شہباز شریف، چوہدری برادران ملاقات: پنجاب کے دو خاندان جن کی سیاسی رقابت اور معاشرتی موافقت ساتھ ساتھ چلتی ہے
فاروق عادل - مصنف، کالم نگار
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے، یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں۔۔
جمہوریت، شہری آزادیوں اور انسانوں کے درمیان برابری کے خواب دیکھنے والے فیض احمد فیض نے جانے کس بچھڑنے والے کو اس انداز میں مخاطب کیا ہوگا۔ لیکن قریب دو دہائی قبل بچھڑنے والے دو سیاسی خاندانوں کی آج کی ملاقات بھی کچھ اسی انداز کی لگتی ہے۔
گجرات کے چوہدری برادران کے بزرگ زمیندار ہوتے ہوئے بھی میدان سیاست کے شاہ سوار تھے۔ پاکستانی سیاست کے پرانے رمز شناس محمد نواز رضا کی مانیں تو سچ یہ ہے کہ ایوب خان کی دست برد سے آزاد ہونے کے بعد مسلم لیگ کا اگر کوئی والی وارث تھا تو وہ چوہدری ظہور الٰہی ہی تھے۔
اس کے مقابلے میں جاتی امرا والے شریف خاندان کے بزرگ صنعت و تجارت کی دنیا کے تاجدار تھے لیکن ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
پس منظر کے اس اختلاف کے باوجود یہ بھی کیا دلچسپ اتفاق ہے کہ دونوں خاندانوں کی اگلی نسل سیاست میں آئی۔ صرف اتنا نہیں ہے، اس نسل میں اپنے سیاسی سفر کی ابتدا بھی ایک ساتھ کی۔ پھر جیسا فیض صاحب نے کہا، جدائی نے ان میں فاصلے پیدا کیے۔ اب لگتا ہے کہ وہ جدائی رات بھر کی تھی۔ عین ممکن ہے کہ ان کی راہیں ایک بار پھر مشترک ہو جائیں۔ تجربہ کار سیاسی مبصرین کو تو قع ہے کہ بچھڑے ہوؤں کا ملنا بڑے امکانات حتیٰ کہ حکومت کی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے جس کا امکان چند روز قبل شاید نہیں تھا۔
چوہدری ظہور الٰہی ستمبر سنہ 1981 میں قاتل کی گولی کا نشانہ بنے۔
اس واقعے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد پاکستان کی قومی سیاست نے انگڑائی لی۔ سنہ 1977 کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد دو بلدیاتی انتخابات ہو چکے تھے جب کہ سنہ 1985 میں پہلے غیر جماعتی عام انتخابات ہوئے۔ یہی انتخابات ہیں جو صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک کی سیاست میں ایک نئے دور کی ابتدا ثابت ہوئے۔
یہ انتخابات تھے جن کے ذریعے پاکستان کی سیاست میں چند نئے چہرے بھی متعارف ہوئے۔
انتخابات میں جیسا کہ ہوتا ہے، بہت سے پرانے اور آزمودہ کار سیاست دان ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آگئے۔ مخدوم زادہ حسن محمود ہوں، ملک اللہ یار یا ان ہی کی طرح کے دیگر سرد و گرم چشیدہ لوگ، دنیا انھیں جانتی تھی اور یہ دنیا کو جانتے تھے۔
اسی لیے تجربہ کار لوگوں کا خیال تھا کہ پنجاب کے اقتدار کی پگ ان ہی میں سے کسی کے سر سجے گی۔
یہ قرین حقیقت تھا لیکن اسی انتخاب کے نتیجے میں ان پرانے تجربہ کار سیاست دانوں کے جُھرمٹ میں کچھ نئے ستارے بھی طلوع ہوئے تھے۔ ان میں سے دو کا تعلق گجرات سے تھا۔ یعنی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی۔
میدان سیاست میں یہ دونوں نووارد تھے۔ چوہدری شجاعت نے والد کے قتل کے بعد ان کی جگہ سنھبالی تھی یعنی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے جبکہ ان کے کزن چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں پہنچے۔ ان دو نوواردوں کی طرح لاہور ہی سے ایک اور نوجوان اس اسمبلی کا رکن بنا جس کا سیاسی پس منظر صرف اتنا ہی تھا کہ چند ہفتے پہلے تک وہ گورنر غلام جیلانی کی کابینہ کا رکن تھا۔
ان نوواردوں کے اسمبلی میں پہنچنے کے بعد صوبے کی سیاست میں جو کچھ بھی ہوا غیر متوقع طور پر ہوا۔
مخدوم زادہ حسن محمود اور ملک اللہ یار تو پہلے ہی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں موجود تھے۔ ان کے بعد بہاول نگر کے چوہدری عبدالغفور بھی میدان میں کُود گئے۔ کچھ اور لوگوں کے دل میں بھی پنجاب کی قیادت کی خواہش جاگی ہوگی۔
ان میں ایک چوہدری پرویز الہٰی بھی تھے۔ پرویز الہٰی ان دنوں اگرچہ گجرات کی ضلع کونسل کے چیئرمین تھے۔
اس کے باوجود ان کا نام بھی وزارت اعلیٰ کے امیدواروں کی فہرست میں آگیا۔ یہ سب ہوا لیکن ایک شام جب چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیا الحق پنجاب کے متوقع وزیر اعلیٰ کے بارے میں زبان کھولے بغیر اسلام آباد پرواز کر گئے تو گورنر غلام جیلانی نے محمد نواز شریف نامی رکن پنجاب اسمبلی کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا۔
اس واقعے نے سیاست کے پرانے اور تجربہ کار مبصرین کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔
یہ نامزدگی اس لیے اہم تھی کہ اس وقت آئین کے تحت مرکز میں وزارت عظمیٰ کے اختیارات صدر اور صوبوں میں کسی بھی شخص کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کرنے کا اختیار گورنر رکھتا تھا۔ نامزد ہونے والے قائد ایوان کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایک خاص مدت کے دوران ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لے۔
اس انتظام کا ایک مطلب یہ واضح کرنا بھی تھا کہ طاقت کا سایہ کس کے سر پر ہے۔ یوں از خود اسے اکثریت حاصل ہو جاتی تھی۔ یہی کچھ پنجاب میں بھی ہوا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی خود نوشت ‘سچ تو یہ ہے’ میں لکھا ہے کہ گورنر جیلانی نے نواز شریف کو نامزد کرنے سے پہلے انھیں اعتماد میں لیا تھا۔ انھوں نے نواز شریف کی نامزدگی پر شہری اور دیہی کی بحث کے چھڑنے کا ذکر بھی کیا ہے۔
سبب یہ تھا کہ اس سے قبل منتخب ہونے والے وزرائے اعلیٰ کا تعلق ہمیشہ دیہی علاقوں سے ہی ہوا کرتا تھا۔
چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ یہ بحث میرے ایک بیان سے ختم ہوئی:
‘ قائد اعظم دیہاتی تھے یا شہری؟’
اس بیان نے نواز شریف کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دُور کر دی۔
نواز شریف کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ان کے اور چوہدری خاندان کے اتحاد میں پہلا رخنہ اس وقت آیا جب چوہدریوں نے محسوس کیا کہ اسمبلی میں ان کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے نواز شریف ان کے ساتھیوں کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چوہدری شجاعت نے لکھا ہے کہ یہ صورت حال دیکھ کر جنرل ضیا الحق نے نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر آمادگی ظاہر کردی لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی حمایت بھی کردی۔ اس موقع پر ان کا ایک بیان بھی بہت مشہور ہوا تھا:
‘نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے’۔
یوں مفاہمت کے حالات پیدا ہو گئے اور نواز شریف کی درخواست پر چوہدریوں نے ان کے ساتھ صلح کر لی۔
مسلم لیگ قائد اعظم کے سابق ڈپٹی سیکریٹری جنرل عظیم چوہدری اس تاثر کی تردید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تحریک عدم اعتماد پیر پگارا کی وجہ سے ناکام ہوئی تھی۔ مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل اقبال احمد خان نے وزیر اعظم محمد خان جونیو کو مشورہ دیا تھا کہ جمہوریت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، اس کی اگر ایک اینٹ بھی گر گئی تو ساری عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔
اس طرح جونیوجو کی ایما پر پیر پگارا کی مداخلت نے حالات کو پلٹ دیا۔
صلح کے بعد نواز شریف کو دورہ گجرات کی دعوت دی گئی۔ نواز شریف ابھی راستے میں ہی تھے کہ جوش و خروش سے بھرے ہوئے استقبالی ہجوم نے وزیرآباد کے قریب ان کی گاڑی کو کاندھوں پر اٹھا لیا۔ یوں دونوں اتحادیوں کی رنجشیں دور ہوگئیں۔ اس کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کی کابینہ میں دوبارہ شامل کر لیا گیا۔
عدم اعتماد کی تحریک کے ہنگامے میں وہ کابینہ کے رکن نہیں رہے تھے۔
چوہدری شجاعت حسین نے لکھا ہے کہ سنہ 1988 کے انتخابات کے موقع پر نواز شریف اور چوہدریوں میں ایک بار پھر دوریاں پیدا ہوئیں۔ یہاں تک کہ بقول چوہدری شجاعت کے ان کے خاندان کو شکست سے دوچار کرنے کی کوششیں انتظامی سطح پر ہوئیں لیکن وہ کامیاب رہے۔
انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو نے چوہدری پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کی پیش کش کی۔
اس موقع پر نواز شریف نے ایک بار پھر ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس طرح تو پیپلز پارٹی اقتدار میں آ جائے گی۔ یوں اس خاندان نے ایک بار پھر نواز شریف کا ساتھ دیا۔ بعد میں جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو اس موقعے پر وعدہ یہی تھا کہ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا لیکن چوہدری شجاعت کے بقول وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔
اسی طرح چوہدری شجاعت جو مرکز میں وزیر داخلہ تھے، ان کے اختیارات احتساب بیورو والے سیف الرحمٰن استعمال کیا کرتے تھے۔
اقتدار کی دھوپ چھاؤں میں ان دونوں سیاسی خاندانوں کے درمیان گرمی سردی کے آثار دیکھے جاتے رہے لیکن سنہ 1999 میں جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو وقت نے ایک بات پھر پلٹا کھایا۔ یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ فوجی حکمران شریف خاندان کی خواتین کو گرفتار کر لیں گے۔ اس موقع پر ‘نوائے وقت’ کے مدیر اعلیٰ مجید نظامی سے رابطہ کیا گیا۔
نواز رضا کے مطابق چوہدری شجاعت کو خبر ملی تو وہ وہیں پہنچے اور کہا کہ شریف خاندان کی خواتین ہمارے خاندان کی خواتین ہیں، کسی میں جرات نہیں کہ انھیں گرفتار کر سکے۔
اس زمانے میں جب بیگم کلثوم نواز نے پارٹی کی قیادت شروع کی تو اس دوران میں وہ جب بھی اسلام آباد آتیں، چوہدری شجاعت حسین اپنا گھر خالی کر کے ان کی تحویل میں دے دیتے۔ نواز رضا کہتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران چوہدری خاندان بیگم کلثوم نواز کی پرائیویسی کے احترام میں اس گھر سے اپنا تعلق بالکل ہی ختم کر لیتا۔
اس تعلق کے باوجود دونوں خاندانوں میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ اس کا سبب شریف خاندان کا یہ شکوہ تھا کہ وہ جنرل مشرف سے رابطے میں ہیں۔ عظیم چوہدری اس سلسلے میں چوہدری شجاعت کا ایک دلچسپ جملہ سناتے ہیں، ان کا کہنا تھا:
‘جنرل مشرف سے رابطوں کا مطلب شریف خاندان سے قطع تعلق تو نہیں تھا’۔
چوہدری شجاعت ان رابطوں کے سلسلے میں جو دلیل بھی رکھتے ہوں، دونوں خاندانوں کے درمیان دوریاں یقینی تھیں جو پیدا ہو کر رہیں۔ یہی زمانہ تھا کہ جب مسلم لیگ ہاؤس سے مسلم لیگ ن کو نکال کر اسے ق لیگ کے سپرد کیا گیا۔ تعاون کی طرح یہ تلخیاں بھی دو طرفہ تھیں۔ اس کے باوجود دونوں خاندانوں کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر رابطہ برقرار رہا۔
عظیم چوہدری بتاتے ہیں کہ اس تعلق کا سب سے بڑا مظہر وہ سہولتیں ہیں جو سعودی عرب اور لندن میں شریف خاندان کو حاصل رہیں۔ خاص طور پر شہباز شریف کے کینسر کے علاج کے لیے آپریشن کے سلسلے میں۔
شریف خاندان کی وطن واپسی کے بعد ان دونوں پرانے سیاسی رفقا کے اتحاد کی بحالی کی ایک سنجیدہ کوشش ہوئی۔ نواز شریف پہلے والدہ کی تعزیت کے لیے چوہدری شجاعت کے گھر گئے۔ اس کے بعد انھیں اپنے گھر ظہرانے پر مدعو کیا۔ یہ ظہرانہ سبوتاژ کر دیا گیا۔ نواز رضا کہتے ہیں:
‘اس کی وجہ چوہدری صاحبان کی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے ملاقات بنی۔ اس ملاقات کی وجہ سے چوہدری نثار نے یہ ظہرانہ نہ ہونے دیا’۔
ملک کے ان دو بڑے سیاسی خاندانوں کے درمیان تعلقات کی تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے باہمی تعلقات ہمیشہ ہموار نہیں رہے لیکن ان تفصیلات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اختلافات کے باوجود ان کے درمیان انسانی اور اخلاقی سطح پر تعلقات کا ایک خوش گوار پہلو ہمیشہ موجود رہا۔
مشکل وقت میں چوہدری خاندان جس طرح شریف خاندان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہوگیا یا راستے علیحدہ ہونے کے باوجود ان کے کام آیا، بالکل اسی طرح شریف خاندان کبھی پیچھے نہ ہٹا۔
دونوں سیاسی خاندانوں سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی قریب میں چوہدری خاندان بھی کئی قسم کی آزمائشوں سے دوچار رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں چوہدری مونس الہٰی عدالت کے حکم پر گرفتار کر لیے گئے تھے۔ یہ گرفتاری چوہدری خاندان کے لیے کسی آزمائش سے کم نہ تھی۔
اس موقع پر شریف خاندان نے دونوں خاندانوں کی دیرینہ روایت کا پاس کرتے ہوئے اپنا دست تعاون دراز کیا۔
یہی وجہ تھی کہ مونس الہٰی جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے سے بچ گئے۔ انھوں نے نظر بندی کے یہ ایام ایک آرام دہ ریسٹ ہاؤس میں گزارے۔ اسی طرح موجودہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز جیل میں تھے تو چوہدری پرویز الہٰی نے عمران خان کی خواہش کے خلاف ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔
ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بہت سارے وہ مقدمات کو جو مختلف زمانوں میں چوہدری خاندان کی مختلف شخصیات کے خلاف بنے، ان کے مخالفین نواز شریف کے دور حکومت میں ایسا کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
تعلقات کی اس طویل دھوپ چھاؤں کے بعد یہ دونوں خاندان ایک بار پھر اکٹھے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان چوہدری برادران سے ملاقات کر چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد شہباز شریف کی ان سے ملاقات فطری طور پر غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
شریف ہوں یا چوہدری، دونوں خاندانوں کے یہ بڑے باہمی تعلقات کی نوعیت اور سیاست کی حرکیات کو جتنا سمجھتے ہیں، شاید ہی کوئی اور سمجھتا ہو۔
دونوں خاندانوں کی اہم شخصیات اور ان کے مزاج کو سمجھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری برادران کی یہ ملاقات کسی اچانک ڈرامائی اور دھماکہ خیز اعلانات کی توقع رکھنے والوں کو ممکن ہے، فوری طور پر مایوس کرے لیکن سیاست کی زیریں اور فیصلہ کن لہروں پر نگاہ رکھنے والوں کو آنے والے دنوں کے موسم سے ضرور آگاہ کرے گی۔
دو حریفوں کے درمیان یہ ملاقات بظاہر اچنبھے کا باعث ہے لیکن ان خاندانوں کے درمیان ہر موسم میں رابطوں سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں بہت کچھ ہو سکتا ہے یہاں تک کہ سیاسی نوعیت کے دھماکے بھی، خواہ ان کی آواز ذرا بعد سنائی دے۔
- حافظ نعیم: کیا یہ جماعت اسلامی کی نظریاتی بازیافت ہے؟ - 08/04/2024
- ضرورت ہے ایک مہرباں تھپکی کی - 02/04/2024
- آصف زرداری اور شہباز شریف کی جوڑی - 12/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).