ لوگ فوج کے ٹرک اور ٹینکوں پر بیٹھ کر لانڈھی آئے تھے اور کراچی کو خون میں نہلانا چاہتے تھے اور فوج کا کھیل ہی یہی تھا کہ مہاجر کو مہاجر سے ہی لڑا دیا جائے، اس آپریشن میں ہزاروں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور سینکڑوں کو لاپتہ، مگر چار پانچ سال بعد ایم کیو ایم ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ ابھری، 1997 کے الیکشن میں ایک بار پھر کلین سویپ کیا، ایک آدھ بار الیکشن کا اور بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو بھیک میں جماعت اسلامی کو کراچی سے جزوی کامیابی حاصل ہوئی، مشرف کے دور میں کراچی میں خوشحالی اور مکمل امن رہا مگر جونہی نواز شریف آیا اس نے دو بارہ کراچی پر چڑھائی کرا دی، دونوں آپریشنز میں پیپلز پارٹی بھی پیش پیش رہی حالانکہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ اندرون سندھ تو دور کی بات کراچی کے علاقہ لیاری میں دہشت گردوں کا گروہ کون چلا رہا تھا، مگر جب بات مہاجر اور کراچی کی ہو تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور میڈیا اور صحافی خاموش ہو جاتے ہیں۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بس ایک غلطی کی تلاش تھی جو الطاف حسین نے اپنی تقریر میں کی اور پاکستان کے خلاف نعرہ لگادیا، بس اسی کی تلاش تھی، رینجرز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ہر اردو بولنے والے کو نفرت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، شروع شروع میں اٹھاؤ قتل کرو لاش سڑک پر پھینکو کرتے رہے جب لوگوں میں رینجرز کا خوف بیٹھ گیا تو اب انہوں نے اس کو دھندا بنالیا اور کسی بھی نوجوان کو اٹھا کر لے جاتے اور لاکھوں کروڑوں کی رشوت طلب کرنے لگے ورنہ لاش وصول کرنے کا کہتے، لوگ اپنا گھر کاروبار بیچ کر ان کی جیبیں بھرتے رہے اور بھر رہے ہیں، آہستہ کراچی میں کاروبار جمانا شروع کر دیا اور کیا شادی ہال، اسکول، پیٹرول پمپس، اینٹوں کے بھٹے حتیٰ کہ آپ کا پانی آپ کو ہی بیچنا شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے،

فوج نے اپنا کام کرنے کے بعد کراچی کو افغانستان کی طرح لاوارث رینجرز اور سندھیوں پر چھوڑ دیا جو بھوکے کتوں کی طرح کراچی پر چڑھ دوڑے، دو آپریشنز، کوٹہ سسٹم، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں ایسے مسائل پر جماعت اسلامی نے کبھی لب کشائی نہیں کی تو اچانک کراچی کے مروڑ کیسے اٹھ گئے؟

ٹنڈو اللہ یار کا حالیہ واقعہ ہوا اس پر کیوں نہیں بولے؟ کراچی میں جئے سندھ کی ریلیاں نکلتی رہیں اور ابھی دو دن پہلے فوج کی نگرانی میں جئے سندھ نے اندرون سندھ ریلیاں نکالیں اور کھلے عام فوج کے سامنے نہ کھپے نہ کھپے پاکستان نہ کھپے کے نعرے لگاتے رہے مگر وہ نہ غدار ہیں نہ ان سے کوئی خطرہ، اس کے بعد ایک وڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں قادر مگسی سندھی میں کہہ رہا ہے کہ مہاجروں کا وہ حال کریں گے جو 1988 میں پکا قلعہ حیدر آباد میں کیا تھا یعنی تین سو لوگوں کے قتل کا اعتراف کر رہا ہے مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی، نہ جماعت اسلامی بے کوئی نوٹس لیا نہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے، دوسری وڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں وزیرستان میں کھڑے منظور پشتین فرما رہے ہیں کہ کراچی کی چابی میری جیب میں ہے جب چاہے اسے بند کرا دیں، یہ وہی منظور پشتین ہے جو پاکستان کے خلاف نعرے لگاتا رہا ہے۔

ایم کیو ایم کو ختم کرنے اور اس کی آڑ میں پورے کراچی بالخصوص اردو اسپیکنگ کو دیوار سے لگانے کا عمل شروع کیا گیا، رینجرز اور پولیس کمائی اور دھندوں میں لگ گئی اور پیپلز پارٹی جسے اب اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی حکومت اسے ملنا اب بہت مشکل ہے اور سوائے سندھ کے اس کے ہاتھ میں کچھ نہی۔ تو اس نے کراچی کو اپنا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا شروع سے وتیرہ رہا ہے کہ لوٹ کھسوٹ اور مال بناؤ تو کراچی تو سونے کی چڑیا ہے، جہاں پچھلے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے چودہ سیٹیں پلیٹ میں رکھ کر پی ٹی آئی کو دے دی تھیں، جہاں مردم شماری دہائیوں سے کبھی صحیح نہیں کی گئی اور نہ کبھی کی جائے گی، تو پیپلز پارٹی نے تمام سرکاری اداروں میں اور محکمہ پولیس میں اندرون سندھ سے اپنے سندھی جیالے بھرتی کرنے شروع کر دیے اور کراچی کو یرغمال بنا لیا۔ مقامی نوجوانوں پر نوکریوں کے دروازے بند کر دیے، چاہے وہ جماعت اسلامی کا ورکر ہو یا ایم کیو ایم کا ہمدرد، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا جرم صرف اردو بولنا اور تعلق کراچی سے ہونا ہے۔

جماعت اسلامی نے اکیس روز سے دھرنا دیا ہوا تھا، خود پیپلز پارٹی اور جئے سندھ کراچی میں ہی ریلیاں نکالتے رہے ہیں حتیٰ کہ پاکستان کے خلاف کھلے عام نعرے بھی لگتے رہے مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا،

اسی دوران بلدیاتی کالے قانون کے خلاف ایم کیو ایم نے ایک ریلی نکالی تو پورے سندھ کی سرکاری مشینری حرکت میں آ گئی، اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر سندھ پولیس نے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان نہتے لوگوں پر لشکر کشی کی اور ظلم کیا۔ مبینہ طور پر ایک نوجوان کو قتل بھی کر دیا، کیا کسی کو احساس ہوا؟ کسی نے اس بات کے خلاف شور مچایا؟

سیدھی سی ایک وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہی نہیں کہ کسی بھی طرح ایم کیو ایم دوبارہ سر اٹھا سکے (اور یہ ان کی بھول ہے ) کیونکہ انہیں خوف ہے کہ کراچی ان کا ہی ہے کہیں دوبارہ ان لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے۔ جس روز کراچی میں ایم کیو ایم کی ریلی پر چڑھائی کی گئی اسی دن ٹی وی پر ایک چھوٹی اور انتہائی سرسری سی چند سیکنڈز کی خبر چلی کہ بلوچستان کے علاقے ”کیچ“ میں دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے دس جوان شہید ہو گئے! سوچیں دس فوجی شہید ہو گئے اور چند سیکنڈز کی خبر؟ اگر یہ کراچی میں ہو جاتا تو سوچیں کیا چند سیکنڈز کی خبر چل سکتی تھی؟ نہیں بلکہ پورا کراچی قاتل اور دہشت گرد ہوتا اور ان گنت قتل ہوتے۔ ہزاروں لاپتہ اور ہزاروں گرفتار، غدار اور دہشت گرد الگ!

یہ تو صرف اس دن کی خبر تھی جو کیچ سے آئی تھی اور میڈیا بھی چپ رہا اور اس کے بعد کوئی خبر نہیں دی، اس طرح کے واقعات پر روز بلوچستان میں کئی جگہ رونما ہوتے ہیں مگر فوج چاہتی ہی نہیں کہ یہ خبریں چلیں اور ان کی سبکی ہو، بلوچستان نہ ان کے کنٹرول میں ہے اور نہ ان کے ہاتھ میں، یہ کراچی نہیں ہے کہ جہاں چڑھائی کی اور کوئی کچھ نہیں بولا۔ مزے سے رینجرز کے حوالے کیا اور کامیابیوں کے ڈھول پیٹے گئے۔

ابھی پچھلے دنوں کالعدم دہشت گرد تنظیم ”تحریک لبیک پاکستان“ نے ریلی کے نام پر پورا پاکستان یرغمال بنالیا اور درجن بھر پولیس والوں کو قتل کیا اور اربوں روپے کی املاک نذر آتش کر دیں اور ان پر آپریشن کی بجائے ان کے آگے گھٹنے ٹیکے گئے اور خود چیف آف آرمی اسٹاف نے ان سے معاہدہ کیا اور ان پر لگی پابندیاں بھی ہٹا دی گئیں اور ان کے گرفتار دہشت گرد ایک ہی رات میں چھوڑ دیے گئے،

پورا پاکستان کراچی میں رونما بارہ مئی کے واقعہ کا ذمہ دار ایک ہی پارٹی کو قرار دیتا ہے حالانکہ سینکڑوں وڈیوز اور ثبوت موجود ہیں کہ اس میں پیپلز پارٹی اور ای این پی شامل تھی،

لاڑکانہ کی بے نظیر کا قتل پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ہوا اور جلایا اور لوٹا گیا پورا کراچی! کیا کسی نے آج تک اس پر آواز اٹھائی؟ کیا حافظ نعیم الرحمن نے کبھی اس واقعہ کے خلاف ریلی نکالی؟ وہ نکالیں گے بھی نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے ان کا اور پیپلز پارٹی نے اب اشارہ دیا ہے کہ کراچی میں میدان (ان کی نظر میں ) صاف ہے آپ ہاتھ مار لیں، سابقہ مئیر کراچی وسیم اختر کو بے اختیار ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ دیکھو یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے کراچی کا، آپ اب کسی اور کو منتخب کریں!

پیپلز پارٹی کو پتہ ہے کہ کراچی میں تو ان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو اس نے جماعت اسلامی کا انتخاب کیا اور ان سے سازش کی کہ اگلا مئیر آپ کا ہو گا، اور یہ دھرنا دیا گیا جو کہ ان دونوں پارٹیوں کی ایک سازش تھی۔ پہلے سے طے شدہ معاہدہ کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جماعت اسلامی کے آگے سندھ گورنمنٹ نے گھٹنے ٹیک دیے اور کراچی کی غمگسار اس وقت صرف جماعت اسلامی ہی ہے حالانکہ ان کا پچھلا ستر سالہ ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو یہ صرف ایک بلیک میلر جماعت رہی ہے اسے نہ پہلے کبھی کراچی کا غم تھا اور نہ اب ہے اگر تھا یا ہے تو اکیس روز میں بات منوانے والوں نے نے کوٹہ سسٹم پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟

دو آپریشنز کے بعد جماعت اسلامی بھی کراچی میں نکل آئی ہے جو ماضی میں کراچی کے لوگوں کی اربوں روپے کی قربانی کی کھالیں ہڑپ چکی ہے، جو ماضی میں کراچی میں دو تین سیٹیں لینے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوتی رہی ہے، جو تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کی موجد ہے، جو اپنے کارکنوں کو روس افغان جنگ میں جہاد کی آڑ میں اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دلواتی رہی ہے اب دوبارہ کراچی میں جلوہ افروزی کے لئے آ گئی ہے، اگر آپ مستقبل میں انہیں ووٹ دینے کا سوچ رہیں تو برائے مہربانی ان کے ماضی پر ایک دفعہ ضرور نظر ڈال لیجیے گا اور ان کی تاریخ ضرور پڑھ لیں تو آپ کا ایک قیمتی ووٹ بچ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments