بلوچ طلبا کا اسلام آباد پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج: ’ماں باپ منتیں کر رہے ہیں کہ گھر مت آؤ، ورنہ تم بھی لاپتہ یا مار دیے جاؤ گے‘

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


احتجاج
’یونیورسٹی سے ہماری چھٹیاں ہیں لیکن ہم صرف اس خوف کی وجہ سے گھر نہیں جا رہے کہ نجانے ہم زندہ واپس آ بھی پائیں گے یا نہیں۔‘

اسلام آباد میں پڑھنے والے بلوچ طالب علم پریس کلب کے باہر اپنے ساتھی احتشام بلوچ کے قتل اور قائداعظم یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج میں موجود تھے۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بی ایس پروگرام کے پہلے سمسٹر کے طالب علم احتشام بلوچ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھر پنجگور میں موجود تھے جب 2 فروری کی رات عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے پنجگور اور نوشکی میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کیے گیے۔

’30 سے زیادہ بلوچ افراد کو لاپتہ کیا جا چکا‘

احتشام کے بھائی کے مطابق احتشام 3 فروری کی صبح بس ٹرمینل سے اپنے چند مہمانوں کو لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ یہ ٹرمینل پنجگور کے مرکزی بازار اور ایف سی ہیڈ کوارٹرز کے قریب ہی واقع ہے۔

احتشام جب اپنے گھر واپس نہ لوٹے تو ان کے بھائی تلاش میں نکلے۔ انھیں اگلے روز پولیس نے احتشام کی لاش حوالے کی جن کو سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

اس احتجاج کے شرکا کا الزام ہے کہ ایف سی ہیڈ کوارٹر نوشکی اور پنجگور پر حملے کے بعد متعدد بلوچ طلبا کو قتل اور جبری طور پر گمشدہ کیا گیا جن میں دو طلبا احتشام بلوچ اور حفیظ بلوچ اسلام آباد کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم تھے۔

بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کا دعویٰ ہے کہ نوشکی اور پنجگور حملوں کے بعد 30 سے زیادہ بلوچ افراد کو لاپتہ کیا جا چکا ہے۔

احتجاج

بلوچ طلبا کی آنکھوں سے جھلکتا خوف

اب سے کچھ ماہ قبل میں اسلام آباد پریس کلب نور مقدم کے قتل کے خلاف احتجاج کی کوریج کے لیے آئی تھی۔ اس وقت بھی شرکا کی تعداد اتنی ہی تھی اور ان میں بھی غم و غصہ اتنا ہی تھا جتنا آج میں نے ان بلوچ طلبا میں محسوس کیا۔

مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس دن اس احتجاج کی کوریج کے لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا بڑی تعداد میں موجود تھا مگر آج یہ تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

احتجاج میں شریک طلبا میں غم و غصے کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں خوف بھی صاف ظاہر تھا۔

یہ بھی پڑھیے

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم مبینہ طور پر لاپتہ، خاندان کا جبری گمشدگی کا الزام

’آپ لوگوں کے چینل پر ہماری خبر نہیں آئی، بلوچستان چار روز تک غائب تھا‘

پنجگور، نوشکی میں ایف سی پر حملے: کیا بلوچ شدت پسندوں کی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے؟

’تم بھی لاپتہ ہو جاؤ گے یا مار دیے جاؤ گے‘

’آپ میں سے کوئی ہمارے خوف کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہر کسی کے ماں باپ اپنے بچوں کو چھٹیوں میں گھر بلاتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ ہماری منتیں کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے گھر مت آو ورنہ تم بھی لاپتہ یا مار دیے جاؤ گے۔‘

احتجاج میں شریک ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ ان کے امتحانات جاری ہیں لیکن پڑھائی کی بجائے وہ اس وقت یہاں احتجاج کر رہے ہیں۔

اس احتجاج میں میری ملاقات احتشام اور حفیظ بلوچ کے کلاس فیلوز اور ہاسٹل کے ساتھیوں سے بھی ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ حفیظ اور احتشام دونوں ہی تعلیم میں بہت تیز تھے اور اپنا زیادہ تر وقت لائبریری یا سائنس لیب میں گزارتے تھے۔ دونوں ہی نے کبھی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا۔

حفیظ بلوچ کے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ حفیظ بلوچ کو خضدار سے اس وقت ’اغوا‘ کیا گیا جب وہ اکیڈمی میں پڑھا رہے تھے۔

’اسے اس کے شاگردوں کے سامنے اٹھا کر لے گئے۔ سوچیں آپ نے ان بچوں کو کیا پیغام دیا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ محفوظ نہیں؟‘

اس احتجاج کا انعقاد بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق اساتذہ اور انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور فرزانہ باری نے بھی شرکت کی۔ البتہ حکومت یا اپوزیشن کا کوئی بھی نمائندہ اس احتجاج میں شریک نہیں ہوا۔

احتجاج

شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے دیگر علاقوں کے رہنے والے بلوچستان اور اس کے حالات کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ایک اندھا، ہاتھی اور اس کے دانت کے بارے میں۔‘

جب اس احتجاج کے شرکا نے مارچ کیا تو بس سٹاپ اور دکانوں پر کھڑے متعدد لوگوں سے پوچھا کہ آیا وہ جانتے ہیں کہ یہ بلوچ نوجوان احتجاج کیوں کر رہے ہیں تو سب ہی نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔

مجھے یہ جان کر بھی بہت حیرانگی ہوئی کہ ان میں سے بہت سے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ بلوچستان کے شہروں کے نام کیا ہیں۔

احتجاج میں شریک تمام ہی شرکا نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے حفیظ بلوچ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حفیظ بلوچ پر دہشتگری کا کوئی الزام ہے تو انھیں عدالت میں پیش کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاہم سکیورٹی فورسز کی جانب سے حفیظ بلوچ کو گرفتار کیے جانے یا نہ کیے جانے سے متعلق ابھی تک تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments