خواجہ سرا کا مفتی صاحب سے زبردست ٹاکرا


معذور افراد کے حقوق کے لئے بننے والے ابتدائی قوانین جنگوں میں زخمی اور معذور ہونے والے فوجیوں کے لئے بنے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں لاکھوں افراد معذوری کا شکار ہوئے۔ ان معذور افراد کو یہ قوانین نا کافی نظر آئے تو یہ احتجاج کے لئے پھر سڑکوں پر نکل آئے۔ ان معذور افراد نے احتجاجوں اور دھرنوں کے ذریعے اپنے حقوق منوانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ 1944 ء میں برطانیہ نے نوکریوں میں معذور افراد کا پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا۔

وطن عزیز کے تمام صوبوں میں معذور افراد کی نوکریوں کے حوالے سے تین سے پانچ فیصد کوٹہ مختص ہے۔ بہت سے نارمل لوگوں نے رشوت کے ذریعے معذوری سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ بنوا لیے ہیں۔ مزے سے نوکری بھی کر رہے ہیں اور حکومت سے ملنے والی امداد بھی لے رہے ہیں۔

کیا اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نوکریوں، سے معذور افراد کا کوٹہ ہی ختم کر دیا جائے؟ خواجہ سراء کمیونٹی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی ستر سالہ ظلم و تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کے بعد 2018 ء میں ”ٹرانس جینڈرز رائٹس پروٹیکشن بل“ بنوانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس بل میں خواجہ سراء کمیونٹی کو معاشی اور معاشرتی سطح پر حقوق فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بل کی ایک شق ”سلیف پریسائز سیکس“ ہے۔ جس کی رو سے کوئی بھی خواجہ سراء اگر وہ مردوں جیسی خصوصیات کا حامل ہے تو مردوں کا قومی شناختی کارڈ حاصل کر سکتا ہے اور اگر زنانہ خصوصیات کا حامل ہے تو زنانہ شناختی کارڈ حاصل کر سکتا ہے۔ بل کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں میڈیکل ٹیسٹ کی شرط نہیں رکھی گئی تھی۔

ڈان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بل سے اب تک 28000 سے زائد لوگ فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ جن میں 16500 مرد، 12130 خواتین اور صرف 12 خواجہ سراء ہیں۔ مذہبی حلقوں کا خیال ہے کہ عام مردوں اور عورتوں کی اتنی بڑی تعداد کا جنس تبدیل کروانا ہم جنس پرستی کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ مذہبی حلقوں کے خدشات اپنی جگہ درست ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں خواجہ سراء کمیونٹی کا کیا قصور ہے۔

مسئلے پر بحث کے لئے ایک نجی چینل نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے مفتی محسن الزمان اور کراچی سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراء ایکٹوسٹ فریحہ شہزادی کو مدعو کیا۔

مفتی صاحب کی باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ ہم جنس پرستی مکروہ عمل ہے اس کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے دین بہت کچھ کہتا ہے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ خدا نے انسان کو بہترین پیدا کیا ہے۔ اسے اپنے ہونے پر فخر کرنا چاہیے۔ آپریشن کروا کر جنس تبدیل کرانا حرام ہے۔ اگر تھوڑی بہت دواؤں کے ذریعے کسی شخص کی مردانہ یا زنانہ خصوصیات بحال ہو سکتی ہیں تو ممانعت نہیں۔ اگر کوئی شخص دواؤں کے ذریعے علاج کروا کر مکمل مرد یا عورت بن جاتا ہے تو وہ شادی کر سکتا ہے۔

فریحہ کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بل ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے۔ فریحہ کہتی ہیں ڈان نے خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ علماء حضرات خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے آگہی پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں لیکن دیگر معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے ساتھ ریپ اور قتل کے واقعات پر آج تک کسی دینی جماعت نے احتجاج کیوں نہیں کیا۔ علماء معاشرے میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے آگہی عام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

تین روز قبل میں صبح پانچ بجے لکھنے کے لئے بیٹھا۔ سوشل میڈیا پر نظر ڈالی تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک خواجہ سراء کی پوسٹ پڑھی لکھتی ہیں کہ ”میں ایک خاتون خواجہ سراء ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بھی شادی ہو۔ کوئی میرا بھی دھیان رکھنے والا ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بھی بچے ہوں۔ میرا بھی خاندان ہو۔ لیکن ایسا ممکن نہیں“

یہ پوسٹ اس نے ایک گھنٹہ قبل پوسٹ کی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا شاید وہ ساری رات جاگتی رہی ہے اور انہی خیالات نے اسے رات بھر سونے نہیں دیا۔ میں سارا دن اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔ شام کو آتے ہی اس کا نمبر لیا۔ اس نے بتایا کہ وہ فائن آرٹس کی طالبہ ہے اور بلوچستان کی واحد خواجہ سرا ہے جس نے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی ہے۔

ایک سال قبل میں نے بہاولپور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا صاحبہ جہاں کا انٹرویو کیا۔ سیکس کے سوال پر صاحبہ کا کہنا تھا کہ ہم بھی آپ لوگوں کی طرح انسان ہیں۔ ہمارے سینے میں بھی دل ہی دھڑکتا ہے۔ ہم بھی رشتے ناتے بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ساہیوال سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراء انمول رضا بخاری نے میرے اس سوال کے جواب میں کہا کہ خواجہ سراء ساری زندگی اپنے آپ کو زنانہ ظاہر کرنے میں گزار دیتی ہیں۔

خواجہ سراؤں کی جنس آپریشن کے ذریعے تبدیل ہو یا دواؤں کے ذریعے علاج کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس سے ان کی ادھوری شخصیت مکمل ہو سکتی ہیں۔ خواجہ سراء شادیاں کر سکتے ہیں رشتے بنا سکتے ہیں۔ معاشرے اور ان کے درمیان فاصلے ختم ہوسکتے ہیں۔ خواجہ سراؤں میں مایوسی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ خواجہ سراء گناہ سے بچ سکتے ہیں۔ کمیونٹی میں خودکشیوں کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ خواجہ سراء عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔

میں ایک معمولی سا لکھاری ہوں۔ انسانی حقوق کے لئے لکھتا ہوں۔ انسانی حقوق کی سربلندی ہی میرا مشن ہے۔ دین کے حوالے سے میری معلومات ناقص ہے۔ اس لیے اس مسئلے میں اپنی رائے نہیں دینا چاہتا۔ بلکہ علمائے کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ مسئلے کا حل نکالتے وقت دینی اور معاشرتی پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments