روسی ادب اور الیگزینڈر پشکن


روس خصوصاً ماسکو میں داخل ہوتے ہی جس نام سے بار بار واسطہ پڑتا ہے۔ وہ الیگزنڈر پشکن کا نام ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ روس کے قومی شاعر ہیں بلکہ 37 سال کی جواں عمری میں ایک ڈوئیل میں ان کی دلیرانہ موت نے انہیں ایک ایسے رومانوی ہیرو کے کردار میں تبدیل کر دیا ہے جسے روسی اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔

مجھے اپنی علمی کم مائیگی کے اعتراف میں یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ روس میں آنے سے پہلے میں پشکن کے نام تک سے واقف نہیں تھا۔ اگرچہ تمام اہم روسی مصنفین کے ادبی فن پارے اردو اور انگریزی میں تراجم کی شکل میں دستیاب ہونے کی وجہ سے نظر سے گزرے تھے۔

لیکن افسوس کہ بین الاقوامی شہرت کے مالک دو مصنفین، پشکن اور فرانزکافکا کو میں نے زندگی میں بہت دیر بعد پڑھا۔ اور وجہ صرف یہ تھی کہ مجھے یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ پڑھا لکھا طبقہ صرف فیشن کے طور پر ہر دو کا ورد کرتا ہے۔ پشکن کو پڑھنے سے گریز تو یوں بھی ہوا کہ روس میں جہاں جائیے آپ کو پشکن سے پالا پڑتا ہے۔ گلی کوچے، چوک، بازار، میوزیم، علاقے، عمارتیں، لائبریریاں، الغرض ہر دوسری تیسری ساکن چیز پشکن کے نام سے موسوم ہے۔ پشکن کہیں تصویر، کہیں مجسمے اور کہیں تحریر و تقریر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں تک کہ روس میں قیام کے دوران کافی عرصے تک مجھے یہ لگتا تھا کہ پشکن کوئی زندہ شخص ہے۔ اور کہیں نہ کہیں بہ نفس نفیس میری اس سے ملاقات ہو جائے گی

پشکن کے بارے میں میری اس سے بھی سنگین غلطی یہ تھی کہ میں اسے صرف ایک عظیم شاعر سمجھتا تھا۔ یہ غلط فہمی تو لیوٹالسٹائی کے ایک ہی جملے نے رفع کر دی ”پشکن کی بہترین (تخلیق) اس کی نثر ہے۔ ایک مصنف اور لکھاری کو اس خزینے کا مسلسل مطالعہ کرنا چاہیے“

یاد رہے کہ پشکن روس کے چند عظیم تخلیق کاروں کا پیش رو ہے۔ گوگول اس کا ہم عصر ہے۔ دوستوئفسکی، چیخوف۔ گورکی اور سب سے بڑھ کر لیوٹالسٹائی اس کے بعد آنے والے ہیں۔ اس نے روسی نظم و نثر کو زبان و بیان کی ان رفعتوں تک پہنچا دیا کہ بعد ازاں ٹالسٹائی کی ’جنگ وامن‘ ، ’زمین‘ اور ’حاجی مراد‘ دوستوؤئفکی کی ’احمق‘ ، جرم و سزا، ’ذلتوں کے مارے لوگ‘ ، ’اعترافات‘ ، ’چیخوف کے چار بڑے کھیل‘ ، ’چیری کا باغ‘ ، ’سیگل‘ ۔

’انکل وانیا‘ اور ’تین بہنیں‘ اور بہت سی کہانیاں (چیخوف نے 1882 سے لے کر اپنی موت 1904 تک کل 201 کہانیاں تحریر کی ہیں ) اور گورکی کی بے مثل اور لافانی تخلیقات منصہ شہود پر نمودار ہوئیں۔ پشکن کی تحریروں کی گہری چھاپ دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں کی کہانیوں پر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ فرانس کے عظیم افسانہ نگار موپساں اور امریکی ادیب اوہنری کی کہانیوں کے غیر متوقع اختتام ہمیں اس عظیم روسی شاعر اور ادیب کی یاد دلاتے ہیں۔

مگر اس کی کہانیوں کے پہلے مجموعے برفانی طوفان، آنجہانی آئیون پیٹرووچ بلکن کی کہانیاں، گورکن۔ گولی، کیپٹن کی بیٹی اور انیٹ کی ملکہ، کی خاص بات ان کا فطری انداز بیان ہے۔ کہانیوں کی بنت بہت سادہ ہونے کے باوجود قاری کا تجسس لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جہاں کہیں کہانیوں میں حسن اتفاق سے مدد لی گئی ہے وہاں بھی وہ قاری کے ذوق پر گراں نہیں گزرتیں۔ پشکن خود رقمطراز ہے ”نثر کی بنیادی خوبیاں اس کی صحت اور اختصار ہے۔ اس کے لیے فکر اور مزید فکر کی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ (صرف) بیان کی خوبی سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا“ گوگول کے خیال میں ” ’کیپٹن کی بیٹی‘ مثبت طور پر سب سے اعلیٰ روسی بیانیہ ہے۔ یہ اتنا ارفع طور پر خالص اور منفرد ہے کہ اس کے مقابلے میں خود حقیقت مصنوعی معلوم ہوتی ہے۔ صرف زندگی کا ایک خاکہ!“

اس کے اس مجموعے میں موجود سب کہانیوں اور کچھ اور کہانیوں کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ پشکن نے روسی زبان میں حقیقت پسندانہ نثر کی بنیاد رکھی۔ پشکن کو کسانوں کی بغاوت کے موضوع سے 1830 کی ابتدا سے ہی گہری دلچسپی پیدا ہو گئی تھی جو اس کی کہانی ”دبوروسکی“ سے ظاہر ہے۔ مگر یہ دلچسپی اتنی بڑھی کہ پشکن نے اس پر ایک ناول، کیپٹن کی بیٹی، لکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اس بغاوت کے روح رواں پگاچوف پر تاریخ پگاچوف لکھ ڈالی۔

یوں ادب میں اسے بیسویں صدی کی ابتدا کی تحریکوں کا پیشرو بھی کہا جا سکتا ہے۔ پشکن کے روسی شعر و ادب اور روح پر گہرے اثرات نے آتش شوق کو اتنا بڑھایا کہ میں زار سکوئی سیلا میں واقع اس کا آبائی گھر دیکھنے چلا گیا۔ دو منزلوں پر مشتمل یہ خوبصورت گھر پیٹرہاف کے قریب گورت پشکن یعنی پشکن شہر میں دو سڑکوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اس چھوٹے سے شہر کا پرانا نام زارسکوئی سیلا یعنی۔ ”زار کا گاؤں“ تھا۔ پورے سینٹ پیٹرزبرگ کی طرح بڑے بڑے قدیم درختوں میں گھرا ہوا یہ گھر ایک خواب کا سا سماں پیش کرتا ہے۔

گھر کو حکومت روس نے میوزیم قرار دیا ہے۔ روسی ادب و شاعری سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے سیاح اس گھر کی زیارت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ بالائی منزل میں داخل ہوں تو یکے بعد دیگرے ایک گول دائرے میں کمرے آتے چلے جاتے ہیں۔ ایک کمرے میں اس کی تصنیفات اور اس کے ہاتھ سے لکھے مخطوطے رکھے ہیں۔ کھانے کے کمرے میں اس کے زیر استعمال ظروف جوں کے توں موجود ہیں۔ جن سے اس کے ذوق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ دیواروں پر مختلف مصوروں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ اس کے صوفوں، کرسیوں، کھانے کے میز، بستر، الغرض ہر چیز سے اس کا اعلی ذوق مترشح ہوتا ہے۔ روس کے خوبصورت اور ہوشربا موسم گرما، جس میں گرمی بالکل نہیں ہوتی، میں یہ گھر بلند و بالا سر سبز درختوں میں گھرا ہوا ہے۔ وہاں جا کر ایک گہرے سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔

شاید یہی وہ گھر تھا جہاں سے یہ نامور شاعر اور بے بدل ادیب 27 جنوری 1837؁ء کی بد نصیب صبح روانہ ہوا تھا۔ کچھ ہی دن پہلے عالم غیض میں پشکن نے ڈی اینتس کو دعوت مبازرت دی تھی۔ جسے قبول کر لیا گیا۔ پہلی گولی پشکن نے چلائی۔ جو کارگر نہ ہوئی۔

ڈی اینتس کی چلائی ہوئی گولی سیدھی پشکن کے معدے پر لگی اور یوں یہ عظیم ادیب اور شاعر شدید زخمی ہو کر گر پڑا اس کے معاون کانسٹنٹن دانزاس نے اسے اٹھایا اور اس کے گھر تک پہنچایا۔ ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود پشکن 10 فروری 1837 کو داعئی اجل سے جا ملا۔ پشکن کی موت نے جنوری ؍فروری کے سرد ترین موسم میں جب روس برف کی دبیز سفید چادر اوڑھے جون اور جولائی کے گرم دن یاد کر رہا ہوتا ہے، پورے روس کو غم و اندوہ کی ایک چادر اوڑھا دی۔

روس کے طول و عرض میں جہاں جہاں اور جب جب اس سانحے کی خبر پہنچی، ایک صف ماتم بچھتی چلی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ روسی آج تک پشکن کی بے وقت رحلت کے سانحے سے باہر نہیں آ سکے۔ چند دن قبل جب میں پیٹرار شی پرو دی (تالاب) پر لگی کتابوں کی نمائش میں عادت سے مجبور خواہ مخواہ کتابیں دیکھ رہا تھا، (اگرچہ وہ زیادہ تر روسی زبان میں تھیں ) کہ اچانک میری نظر پشکن کے منتخب افسانوں پر مشتمل ایک انگریزی کتاب پر اٹک گئی۔ ایک بار پھر اپنی پاکستانی عادت سے مجبور میں نے قیمت کم کرانے کے چکر میں بہت سی غیر متعلقہ کتب کی قیمتیں پوچھنی شروع کر دیں۔

کتب فروش ہر کتاب کی قیمت میں خود ہی خاصی کمی کرتا گیا۔ آ خر میں میں نے اپنی پسندیدہ کتاب کی قیمت میں کمی کرانے کی کوشش کی تو میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔ اس نے مجروح لہجے میں کہا ”کیا آپ کو معلوم ہے۔ یہ پشکن کی کتاب ہے۔ اس کی قیمت میں ایک کوپک کی بھی کمی نہیں ہو سکتی“ ۔ مجھے بڑی شرمندگی سی محسوس ہوئی اور تیسری بار پاکستانی عادت سے مجبور ہو کر فوراً کتاب خرید لی۔

یہ ایک حسن اتفاق ہی ہے کہ ماسکو آنے کے تین ماہ بعد جو فلیٹ میں نے کرائے پر لیا۔ وہ ماسکو کے عین درمیان میں ہے۔ روسی شہروں کی طرز تعمیر میں ایک خاص بات یہ ہے کہ عین درمیان سے شہر دائروں ( Rings ) کی شکل میں باہر کی طرف پھیلتے جاتے ہیں۔ ایک دائرے کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا۔ میری خوش قسمتی کہ میرے گھر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر چیخوف کا گھر ہے جہاں وہ 1886 سے لے کر 1890 تک قیام پذیر رہے۔ معمول کے عین مطابق یہ گھر بھی ایک میوزیم قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح مشرق کی طرف اسی سڑک پر ایک فرلانگ کے فاصلے پر ”ماسٹر اور مارگریٹا“ کے مصنف کا گھر ہے۔ اس گھر یا میوزیم پر آج کل مغربی سیاحوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ اس ناول میں مذکور گھروں اور بسوں، چوکوں، تھیٹروں وغیرہ پر نشان لگا دیے گئے ہیں۔ اسی میوزیم سے بس نمبر 302 چلتی ہے اور سیاحوں کو ان تمام گھروں، جگہوں، تھیٹروں اور تالابوں کی سیر کرائی جاتی ہے جن کا ناول میں ذکر ہے ماسوائے ان مقامات کے جو عالم بالا میں یا تاریخ کی کتابوں میں ہیں۔ ناول کی ابتدا جس اٹھارہویں صدی کے تالاب سے ہوتی ہے (پیٹرارشیا پرودی) جہاں شیطان اپنے دو چیلوں کے ساتھ اترتا ہے جس سے کہانی اور شیطانیت کا آ غاز ہو جاتا ہے، وہ میوزیم کے قریب ہی واقع ہے۔ تینوں کرداروں کی ایک تصویر تالاب کی مشرقی جانب آویزاں ہے۔

بلگا کوو کے گھر سے چند گز بعد تھیٹر مائی کوسکی ہے اور اس کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری جانب پیکنگ ہوٹل ہے۔ یاد رہے یہ وہی ہوٹل ہے جہاں فیض صاحب سالوں قیام پذیر رہے۔ لیکن ان کا ذکر ہوتا رہے گا۔ کبھی لدمیلا کے باب میں اور کبھی پشکن کے حوالے سے۔ جی ہاں بلگا کوف، پشکن۔ بات پشکن سے چلی اور بلگا کوف تک آ گئی۔ بلگا کوف کی کتاب مافوق الفطرت واقعات سے بھری پڑی ہے اور شیطان کے کردار کے ذریعے اس نے قاری کو تاریخ کے مختلف ادوار کی سیر کرائی ہے۔ اس موزوں پر از منہ قدیم سے ہی بہت لکھا جا چکا ہے اور یورپی ادب میں گوئٹے کے ”فاوسٹ“ اور کرسٹوفرمارلو کے ”ڈاکٹر فاسٹس“ جیسے شاہکاروں کی موجودگی میں کوئی ایسی تحریر لکھنا جو بیک وقت عام قاری اور دانشوروں کی توجہ حاصل کر سکے ایک مشکل امر ہے۔ بلگا کوف نے اس مشکل کو آسان کر دکھایا ہے۔

مافوق الفطرت ادب سے دلچسپی نہ ہونے کے باوجود میں نے یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی کیونکہ اس میں کردار اور واقعات نگاری کا کمال ہے۔ ناول کے پلاٹ میں اتنا تحر ک ہے اور واقعات کی بنت اتنی خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ داد دیے بغیر چارہ نہیں اسی طرح مصنف نے فطرت انسانی کی خوبیوں اور خامیوں کو اتنی چابکدستی سے منکشف کیا ہے کہ یہ ناول ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں ہر قاری کو اپنی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو نظر آتا ہے۔

یوں یہ کہانی ایک جگ بیتی کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ بلگاکوف نے ایک منفرد مگر مشکل زندگی گزاری۔ اس نے اپنے اس ناول میں بائیبل کے کرداروں کی ایسی جاندار تخلیق کی ہے اور قدیم یروشلم جیسے شہروں کی ایسی مکمل تصویر کشی کی ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دور کے ان شہروں میں چل پھر رہا ہے۔ کسی تہذیب، تمدن اور دور کی ایسی چلتی پھرتی متحرک تصاویر دنیائے ادب میں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ بلگا کوو نے اس ناول میں نہایت کامیابی سے یسوع مسیح کے یروشلم، اس جیسے دوسرے شہروں اور 1930 کے ماسکو کے درمیان یوں تخیلاتی سفر کیا ہے کہ لا محالہ قاری اس متوازی سفر کی وجہ سے ان شہروں، ان تہذیبوں اور ان ادوار کا لاشعوری موازنہ کرنے لگتا ہے۔

بلگاکوف نے ایک ایک شخصیت اور واقعے کی اتنی صحیح اور مکمل جزئیات کے ساتھ تفصیل بیان کی ہے کہ اس کے تخیل اور تاریخ انسانی اور تہذیبی ارتقا پر مکمل دسترس اور گرفت پر حیرت ہوتی ہے۔ مگر اس پر حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ بلگاکوف نے نہ صرف زاروں کے روس بلکہ کمیونسٹوں کے سویت یونین کو بھی جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا بلکہ بھگتا بھی ہے۔

بلگاکوف کا شمار ان چند ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کمیونسٹوں کے آہنی شکنجے میں جکڑے نظام پر کھل کر تنقید کی اور اس کی سزا بھی بھگتی ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کی تخلیقات کو سٹالن بہت پسند بھی کرتا تھا۔ اس کی بہت سی تخلیقات اس کی موت کے تقریباً تین عشروں بعد 1966 میں شائع ہوئیں۔ مگر بلگاکوف کا شمار روس کے مقبول ترین ڈرامہ نگاروں میں ہونے کی وجہ سے اس کی تخلیقات کی ڈرامائی تشاکیل جو اس نے خود کی تھیں روس بھر کے تھیٹروں میں دکھائی جاتی رہیں۔ اس کے ناول۔ ’سفید محافظ‘ ( The White Guard ) کی ڈرامائی تشکیل ”تربین خاندان کے شب و روز“ کے نام سے تھیٹروں میں عرصہ دراز تک نمائش پذیر رہی بلکہ یہ کھیل اسٹالن کو بھی بہت پسند تھا، گو اس میں کمیونسٹ نظام اور اسٹالن کی ذات کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بلگا کوو نے 1921 میں اپنے فنی سفر کی ابتدا ماسکو سے کی۔ 1922 میں اس کی کہانیوں کا مجموعہ Notes and Miniaturesشائع ہوا۔ اگرچہ اسی دور میں وہ اپنا شاہکار ناول ”ایک کتے کا دل“ (The heart of a dog) لکھ چکا تھا مگر اس کی اشاعت کی اجازت سنسر شپ کی وجہ سے نہ مل سکی۔ اسی دور میں وہ ”سفید محافظ“ بھی لکھ چکا تھا۔ جو ایک رسالے میں قسط وار چھپ بھی رہا تھا مگر رسالے کی بندش کی وجہ سے اس ناول کی اشاعت بھی رک گئی۔

اسی ناول پر مبنی کھیل ”تربین خاندان کے شب و روز“ اس کی زندگی بھر کی شہرت کا موجب بنا۔ 1920 سے شروع ہونے والے عشرے کے آخر تک بلگا کوو نے ”زویا کا اپارٹمنٹ“ ، ”مولری“ ، ”فرار“ اور ”سنہری جزیرہ“ نامی کھیل لکھے لیکن بدقسمتی سے جو کچھ بھی اس نے تحریر کیا اسے بائیں بازو کے نقادوں نے سوویت مخالف تصور کیا اور اس کی تمام تحریروں کی اشاعت کو 1927 میں روک دیا گیا اسی طرح اس کے سارے کھیل 1929 میں تھیٹروں سے ہٹا دیے گئے۔ بلگا کوف نے مایوسی کے عالم میں اپنے تمام مسودے 1930 میں جلا دیے اور سوویت حکومت کو وہ مشہور خط لکھا جس میں اپنی طنز نگاری کا دفاع کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر ملک اس کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو اسے ملک چھوڑنے کی اجازت عطا کی جائے۔

اس خط کے جواب میں اسٹالن نے بذات خود بلگا کوف کو فون کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس کے فوراً بعد بلگا کوف کو ماسکو آرٹ تھیٹر میں کام مل گیا۔ لیکن جتنے بھی کام اس نے اگلے سات آٹھ سال میں کیے ان میں سے کوئی بھی منظر عام پر نہ آ سکا۔ اس دوران اس نے مشہور عالم بالشوئے تھیٹر کے لیے بھی لکھا مگر کوئی بھی منصوبہ تکمیل تک نہ پہنچا۔ یہ سال بلگا کوف کی زندگی کے انتہائی بایوس کن سال تھے۔ 1928 کے بعد اس نے اپنے شاہکار ناول ”ماسٹر اور مارگریتا“ پر کام جاری رکھا۔

1937 میں اس نے ”تھیٹریکل ناول“ کو ادھورا چھوڑتے ہوئے ”ماسٹر اور مارگریتا“ پر پوری توجہ مرکوز کی جسے اس نے 1940 میں اپنی موت سے پہلے مکمل کر لیا تھا۔ وہ اس کی آخری ایڈیٹنگ ابھی مکمل نہیں کر سکا تھا کہ موت نے آ لیا۔ اس سے پہلے 1938 میں اسے اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرتے ہوئے تھیٹر کے اصرار پر سٹالن کی جوانی پر ایک کھیل ”باتم“ تحریر کرنا پڑا جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس صدمے نے اس کی گرتی ہوئی صحت پر بہت برا اثر ڈالا۔

”ماسٹر اور مارگریتا“ بلگا کوف کی موت کے 26 سال بعد 1966 میں شائع ہوا۔ اسے بیسویں صدی کے بہترین ناولوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا بڑا شاہکار ”ایک کتے کا دل“ جو 1920 کے عشرے کی ابتدا میں لکھا گیا تھا، 1987 میں شائع ہوا۔ بڑے آدمیوں کے ساتھ ان کے زمانے میں ناروا سلوک کی تاریخ نے ارسطو سے لے کر آج تک بڑے تواتر سے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

پشکن کی دوسری اہم یادگار اس کا شنگھائی میں نصب مجسمہ ہے جس کے لیے دو روسی نژاد گلوکاروں نے رقم جمع کی اور اس کی سو سالہ برسی کے موقع پر شنگھائی میں 1937 میں اس کا یہ خوبصورت مجسمہ نصب کیا۔ اس مجسمے کو جاپانیوں نے 1941 میں بہت نقصان پہنچایا لیکن جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر 1945 میں از سر نو اس کو وہیں نصب کر دیا گیا۔ بیرون ملک پشکن کا تیسرا اور تازہ ترین مجسمہ 1992 میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی کیمپس، واشنگٹن ڈی سی میں پشکن کی پیدائش کی دو صدیاں گزرنے کے بعد روس و امریکہ میں خیر سگالی کی علامت کے طور پر الیگزینڈر بورگانوف نے تعمیر کیا۔ روسی ادیبوں اور شاعروں کے مجسموں کا ذکر چھڑا ہے تو 2012 ہی میں امریکی یونیورسٹی میں امریکی طالب علموں اور تمام امریکیوں میں روسی ثقافت کی آگہی کے فروغ کے لیے لیوٹالسٹائی کا مجسمہ نصب کیا گیا جسے گریگری پوتو تسکی نے تعمیر کیا اور اس کا افتتاح امریکہ میں روسی سفیر نے کیا۔

اسی طرح فیو دور دستوئفسکی کے مجسمے کا ڈریسڈن میں 2006 میں افتتاح کیا گیا۔ یاد رہے کہ اسی شہر کا وہ عموماً دورہ کیا کرتا تھا اور یہیں اس نے ”سدا بہار شوہر“ (Eternal Husband) اور ”عفریت“ (Peron ) نامی کہانیاں لکھیں۔ اسی سال نالٹس فرانس میں ہوٹل او آسس (Oasis ) کے سامنے انتون چیخوف کے مجسمے کا افتتاح کیا گیا۔ اس ہوٹل میں وہ عموماً قیام کیا کرتا تھا۔

فرانس کے ایک اور شہر بوذیویل (Bozhevale) میں ( کے سامنے ) آئیون ترگینیو اور اس کی گلو کارہ بیوی پاسلین پاردت، جن کی محبت کو ”انیسویں صدی میں محبت کی مکمل ترین مثال“ کہا جاتا ہے، کے مجسموں کا 2010 میں افتتاح کیا گیا۔ 1999 میں ادیب ولادی میر ناباکوف کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ہوٹل لی مونتریوخ پیلس کے سامنے اس کا مجسمہ نصب کیا گیا۔ اس ہوٹل میں ناباکوف اور اس کی بیوی ویرانے زندگی کے سولہ سال گزارے تھے۔

اس وقت دنیا بھر میں پشکن کی 90 سے زائد یادگاریں موجود ہیں جن میں مشہور ترین یادگار 2002 مین عدیس ابابا میں نصب کیا گیا اس کا مجسمہ ہے۔ مجسمے کے نصب کرنے کی تقریب بڑی شان و شوکت کے ساتھ سرکاری طور پر منعقد کی گئی۔ مجسمے کے ساتھ والی گلی کو پشکن سٹریٹ کا نام دیا گیا۔ جہاں ایک فوجی دستے نے مارچ پاسٹ کیا جبکہ امن و محبت پر مبنی پشکن کی مشہور نظمیں سنائی جا رہی تھیں۔ یاد رہے کہ تاریخ دانوں کے خیال میں پشکن کے آبا و اجداد میں سے ایک عرب تھا؍تھی۔ اور وہ ہنی ہال کا پڑپڑپوتا ہے جسے افریقہ کی غلاموں کی منڈی سے خریدا گیا ہے۔ جہاں سے وہ روس پہنچا اور زار پیٹردی گریٹ کے ذاتی ملازموں میں شامل ہوا۔ زارپیٹردی گریٹ نے اسے اپنی فوج کا جرنیل بنا دیا۔ اسی ابراہام ہنی بال کی تیسری پشت میں روس کے شکسپیئر اور عظیم ترین شاعر الیگزینڈر پشکن نے جنم لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments