کیا آپ اپنے جنسی سچ کو دنیا سے چھپائے رکھتے ہیں؟


اس دنیا میں نجانے کتنے مرد اور عورتیں ایسے ہیں جو ساری عمر اپنا جنسی سچ غیروں سے ہی نہیں اپنی بیوی سے بھی چھپائے رکھتے ہیں۔ انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے پیار کا برملا اظہار کر دیا تو یا تو وہ سنگسار کر دیے جائیں گے یا پاگل خانے میں داخل کروا دیے جائیں گے اور یا شہر بدر کر دیے جائیں گے۔

ایسے مرد اور عورتوں اپنوں سے بھی اجنبیوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ لوگ انہیں برسوں جان کر بھی انجان رہتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب انسان اپنے سچ کا اپنوں سے بھی اظہار نہ کرسکے اور اسے اپنے لاشعور میں دھکیل کر دفن کرنے کی کوشش کرے تو وہ سچ جتنا زور سے دبایا جاتا ہے وہ اسی شدت سے اپنا اظہار کرتا ہے کبھی جسمانی عارضہ بن کر اور کبھی ذہنی بیماری بن کر ۔ اسی لیے سگمنڈ فرائڈ نے اپنے مریضوں کے نفسیاتی علاج کے دوران جانا تھا کہ جنسی سچ کا نفسیاتی مسائل سے گہرا تعلق ہے۔

پچھلے چار ہفتوں میں میں نے اپنے کلینک میں چار ایسے مریض دیکھے جن سے جنسی سچ کے چھپانے کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔

پہلی مریضہ نے ’جو دو بچوں کی ماں ہے‘ مجھے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے جانتی ہے کہ اس کے والد اس سے اپنا جنسی سچ چھپا رہے ہیں۔ وہ اس کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں اور وہ چپ رہتی ہے۔ میں نے مثال پوچھی تو کہنے لگی کہ ایک دفعہ وہ اپنی بہن کے ساتھ اپنے والد کے کاٹیج میں ویک اینڈ گزارنے گئی۔ انہیں اتوار کو بارہ بجے دوپہر واپس آنا تھا۔ انہیں واپسی کی تیاری کرتے دیر ہو گئی تو ایک بجے غیر متوقع طور پر ایک اجنبی نمودار ہوا۔ والد نے کہا کہ یہ بڑھئی ہے جو دروازے کی مرمت کرنے آیا ہے۔ جب میری مریضہ اپنی بہن کے ساتھ واپس آ رہی تھی تو دونوں بہنیں اس بات پر متفق تھیں کہ جس طرح ان کے والد نے اس اجنبی کا خیر مقدم کیا تھا وہ کوئی اجنبی نہ تھا بلکہ ان کا محبوب تھا۔

میری مریضہ کے ساٹھ سالہ والد نے اپنا جنسی سچ اپنی جوان بیٹیوں سے بھی چھپا رکھا تھا۔

میرا دوسرا مریض ایک ایسا استاد تھا جس نے مجھے بتایا کہ اس نے بیس برس کی شادی کے بعد اپنی بیوی کو اپنا جنسی سچ بتا دیا کہ وہ گے ہے اور طلاق لے لی۔ طلاق لینے کے باوجود اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے بیٹوں کو اپنا جنسی سچ بتائے کیونکہ اسے خوف تھا کہ اس کے بیٹے اپنے باپ کو عاق کر دیں گے اور وہ پھر ان سے کبھی نہ مل سکے گا۔

گے اور لیسبین مرد اور عورتیں جانتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان کے جنسی سچ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ تین گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

پہلے گروہ کے لوگ ہومو سیکشیولیٹی کو غیر اخلاقی طرز زندگی سمجھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہومو سیکشیولیٹی گناہ ہے اور جو لوگ اور قومیں ہومو سیکشیولیٹی پر عمل کرتی ہیں ان پر قوم لوط کی طرح عذاب نازل ہوتا ہے۔

دوسرے گروہ کے لوگ اسے غیر قانونی جرم سمجھتے ہیں اور گے اور لیسبین لوگوں کو عدالت میں لے جا کر سزا دلوانا چاہتے ہیں۔

تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو ہومو سیکشیولیٹی کو غیر فطری سمجھتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں مرد اور عور کا جنسی رشتہ فطری ہے کیونکہ اس رشتے سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ گے اور لیسبین رشتوں سے بچے پیدا نہیں ہوتے اس لیے وہ اسے غیر فطری سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ مرد اور عورت کی دہنی مباشرت کو بھی غیر فطری سمجھتے ہیں۔

ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ بہت سے گے اور لیسبین مرد اور عورتیں اس لیے شادی بھی کر لیتے ہیں اور بچے بھی پیدا کر لیتے ہیں تا کہ کسی کو ان پر شک نہ ہو کہ وہ ہومو سیکشوئل ہیں۔ وہ ساری عمر ایک جھوٹ بولتے رہتے ہیں ایک ڈھونگ رچائے رہتے ہیں اور منافقت کا لبادہ اوڑھے رہتے ہیں۔ وہ سوتے ایک جنس کے ساتھ ہیں لیکن خواب دوسری جنس کی قربت کے دیکھتے ہیں۔

میری تیسری مریضہ نے بتایا کہ ایک شام اس کی اپنی پکی سہیلی سے دل کی باتیں ہوئیں اور اس نے سہیلی کو بتایا کہ تیس برس کی شادی میں اس کے شوہر نے اس کے ساتھ صرف تین دفعہ ہمبستری کی۔ وہ چونکہ کیتھولک ہے اس لیے اس نے طلاق نہ لی۔ سہیلی نے کہا میری شادی کا بھی یہی حال ہے۔ میری مریضہ نے کہا مجھے شک ہے کہ میرا شوہر تمہارے شوہر کا عاشق ہے۔ سہیلی نے کہا تمہیں تو شک ہے مجھے پورا یقین ہے۔

میں نے جب سے ’ہم سب‘ پر نفسیاتی کالم لکھنے شروع کیے ہیں مجھے نجانے کتنے گے مردوں کے پیغام آئے ہیں کہ انہیں اپنی بیوی میں کوئی جنسی دلچسپی نہیں لیکن ان کے خاندان نے شادی کروا دی ہے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوتے ہیں لیکن کسی مرد سے تصور ہی تصور میں عشق لڑاتے ہیں۔ جب ایسے شوہر مجھ سے مشورہ کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ وہ اور کسی سے کریں یا نہ کریں کم از کم اپنی بیوی کو اپنا سچ بتائیں اور ان سے جدا ہو جائیں تاکہ ان کی بیوی کسی ایسے مرد سے شادی کرے جو ان سے محبت کرتا ہو۔

میرے ایک مریض نے جب مجھے بتایا کہ وہ گے ہے تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ گروپ تھراپی میں دوسرے مریضوں کو بتائے۔ پہلے وہ ہچکچایا لیکن میرا حوصلہ دلانے سے اس نے گروپ تھراپی میں اپنے جنسی سچ کا اظہار کیا۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک خاتون گروپ ممبر نے اسے بتایا کہ اس کی دو بیٹیاں ہیں اور دونوں لیسبین ہیں اور دونوں بیٹیوں نے دو عورتوں سے شادی کر رکھی ہے اور وہ خوشی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں سے بھی خوش ہے اور بہوؤں سے بھی۔

گروپ تھراپی میں ایک مرد ممبر نے اعتراف کیا کہ جب وہ جوان تھا تو ہومو فوبک تھا اور گے اور لیسبین لوگوں سے نفرت کرتا تھا لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس کی سوچ میں انقلاب پیدا کیا۔ اور وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دن اس کے بیس سالہ اکلوتے بیٹے نے اعتراف کیا کہ وہ گے ہے اسے عورتوں میں کوئی دلچسپی نہیں اور وہ کسی مرد سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد میرے مریض کا رویہ بدل گیا اور اس کے دل میں گے اور لیسبین انسانوں کے لیے ہمدردی کے جذبات بڑھنے لگے۔

کینیڈا میں چونکہ یورپ کے کئی ممالک کی طرح قانون بدل گیا ہے اس لیے کینیڈا میں دو عاقل و بالغ گے یا دو لیسبین قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں اور محبت پیار سے ساری عمر اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ایسے مرد اور عورتیں اپنے سچ کا برملا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سچ ہمیں آزاد کرتا ہے۔

میں نے اپنے چوتھے میکسیکن مریض ہولیو سے کہا کہ میں جنسی سچ پر ایک کالم لکھ رہا ہوں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ اپنی آپ بیتی مجھے لکھ کر دے تا کہ میں اسے اپنے کالم کا حصہ بنا سکوں اور اس کے تجربے سے دوسرے لوگ استفادہ کر سکیں۔ میری درخواست پر وہ ایک خط لے کر آیا۔ میں اس خط کی تلخیص اور ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ اس کے خط کا عنوان تھا۔ فیصلہ۔

’ آخر میں نے فیصلہ کر لیا ہے ایسا فیصلہ جو میرا خیال تھا کہ میں کبھی نہ کر پاؤں گا لیکن وہ حتمی فیصلہ کرنے میں مجھے پندرہ برس لگے۔

میری ڈاکٹر سہیل سے ملاقات پندرہ برس پہلے ہوئی۔ وہ میری بیوی اور بچوں سے بھی ملے اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ ہماری شادی کامیاب ہو۔ میں نے بھی بہت کوشش کی کہ اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہوں لیکن میں دل کی گہرائیوں میں جانتا تھا کہ مجھے جوان مرد پسند ہیں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے جنسی سچ کو قبول کر سکوں۔

ایک دن میں نے ڈاکٹر سہیل سے کلینک پر وعدہ کیا کہ میں گھر جاکر اپنی بیوی کو سچ بتا دوں گا لیکن گھر جا کر میں خاموش ہو گیا اور پھر میں شرمندگی کی وجہ سے ڈاکٹر سہیل سے بھی کئی سال نہ مل سکا۔

وقت گزرتا گیا اور میں ایک جھوٹی زندگی گزارتا رہا۔ میرا خیال تھا وقت میرے مسئلے کو بہتر بنا دے گا لیکن میرا مسئلہ بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ مجھے زندگی بیکار لگنے لگی۔

کئی سال بعد میری طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ میں خود کشی کا سوچنے لگا۔ چنانچہ میں نے ایک دفعہ پھر ڈاکٹر سہیل سے رابطہ کیا اور انہوں نے مجھے دوبارہ تھراپی کے لیے قبول کر لیا۔ میں نے ڈاکٹر سہیل کو بتایا کہ مجھے ایک گے دوست ملا ہے جو مجھے بہت چاہتا ہوں۔ میں جب اس کے ساتھ ہوتا ہوں تو جتنا خوش ہوتا ہوں گھر جا کر اتنا ہی چڑچڑا ہو جاتا ہوں۔

اس دفعہ تھراپی نے مجھے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے اپنی بیگم اور بچوں سے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں اپنا سچ بتا دیا کہ میں گے ہوں اور مردوں کو پسند کرتا ہوں۔ میری توقعات کے برخلاف انہوں نے میرے سچ کو قبول کر لیا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں علیحدہ رہوں گا۔ اب میں چند ماہ سے اکیلے رہتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ میرا چڑچڑا پن ختم ہو گیا ہے۔ اب میں خوشی سے اپنے خاندان سے ملتا ہوں۔

میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر سہیل کے مشورے پر کئی سال پیشتر عمل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن پھر میرا دل کہتا ہے۔ تم تیار نہ تھے۔

دیر آید درست آید۔

نوٹ : میں نے چند سال پیشتر جنسیات کی نفسیات پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا SEXUAL FANTASIES AND SOCIAL REALITIES اگر کوئی دوست وہ کتاب پڑھنا چاہیں تو وہ مجھے ای میل کر سکتے ہیں۔ میں انہیں وہ کتاب تحفے کے طور پر بھیج سکتا ہوں۔ میرا ای میل ایڈریس ہے welcome@drsohail.com

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail