وزیراعظم برینڈ اور محدود عوامی مسائل


سنا ہے کہ ممدوح مکرم دوبارہ سے عوامی بننے جا رہے ہیں۔ آپ نے اس بات کا انتباہ بہت پہلے کر دیا تھا کہ اگر مجھے نکالا تو میں زیادہ ’خطرے ناک‘ ہو جاؤں گا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ موصوف مکرم، وزیراعظم ہاؤس میں رہتے ہوئے زیادہ ’خطرے ناک‘ ہونے جا رہے ہیں۔ کل ایک سینیئر صحافی اس موضوع پر کافی سارے سوالات اٹھا رہے تھے کہ وزیر اعظم صاحب نہ جانے کس کے خلاف سڑکوں پر جا رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم ہاؤس میں تو وہ خود براجمان ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو ان کی خدمت میں ادب سے التماس ہے کہ وزیراعظم صاحب کسی کے خلاف سڑکوں پر نہیں نکل رہے بلکہ اپنی پونے چار سالہ شاندار کارکردگی کا خراج وصول کرنے جا رہے ہیں۔

وہ اپنی مقبولیت کے گراف کی بلندیوں پر ہونے کی وجہ سے عوامی رابطہ مہم تیز تر کرنے جا رہے ہیں۔ وہ یہ کارہائے نمایاں بذات خود اپنی عوام کو بتانے جا رہے ہیں اور خود ہی اپنی ان کامیابیوں کا خراج سمیٹنا چاہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے پاس جب بتانے کے لیے اتنا کچھ ہے، تو وہ کیوں نہ خود عوامی رابطہ مہم پہ نکلیں۔

وہ عوام کو بڑے فخر سے بتائیں گے کہ 2011 میں وہ کیسے جمہوری سے غیر جمہوری ہو گئے؟ 2014 میں کیسے ایک سو چھبیس دن تک امپائر کے کہنے پر دھرنا دیا؟ 2014 کے دھرنے کا امپائر کون تھا جس کی انگلی اٹھنے کے وہ منتظر رہے؟ 2018 میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیز کیوں نہ بنا سکے؟ وہ کون سا ہمالیہ راستے میں تھا جو 90 دن میں کرپشن ختم نہ کر سکے؟ وہ کیا عوامل تھے کہ وہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں نہ دے سکے؟ ریاست مدینہ کے سادگی کے دعووں کے باوجود وزیراعظم ہاؤس کا خرچہ کیوں ہر سال لگ بھگ ایک ارب روپے رہا؟

وہ سر اونچا کر کے بتائیں گے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے انہیں تمام طرح کی سیاسی، صحافتی اور عدالتی آلائشوں کو اپنے ساتھ ملانا پڑا؟ وہ کیا وجوہات تھیں کہ نیوٹرل امپائر کی جدوجہد کرنے والے کو امپائر کو اپنے ساتھ ملانا پڑا؟ وہ کیا وجوہات تھیں کہ امپائر کے ساتھ ہوتے ہوئے، ایک پیج کے ہوتے ہوئے وہ چار سال تک کچھ بھی ڈیلیور نہ کر سکے؟ تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود، 28 ہزار ارب روپے سے زائد، قومی معیشت سے کیسے نکل گئے اور کس کی جیبوں میں ہیں؟

کس طرح چار سال میں مزید دو کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے پھسل گئے؟ کیسے پاکستان کی اوسط فی کس سالانہ آمدن 1800 ڈالر سے کم ہو کر 1100 ڈالر سالانہ ہو گئی؟ 66 ارب ڈالر کا پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ کیسے اور کس کے کہنے پر ٹھپ ہوا؟ کس نابغہ روزگار ہستی نے اقتصادی راہداری کے معاہدے کی تفصیلات، عالمی مالیاتی ادارے تک پہنچائے؟ کیسے ساڑھے اکیس ہزار ارب روپے قرضہ لینے کے باوجود عوامی فلاح کا ایک بھی منصوبہ شروع نہ کر سکے؟

وہ بلاشبہ فخر سے بتائیں گے کہ شفافیت کے تمام تر دعووں کے باوجود ان کی حکومت پاکستان کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت کیسے بنی اور پاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق شفافیت میں 117 سے 140 نمبر تک کیسے پہنچا؟ کیسے ڈیمو کریسی انڈیکس رپورٹ، ممدوح مکرم کی جمہوریت کو نامکمل آمریت اور ہائبرڈ نظام گردانتی رہی اور پاکستان جمہوری ملکوں میں 105 ویں نمبر پر رہا؟ کیسے فریجائل اسٹیٹ انڈکس، پاکستان کو فیلڈ اسٹیٹ کے قریب ترین شمار کرتا رہا؟

کیسے ان کے دور میں قومی ترقی کی شرح 6 فی صد سے کم ہو کر منفی صفر اشاریہ چار فی صد ہو گئی؟ کس طرح جناب کے دور اقتدار میں ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے؟ کیسے ان کے دور اقتدار میں سانحۂ کشمیر ہوا؟ کس طرح پاکستان مکمل عالمی تنہائی کا شکار ہو گیا؟ موجودہ دورہ چین فروری 2022، اس بات کا غماض ہے کہ اب چین جیسا مخلص دوست بھی ناراض ہے۔ کیسے مہنگائی کی شرح میں ہوشربا 22 فی صد اضافے پر پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک کہا جاتا رہا؟ کیسے 22 کروڑ عوام کے وسائل کو چار سال تک صرف اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے میں جھونکا جاتا رہا؟ کیسے بجلی، ادویات، پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا رہا اور بار بار ہوتا رہا؟ کیسے کرونا امداد فنڈ کے تین سو پچاس ارب بد عنوانی کی نظر ہو گئے؟

وہ عوام کے سامنے سرخرو ہیں اور فخر سے بتائیں گے کہ کیسے اداروں کو مضبوط کرنے کے وکیل نے چار سال تک قومی اداروں کو صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا؟ کیسے شوکت خانم جیسے قومی ادارے کو ملنے والے عطیات کو پاکستان تحریک انصاف کے لیے استعمال کیا گیا؟ کیسے فارن فنڈنگ وصول کی گئی اور کن شرائط پر یہ فنڈنگ وصول کی گئی؟ کیسے بلین ٹری سونامی کے منصوبے میں اربوں کی کرپشن ہوئی اور اس کے پیچھے پوشیدہ کارفرما دست کرشمہ ساز کس کا ہے؟

کیسے ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی چینی، آٹا اور گندم کی کرپشن پر خان اعظم نے نوٹس لئے؟ کیسے ایل این جی گیس کی مہنگی درآمد اور ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا؟ کیسے آئی ایم ایف کے سامنے ایک ارب ڈالر کے لیے ناک سے لکیریں تک کھینچی گئیں؟ کیسے عالمی مالیاتی ادارے کے اشاروں پر بجلی، گیس، پیٹرول، چینی، آٹا، ادویات کی قیمتیں بار بار بڑھائی گئیں اور غریب عوام پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا؟

کیسے راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی؟ کیسے مالم جبہ اور پشاور بی آر ٹی کے منصوبوں میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔ کیسے سات ارب ڈالر کا ایم۔ ایل ون منصوبہ فائل میں دم توڑ گیا؟ مجھے احساس ہے کہ موضوع طویل ہو رہا ہے، لیکن مرے ممدوح مکرم کی کارکردگی کا تقاضا ہے کہ اسے بیان کرنے میں بخل نہ کیا جائے۔

یہ اعزاز صرف ممدوح مکرم کا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں پاکستان صحافیوں کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ چینلز پر غیر علانیہ سنسر شپ رہی۔ صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جان، مال اور روزگار سے جاتے رہے۔ آپ کے دور میں معاشرتی فیبرک تار تار ہوتا رہا بلکہ لیر و لیر ہوا۔ سانحہ موٹروے لاہور ہوا، سانحہ ساہیوال ہوا، سانحہ مری ہوا۔ میڈیا، ابلاغ، صحافی شدید دباؤ میں کام کرتے رہے۔ لوگ غربت اور بھوک سے خود سوزیاں کرتے رہے، اپنے بچے بچتے رہے۔ مگر دوسری طرف اپنی پسند کے نام نہاد نمائندگان اور چینلز سے اپنی مرضی کا من چاہا پروپیگنڈا چلایا جاتا رہا۔ سب چین ہے کی بانسری بجائی جاتی رہی۔

سنا ہے اسد عمر صاحب بھی ان عوامی جلسوں میں جلوہ افروز ہوں گے اور ہمیں پٹرول کی قیمت کے تعین کے سابقہ فارمولے میں جدید ترین تبدیلیوں سے آگاہ فرمائیں گے۔ اور رضا باقر صاحب المعروف آئی ایم ایف والی سرکار بھی موجود ہوں گے جو عوام کو روپے کی قدر میں کمی کے فوائد سے آگاہ فرمائیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ کیسے ایک سو ارب ڈالر کی بجائے خان نے پورا مرکزی بینک ہی آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارا ہے۔ مزید براں ان عوامی اجتماعات میں شوکت ترین صاحب بھی جلوہ افروز ہوں گے، جو عوام کو معیشت کی اونچی اڑان کے بارے میں اعتماد میں لیں گے۔

اور ان عوامی اجتماعات میں شیخ رشید احمد صاحب بھی رونق افروز ہوں گے اور پہلی بار پاکستان کے عوام اپنے اس ہیرو کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ عوامی مزاج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شاندار کارکردگی اور خان اعظم کی حکومت کی ان کامیابیوں میں پاکستانی عوام شیخ صاحب کو بھی برابر کا حصہ دار سمجھتے ہیں۔ پھر ریلوے کے محکمے اور داخلہ کے محکموں میں اپنی شاندار انتظامی کارکردگی پر بھی عوام ان سے خوش ہیں۔ سنا ہے شیخ رشید احمد ریلوے کو مکمل طور پر کامیاب کرنے اور پاکستان میں دوبارہ سے بدامنی، بم دھماکوں اور سکیورٹی فورسز کے اوپر دہشت گردوں کے حملوں کی وضاحت بھی فرمائیں گے۔

مزید برآں بخاری صاحب بھی اپنے محکمے کی کارکردگی، اور پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کے نیو یارک میں موجود روز ویلٹ ہوٹل کے بند ہونے کے باعث ہونے والے نقصان کی وضاحت بھی فرمائیں گے۔ اسی طرح مراد سعید بھی خاصے پرجوش ہیں اپنی کارکردگی پر۔ وہ تو اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینا چاہ رہے ہیں ان عوامی اجتماعات میں، لیکن پھر نقص امن کے خدشے کے پیش نظر یہ ذمہ داری کسی نسبتاً کم مقبول رہنما کے سپرد کی جائے گی۔

میڈیا مینجمنٹ کی ذمہ داری جناب حسن نثار، صابر شاکر اور ارشاد بھٹی صاحبان کے سپرد ہے اور ان تمام افراد کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر جلسوں میں بھی ساتھ رکھا جائے گا۔ جلسوں کو عوامی رنگ اور موڈ دینے کے لیے سرکاری گلوکار لالہ عطا اللہ اور ماحول گرمانے کے لیے جناب عمران اسماعیل، جناب پرویز خٹک اور اسد عمر صاحب کی کلر مووز سے استفادہ حاصل کیا جائے گا۔ یہ بھی شنید ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب کافی پر امید ہیں کہ ان تمام معاملات پر اپنی قوم کو اعتماد میں لے لیں گے اور عوام اپنے محبوب وزیراعظم کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور اگلی دفعہ وزارت عظمی کے لئے بھی آپ کافی پر امید ہیں اور اس کارکردگی کے بعد بلاشبہ مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments