معمار


بس سے اتر کر تقریباً دو میل پیدل چلنا پڑا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈی، پتھروں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر سے ہوتے ہوئے ٹیلوں اور خود رو جھاڑیوں سے گزر کر یکایک وہ گاؤں سامنے آ گیا تھا اور گاؤں کی پتلی پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے، گندی نالیوں کو پھلانگتے ہوئے، چھوٹے جوہڑوں سے بچتے ہوئے اور چند ٹوٹے پھوٹے مکانوں اور جھگیوں سے گزر کر تقریباً گاؤں کے دوسرے کنارے پر پہنچ کر ایک اونچی سی چٹان کے اوپر ایک چھوٹی سی مسجد کے باہر وہ بیٹھا ہوا تھا، ایک بڑے سے پتھر کے اوپر اس کی دو بیساکھیاں ساتھ ہی زمین پر رکھی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کٹے ہوئے پیر شلوار کے اندر تھے۔

اس نے اوپر سے ہی مجھے دیکھا تھا اور بے ساختہ کھڑا ہونے کی کوشش کی تھی اور لڑکھڑا کر گر پڑا تھا۔ اس کے پیر کٹ گئے تھے جن پر نہ کھڑے ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی مجبوری اس کے ماتھے کی پیشانی اور گھبراہٹ نے جیسے اسے توڑ سا دیا تھا۔ میں چھلانگ لگا کر اس کے پاس پہنچ گیا اور اسے گلے سے لگایا۔ اس نے میرے ماتھے کو چوما اور میں اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گیا تھا۔

رحمان جب کراچی میں تھا تو شروع شروع میں، میں نے اسے بالکل ہی پسند نہیں کیا۔ میری اس کی پہلی ملاقات صبح پونے آٹھ بجے ہوئی تھی۔ وہ میرا آفس میں پہلا دن تھا۔ میرا آفس آواری ٹاور کی بلڈنگوں میں تھا۔ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ آواری ٹاور اور میٹروپول کے آس پاس گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ مشکل ہی سے ملتی تھی اس لئے صبح سویرے آ کر ہم سب لوگ اپنی گاڑیاں کھڑی کر دیتے تھے اور صبح سویرے ہی کام کا آغاز بھی ہوجاتا تھا۔

اس روز میں نے گاڑی کھڑی ہی کی تھی کہ وہ آ گیا تھا۔ کالے رنگ کے ملیشیا کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اس نے۔ نہ وہ کالا تھا نہ گورا۔ بال کٹے ہوئے تھے اور بکھری ہوئی داڑھی نے تقریباً پورے چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔ آنکھوں میں کچھ تھا، کھوئی کھوئی ہوئی آنکھیں، کچھ بے قرار سی آنکھیں، سوئی سوئی سی مگر ہراساں آنکھیں، میں انہیں کوئی مفہوم نہیں دے سکا تھا۔

اس نے پوچھا تھا، گاڑی صاف کرانی ہے اور مجھ پر اور میری گاڑی پر بھرپور نظر ڈالی تھی۔
”سن بھائی، یہاں پر کھڑی کی ہے۔ ابھی تو صاف کر کے آیا ہوں۔“ میں نے جواب دیا تھا۔
”اچھا بھائی، کوئی بات نہیں ہے۔ میں خیال رکھوں گا“ ، اس نے جواب میں کہا تھا۔

”خیال رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کون سا اس میں ہیرے چاندی رکھے ہوئے ہیں؟“ میں نے جواب دیا اور سوچا تھا کہ واپسی پر خیال کرنے کے پیسے چارج کر لے گا۔

”خیال کرنے کے پیسے نہیں لگتے ہیں۔“ اس نے شاید میرا ذہن پڑھ لیا تھا۔ ”آپ نئے آئے ہو ادھر اس لئے آپ کو پتا نہیں ہے۔“ اس نے جواب دیا تھا۔

وہ صحیح کہہ رہا تھا خیال کرنے کے پیسے نہیں لگتے تھے اور میں آیا بھی نیا تھا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ ان سڑکوں پر کھڑی ہونے والی گاڑیوں کا کارپوریٹ کلچر کیا تھا۔

مجھے بعد میں آفس کے ساتھیوں سے پتا لگا تھا کہ وہ صبح سے شام تک گاڑیوں کی صفائی، دھلائی کا کام کرتا تھا۔ ہمارے آفس اور آس پاس کے دفتروں میں جتنے بھی لوگ کام کرتے تھے ان کی گاڑیوں کی صفائی کی ذمہ داری اس کی تھی۔ صبح سویرے سے اس کے کام کا آغاز ہوجاتا تھا اور شام گئے تک وہ کام کرتا رہتا تھا۔ آفس کی گاڑیوں کی صفائی، آنے جانے والے لوگوں کی گاڑیوں کی صفائی کے لئے اس نے اپنا خود ہی تقرر کر لیا تھا۔

کراچی کی سڑکوں کا اپنا ایک الگ انتظام ہے۔ شہر کے کچھ علاقے میونسپلٹی کی ذمہ داری ہیں اور کچھ علاقوں کا نظام کنٹونمنٹ بورڈ نے سنبھالا ہوا ہے اور کچھ علاقوں کا انتظام کسی کے حوالے نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں مسلسل گٹر بہتے رہتے ہیں اور کچھ علاقوں میں گٹر کے بہنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے گزشتہ کئی سال میں میٹروپول اور گورنر ہاؤس کے آس پاس نہ گٹر بہتا ہوا دیکھا ہے نہ کوڑے کے ڈھیر نظر آئے ہیں۔ اگر میونسپلٹی کسی علاقے کو صاف رکھنا چاہتی ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اسی طرح سے گندگی کو پھیلانے کا بھی یہی سلسلہ ہے۔

کراچی شہر بھی بانٹا ہوا ہے فقیروں نے۔ یہاں پر ایک طرح کا ٹھیکیداری کا نظام ہے جو ٹھیکیدار جس علاقے میں فقیروں کا انتظام کرتا ہے اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس علاقے کی پولیس کو بھی کھانا دے اور اپنے فقیروں کے بھی رہنے سہنے کا انتظام بھی کرے۔ ایک علاقے کے فقیر کسی دوسرے علاقے میں بھیک نہیں مانگ سکتے ہیں اور اسی طرح سے ایک علاقے کے پولیس والے دوسرے کے علاقے میں بھتا نہیں لے سکتے ہیں۔

جیب کتروں، اٹھائی گیروں، بھتا لینے والوں اور ڈاکا ڈالنے والوں کے درمیان بھی شہر بٹا ہوا ہے۔ اس معاملے میں وہ سب سے ایماندار ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ بے ایمانی کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور بے ایمان اپنے اصولوں میں بڑے ذمہ دار اور بہت ایماندار ہوتے ہیں۔

اسی طرح سے شہر میں پارک ہونے والی گاڑیاں بھی بٹی ہوئی تھیں، علاقے بٹے ہوئے تھے اور ان کا نظام بھی بٹا ہوا تھا۔

آہستہ آہستہ رحمان نے مجھے کراچی میں اپنی کہانی سنا دی، ٹکڑے ٹکڑے کر کے، جواب تک اس پر بیتی تھی۔

رحمان سوات سے آیا تھا جب وہ کراچی آیا تھا تو صحیح طریقے سے بڑا بھی نہیں کہلا سکتا تھا۔ ابھی بچہ ہی تھا کہ اس کے باپ نے اسے اس کے چچا کے ساتھ کراچی بھیج دیا تھا۔ اسے بھی بہت شوق تھا کراچی آنے، وہاں کام کا اور کام کرنے کے بعد پیسے جمع کر کے اپنے گاؤں واپس جائے گا، طرح طرح کی چھوٹی موٹی چیزیں لے کر ، فخر و غرور کے ساتھ۔ پڑھنے اور اسکول جانے کا اسے کبھی بھی شوق نہیں تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں جو کراچی کا نقشہ کھینچا ہوا تھا اصلی کراچی اس نقشے سے مختلف تھا۔ اس نے اپنے گاؤں کی ایک بڑی تصویر بنالی تھی اپنے ذہن میں اپنے اصولوں کے مطابق جو ہزاروں سال پرانے ہیں۔ پتھر کے زمانے کے اصول۔ کراچی اور کراچی کے اصول بدلتے رہتے ہیں، بہت تیزی کے ساتھ، کوئی ٹھہراؤ نہیں ہے ان میں۔ ہر روز نیا قانون ہر روز نیا دن۔

کراچی اس کی زندگی کا عجیب و غریب تجربہ تھا۔ اتنی گاڑیاں، اتنی روشنی، اتنی عورتیں سڑکوں پر اس نے پہلی دفعہ دیکھی تھیں۔ شروع شروع میں تو وہ گھنٹوں فارغ وقت میں سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر گاڑیاں گنتا رہتا، اس کی گنتی ختم ہوجاتی تھی، گاڑیاں ختم نہیں ہوتی تھیں۔

اس کا چچا ایک آفس میں چوکیدار تھا۔ اسی آفس میں وہ بھی کام کرنے لگا تھا۔ اس کے ذمے آفس کے اوپر سے کام کرنا تھا اور آفس میں کام کرنے والوں کو چائے پلانا تھا۔ شروع میں تو اس کو مشکل ہوئی تھی مگر پھر وہ کام کا عادی ہو گیا تھا۔ یہی اس کی دنیا تھی اور یہی کراچی کا پہلا بسیرا۔

اس کا چچا کینٹ اسٹیشن کے پیچھے ایک کچی آبادی میں رہتا تھا۔ ریلوے کی زمین پر اس کچی آبادی میں ملک کے ہر جگہ کے لوگ رہتے تھے۔ پٹھان، پنجابی، بلوچ، سندھی، سرائیکی، مہاجر، افغان، برمیز، چائنیز اور نہ جانے کس کس جگہوں کے کس کس طرح کے لوگ۔ زمین کم پڑ گئی تھی، آبادی بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ چھوٹے سے کمرے میں وہ چار آدمی تھے، دو بستر پر سوتے تھے اور دو بستروں کے نیچے زمین کے اوپر۔ کمرے کے باہر ایک طرف چولہا بنا ہوا تھا اور ساتھ میں غسل خانے کا انتظام تھا۔

ہزاروں لوگ اسی طرح سے رہتے تھے اور وہ بھی ان لوگوں میں آ کر رچ بس گیا تھا۔ جیسے یہیں پیدا ہوا ہو۔ کچی آبادیوں میں رہنے کے اصول بہت سادے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں کوئی اصول ہوتے ہی نہیں ہیں۔ گندگی روکنے یا پھیلانے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوتا ہے۔ بجلی کی چوری کا کوئی اصول نہیں ہوتا ہے۔ پانی کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہے۔ ہر گھر ہر جھونپڑی ہوتی ہے۔ گھر گھر نہیں ہوتے ہیں سر چھپانے کی، رات بتانے کی ایک جگہ ہوتی ہے۔ سرکار کا قانون نہیں علاقے کے دادا، چودھری، مکھیا کا قانون چلتا ہے۔ یہ قانون سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔

تھوڑے دنوں میں ہی دفتر کے کام سے اس کا دل بھر گیا تھا۔ اس کا دل کرتا تھا زیادہ کام کرے اور زیادہ پیسے کمائے۔ اس کے چچا نے کہا تھا جو بھی کام کرنا ہے کرے مگر صرف یہ خیال رکھے کہ کراچی کے کسی ایسے گروہ کے چکر میں نہ پڑ جائے جو برے کام کرتے ہیں۔ برے کام بہت سارے تھے۔

شراب کی تقسیم کا ایک نظام تھا جس میں بہت سے لوگ لگے ہوئے تھے۔ شہر کے کونے کونے میں شراب پہنچانے کے مختلف طریقے تھے اسی طرح سے چرس اور ہیروئن کے اڈے تھے جہاں سے منظم طریقے سے چرس اور ہیروئن شہر بھر میں پہنچائی جاتی تھی۔ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مزاروں پر پہنچانے کا بہت عمدہ نیٹ ورک تھا۔ وقت پر ضرورت مند کو چیز مل جاتی تھی۔ شہر میں خاندانی منصوبہ بندی کی اتنی اچھی پلاننگ نہیں تھی جتنی اچھی ہیروئن کی ڈسٹری بیوشن کا نظام تھا۔

اسلحہ کا کام تو بہت ہی اچھے طریقے سے ہو رہا تھا۔ کیونکہ اسلحہ ہر آدمی خریدنا چاہتا تھا اور بعض لوگ تو مستقل خریدار تھے۔ یہ سارے کام بڑے بڑے لوگوں کی مرضی اور ان کی شراکت سے چلتے تھے اور کبھی کبھی چھاپے مارے جاتے تھے تو چھوٹے لوگ گرفتار ہو کر جیلوں میں سڑتے رہتے تھے۔ ان کے دوست رشتہ دار پیسوں کا انتظام کرتے تھے، پھر پولیس اور عدالتوں میں یہ پیسہ چلتا تھا اور انہیں رہائی نصیب ہوتی تھی۔ کراچی کے اس کالے دھندے میں لاکھوں لوگوں کا روزگار تھا۔ ان بے روزگاروں کا بھی جو نوکری کی تلاش میں تھے اور ان کارندوں کا بھی جو کم تنخواہ پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازم تھے۔

نہ جانے کیوں پہلے دن سے ہی رحمان نے اس قسم کے کسی کام میں حصہ لینے کی کوشش نہیں کی تھی حالانکہ اس کے بہت سارے ہم زبان اسی طرح کے کاموں میں لگے ہوئے تھے اور نظروں کے سامنے ہی جو ٹین کے بکس میں سامان لے کر آئے تھے وہ پجارو گاڑیوں میں گھومنے لگے تھے۔ انہیں صرف پیسہ کمانا تھا۔ ہر قیمت پر اور ہر قسم کا دھندا کر کے۔

اسی طرح سے اس کے چچا نے اسے سمجھایا تھا کہ کراچی کے کچھ علاقوں میں اس کو کبھی بھی نہیں جانا ہے۔ لالو کھیت، اورنگی کے بعض علاقے جیکب لائنز کے علاقے کراچی میں رہنے والے پٹھانوں کے لئے نہیں تھے۔ جب بھی کراچی میں حالات خراب ہوتے تھے تو ان علاقوں میں غارت گری ہوتی تھی۔ بسیں جلتی تھیں، کاریں چھینی جاتی تھیں، گھر لٹتے تھے۔ چھابڑی والے، پان والے، مزدور، دکاندار اپنے کاموں سے محروم ہو کر گھر بیٹھ جاتے تھے اور جانیں تو ایسے جاتی تھیں کہ جن کا کوئی حساب بھی نہیں تھا۔ اب اتنی جانیں جا چکی تھیں کہ ان کا حساب کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ آخر کب تک حساب رکھا جائے؟ حساب کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔

کراچی میں عجیب عجیب طرح جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ کبھی مہاجروں اور سندھیوں کا جھگڑا تو کبھی مہاجروں اور پٹھانوں کا جھگڑا شروع ہوجاتا تھا پھر کبھی مہاجروں اور پنجابیوں کا جھگڑا ہوجاتا۔ جب مہاجر دوسروں سے لڑ جھگڑ کے تھک جاتے تو پھر آپس میں جھگڑنا شروع کر دیتے تھے اور ان جھگڑوں میں نہ جانے کتنے معصوم لوگ اپنی جانیں کھو دیتے۔ رحمان کی سمجھ میں کبھی بھی نہیں آیا تھا کہ یہ جھگڑے کیوں شروع ہوتے ہیں؟ کون ان کے پیچھے ہوتا ہے؟

اسے تو صرف یہ پتا ہوتا تھا کہ ان جھگڑوں میں دکانیں بند ہوجاتی تھیں، ٹھیلے نہیں لگتے تھے، شام ہوتی ہی نہیں تھی، کام ہوتا ہی نہیں تھا، پیسے ملتے ہی نہیں تھے۔ اندھیرا ہوجاتا تھا۔ اندھیرا اندر سے باہر تک جسم سے روح تک ایسا اندھیرا جس میں سارا شہر ڈولتا رہتا تھا۔ مگر پیٹ روٹی مانگتا تھا بغیر کسی ہڑتال کے اور کمرے کا مالک کرایہ پابندی سے لیتا تھا چاہے شہر سارا ہفتہ بند رہے۔

دفتر کا کام چھوڑنے کے بعد تھوڑے دنوں تک اس نے سبزی منڈی میں وزن اٹھایا، اس کام میں تھوڑے زیادہ پیسے ملتے تھے مگر بہت صبح سویرے اٹھنا پڑتا تھا اور کام بھی بہت سخت تھا۔ وہ جلد ہی اس کام سے بھی اکتا گیا تھا۔ مگر سبزی منڈی کا تجربہ بھی خوب تھا۔ صبح سویرے سبزیوں کا آنا، پھر آڑھتیوں کا ان سبزیوں کو بیچنا، ان کی بولی کا طریقہ پھر سارے شہر میں اس کا پہنچنا۔ جب سارا شہر سوتا تھا تو سبزی منڈی جاگتی تھی۔

سبزی منڈی میں ہی اس نے ایک کوچ اڈے پر کنڈیکٹری کرنی شروع کردی تھی مگر جلد ہی وہ ڈرائیوروں سے پریشان ہو گیا تھا۔ زیادہ تر ڈرائیور بدتمیز تھے نہ صرف گالی گفتار کرتے تھے بلکہ ایسی حرکتیں کرتے رہتے تھے کہ اسے سوچ کر گھن آتی تھی۔ نہ جانے کس طرح اس نے اپنی جان بچائی تھی۔ کراچی ایسا ہو گا نہ اس نے سوچا تھا اور نہ ہی سمجھا تھا۔

اسے اتوار کا وہ دن یاد تھا جس دن شام کو چھٹی کے بعد گل حمید ڈرائیور اسے اپنے اڈے پر لے گیا تھا، وہاں اس نے کھانا کھایا تھا اور جس کے بعد گل حمید نے اس پر دست درازی کی کوشش کی تھی۔ شہر کا یہ رخ اس کے لئے عجیب تھا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کبھی ایسا ہو گا اس کا اپنا پٹھان بھائی اپنے علاقے کا آدمی اس طرح سے اس کی عزت کے پیچھے پڑ جائے گا، اس سے تو اچھا ہے کہ کسی اور آدمی کی گولی سے اس کی جان چلی جاتی۔

مگر یہ سب کچھ تو بہت عام تھا۔ منی بس کے ڈرائیور، کنڈیکٹر، ٹرکوں کے ڈرائیور، کلینر، ان بسوں اور ٹرکوں کے لئے بنے ہوئے اڈوں کے اوپر کام کرنے والے بچوں پر کیا کچھ نہیں کر گزرتے تھے۔ کوئی شنوائی تھی نہ کسی کا پتا تھا۔ ایٹم بم بنانے والے ملک کے حکمرانوں، سیاستدانوں کے پاس ان خرافات کو سمجھنے اور ان بچوں کے لئے کچھ کرنے کا وقت کہاں تھا۔ دوسرے کام ضروری، بہت ضروری تھے۔

وہ چھوٹا تھا مگر کراچی نے آہستہ آہستہ اسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ زندگی کے ایسے ایسے رخ دکھائے تھے جو شاید کتابوں میں تو ہوتے ہوں، مگر زندگی میں ان کا ہونا قابل یقین نہیں تھا۔ مگر زندگی کے اپنے داغ تھے کراچی کے اوپر۔

کنڈکٹری چھوڑ کر اسے پیٹرول پمپ پر نوکری مل گئی تھی۔ جو گاڑیاں آتی تھیں ان میں پیٹرول ڈیزل ڈالنا پڑتا تھا مگر ڈیوٹی بڑی لمبی ہوتی تھی۔ صبح چھ بجے سے رات کے بارہ بجے تک پھر دوسرے دن کی چھٹی ہوتی تھی۔ وہ اتنا تھک جاتا تھا کہ رات ایک دو بجے گھر پہنچ کر بستر پر گرتا تھا تو دوسرے دن صبح دس بجے سے پہلے آنکھیں نہیں کھلتی تھیں۔ پیسے اچھے ملتے تھے، کچھ تنخواہ کی صورت میں کچھ بخشش کے نام پر ۔ مگر جلد ہی اس کا دل اس کام سے بھی اچاٹ ہو گیا تھا۔ اسے خود سمجھ میں میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ ایک بے چین روح کی طرح ایک جسم سے دوسرے جسم کی طرف جانے کی خواہش لئے ہوئے۔ نئے سے نئے چکر میں پڑنے کو تیار۔ اسے ایک جگہ کام کرنے کی عادت پڑتی ہی نہیں تھی۔

پیٹرول پمپ کے بعد وہ ایک چائے کی دکان پر کام کرنے لگا۔ صدر کے الیکٹرانک مارکیٹ میں یہ دکان بہت مصروف تھی۔ اطراف کے دفتروں میں چائے لے جانا پھر خالی برتن واپس لانا پڑتا تھا پیسے ملتے تھے مگر سیٹھ کی پھٹکار بھی ملتی تھی۔ پیالیاں، برتن، گلاس ٹوٹتے تھے تو گالیوں سے بھی نوازا جاتا تھا۔

چائے کی دکان میں ہی اس کی ملاقات فضل رحمت سے ہوئی تھی۔ وہ اپنے گاؤں گیا تھا۔ کراچی آنے کے بعد دوسری دفعہ، جمع کی ہوئی کمائی لے کر ۔ اس کے جمع کیے ہوئے پیسوں سے اس کی ماں کا علاج ہوا تھا۔ اس کی بہن کے بچوں کی دیکھ بھال ہوئی تھی جس کا شوہر یکایک مر گیا تھا۔ اس نے کراچی میں کمائی کیا شروع کی تھی گھر پر یکایک مسائل بڑھنے شروع ہو گئے تھے۔ وہ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ شاید یہ سب کچھ اس کے کام کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ نہ وہ کام کرنے کراچی آتا اور نہ گھر کے یہ خرچ بڑھ جاتے۔ اوپر والے کا حساب بھی خوب ہے ایک ہاتھ سے دے دوسرے ہاتھ سے واپس لے۔

گاؤں میں ہی قریب کے دوسرے گاؤں سے کسی نے آ کر اسے ایک پیکٹ دیا تھا کہ کراچی میں فضل رحمت کو دے دے۔ فضل رحمت اس سے ملنے کے لئے اس چائے کی دکان پر آیا تھا۔ وہ فضل رحمت کو لے کر کینٹ اسٹیشن کے پیچھے اپنے گھر آیا تھا وہاں اس کو وہ پیکٹ دیا تھا۔ فضل رحمت کو کھانا کھلایا تھا اور چائے پلائی تھی۔

فضل رحمت نے اس سے کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کام کرے، میٹروپول کے چاروں طرف سڑکوں گلیوں میں پارک کی جانے والی گاڑیوں کی صفائی کا کام۔ وہ بہت دنوں سے یہ کام کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ دو بچے بھی کام کر رہے تھے مگر اب کام بہت بڑھ گیا تھا اسے کسی اچھے مددگار کی ضرورت تھی۔ کراچی جا کر پیسے کما کر بھی اسے کیا ملا تھا؟ صدیوں سے چلنے والا خاندانی جھگڑا تو ختم نہیں ہوا تھا۔ خون کی وہ پیاس تو نہیں بجھی تھی۔ جرگے کا فیصلہ، رمضان کا مہینہ، مذہب کے اصول کراچی کا پیسہ کچھ بھی نہیں بدل سکتا تھا۔ قبائل کے پشتو اصول نہ جانے کن پتھروں کے تھے کہ ٹوٹتے نہیں تھے، بدلتے نہیں تھے۔ روشنی کہاں تھی، دور دور اندھیرا تھا۔

رحمان کو کام پسند آ گیا پھر وہ فضل رحمت کے ساتھ کام پر لگ گیا تھا۔ ابھی سال بھی نہیں ہوا تھا کہ فضل رحمت کو گاؤں جانا پڑ گیا تھا، کچھ پرانی دشمنی تھی جس کے کارن فضل رحمت کے گھر کو آگ لگادی گئی تھی۔ ایک بچہ، باپ اور ماں جل کر مر گئے تھے۔ تین بچے اور بیوی اکیلے رہ گئے تھے۔ فضل رحمت کو جانا پڑ گیا پھر فضل رحمت واپس نہیں آیا۔ ماں باپ اور بچے کی موت اور ایسی موت۔ فضل رحمت جیسے ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سوکھتا چلا گیا تھا۔

رحمان اب کافی دن گزار چکا تھا، اب وہی انچارج تھا اس کام کا ۔ دن رات محنت کرنا اور پیسے جمع کرنا اس کا کام تھا۔ وہ بہت ملنسار تھا، اچھے طریقے سے بات کرتا، محبت سے ملتا۔ اس کے ساتھ دوسرے چار پانچ پٹھان بچے کام کرتے تھے۔ اس نے جاہل ہونے کے باوجود اپنے کام کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا تھا۔ وہ بلا کا تجارتی ذہن رکھتا تھا اور لوگوں سے بات کرنے کا ڈھنگ بھی اسے خوب آتا تھا۔ زیادہ تر لوگ اپنی گاڑیاں اس کے حوالے کر دیتے تھے۔

ہمارے دیکھتے دیکھتے اس کے چہرے پر داڑھی اگ آئی تھی، زیادہ تر پٹھانوں کی طرح سے وہ پہلے بھی مذہبی تھا اب اور بھی مذہبی ہو گیا تھا۔ اب تو اس کی شادی بھی ہو گئی تھی اور دو بچے تھے جو اس کی بیوی کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ سال میں دو تین دفعہ گاؤں کا چکر لگاتا تھا۔

اب تو گاؤں جانا آسان ہے۔ کراچی سے بس نکلتی ہے۔ سندھ سے، پنجاب سے ہوتے ہوئے سوات ہمارے گاؤں تک پہنچ جاتی ہے صاحب۔ جب میں آیا تھا تو پانچ دن لگتے تھے کراچی آنے میں۔ اب تو دو دن میں کراچی سے سوات پہنچ جاتے ہیں ہم لوگ۔ سب کچھ آسان ہو گیا ہے اور بسیں بھی ایسی ہیں جیسے بڑے بڑے گھر۔ آرام والی کرسیاں اور ٹھنڈی۔ پسینہ تک نہیں چھوٹتا ہے۔

وہ اب بھی کینٹ اسٹیشن میں ہی رہتا تھا، اسی کچی آبادی میں جہاں اس نے کراچی کی زندگی شروع کی تھی۔ ایک دن اس نے بتایا تھا کہ چھٹی والا دن کراچی میں بڑا مزا آتا تھا۔ ہم سارے پٹھان لوگ برنس روڈ پر کباب یا نہاری کھاتے تھے۔ کبھی کلفٹن پر سمندر کو دیکھتے تھے اور کبھی بمبینو، پرنس، کیپری، نشاط، ناز، لیرک، پیراڈائز، ریکس سینما میں آگے بیٹھ کر فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ وہ خود تو مذہبی تھا مگر مذہب کے بارے میں بھی اس کا انداز عجیب تھا۔

مجھے یاد ہے رمضان کے زمانے میں میں اپنی گاڑی میں جب وہاں پہنچا تھا تو پولو کا پیپرمنٹ چوستا ہوا اترا تھا۔ مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ رمضان کا مہینہ ہے۔ میں گاڑی سے اتر کر جانے لگا تو اس نے مجھ سے کہا تھا ”راستے میں منہ نہ چلائیں میرا تو کچھ بھی نہیں ہے مگر کوئی اور مذہبی آدمی روزہ کا احترام نہ کرنے پر مجھے مار بھی سکتا ہے، وقت بدل گیا ہے صاحب۔ پہلے کراچی میں سینما بھی چلتے تھے، شراب خانے بھی ہوتے تھے مگر لوگ اچھے تھے ایک دوسرے کو مارتے نہیں تھے، چوری بھی نہیں کرتے تھے، ڈکیتی بھی نہیں کرتے تھے، ابھی تو معاملہ بڑا خراب ہو گیا ہے۔

مسجدیں تو بنتی چلی جا رہی ہیں اور ایسی ایسی جگہوں پر بنتی ہیں کہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ کیوں بنی ہیں۔ کسی جگہ روڈ پر کہیں فٹ پاتھ پر ۔ جس جگہ دکان بن سکے لوگ مسجد بنا دیتے ہیں۔ اچھا اسلام ہے کراچی میں۔ جلسے تو کہ بڑے سے بڑے ہو رہے ہیں مگر ایمانداری ختم ہو گئی ہے۔ چوری بھی ہے، لوٹ مار بھی ہے اور مسلمان مسلمان کو مار بھی دیتے ہیں۔ ہم تو قبائلی لوگ ہیں، جاہل لوگ۔ بے وجہ قتل کرتے ہیں۔ جہالت کی وجہ سے مگر مسجدوں کا سودا نہیں کرتے ہیں۔ نمازیوں کا بیوپار نہیں چلاتے ہیں، جتنا مذہب سمجھتے ہیں اتنا ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔ مذہب کی تجارت صرف کراچی میں ہوتی ہے۔“

میں نے سوچا کہ رحمان بھی فلاسفی ہو گیا ہے۔ کراچی میں کوئی بھی آدمی فلاسفی ہو سکتا ہے، فلاسفی ہونے میں کیا لگتا ہے۔ فلاسفی ہونے کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے، صرف سوچ کی عادت ہونی چاہیے، صرف آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے، صرف کان کھلے رہنے چاہئیں، صرف دیکھنا چاہیے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے فلسفہ تو خود بہ خود آ جاتا ہے۔

رحمان ہمارے دوسرے بھی بہت سے کام کر دیتا تھا۔ بجلی کے بل، گیس کے بل، ٹیکس کے کاغذ اور بہت سارے دوسرے چھوٹے موٹے کام۔ ایک طرح سے ہمارے آفس اور اس علاقے میں اور دوسرے آفسوں میں کام کرنے والوں سے اس کے کچھ خاص قسم کے تعلقات ہیں۔

کبھی کبھار آواری ٹاور کے نیچے والے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر ہم لوگ اس کے بارے میں بھی بات کرتے تھے۔ ہر ایک کا خیال تھا کہ وہ بلا کا کنجوس ہے۔ ہر ایک نے حساب کتاب لگایا ہوا تھا کہ جس شدت اور محنت سے وہ کام کرتا تھا، اس سے اس کی اچھی خاص آمدنی تھی مگراس کی کنجوسی بھی شدید تھی۔ ایک ایک روپیہ جوڑتا تھا نہ جانے کیوں، اور کہاں یہ خزانہ جمع کر رہا تھا وہ۔

ایک دن میں نے اس سے ہنستے ہوئے کہا بھی تھا کہ یار! کچھ پیسے اپنے اوپر بھی خرچ کر لیا کرو۔

وہ ہنس دیا تھا اور ہنس کر اس نے کہا تھا، ”صاحب! میں جہاں خرچ کرتا ہوں اس سے اچھی جگہ کوئی ہو ہی نہیں سکتی ہے۔“

میں نے بھی ہنس کر کہا تھا، ”اچھا وہ کون سی جگہ ہے بھائی۔“
”کبھی بتاؤں گا سر!“ اس نے کہا تھا۔

مگر وہ بتا نہیں سکا تھا کہ یکایک وہ حادثہ ہو گیا۔ صبح سویرے اس نے پہلی گاڑی صاف کی تھی اور سڑک کی دوسری طرف جا رہا تھا کہ دوسری جانب سے آنے والے ٹرک کی زد میں آ گیا تھا۔ میں جب آفس پہنچا تھا تو اس کے پاس کام کرنے والے ایک لڑکے نے بتایا تھا۔ شام کو ہم لوگ اسے دیکھنے گئے تھے۔ جناح اسپتال کے ہڈیوں کے وارڈ میں وہ بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ گھٹنے سے اوپر اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئی تھیں۔

صبح کے وقت کسی چرسی ڈرائیور نے اس کے ارمانوں، اس کی تمناؤں کا بڑی بے دردی سے خون کریا تھا۔

ہم سب کو بہت افسوس ہوا تھا۔ یکایک انسان کے ساتھ ایک حادثہ ہوتا ہے اور اس کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، ڈھیر ہو جاتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں۔ جو بھی حکمت ہے اس کی وہی سمجھ سکتا ہے، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اس کا حساب۔ اس کی دنیا اس کا حساب وہی جانے وہی سمجھے۔

چھ ہفتے اسپتال میں رہ کر وہ سوات واپس چلا گیا تھا۔ ہماری کاریں اسی طرح سے دھل رہی تھیں مگر وہ نہیں تھا۔

اکثر و بیشتر ہم اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ پھر ایک دن میں نے اور کریم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگلی دفعہ جب دفتر کے کام سے پنڈی جانا ہو گا تو ہم لوگ دو تین دن کی چھٹی لے کر اس کے گاؤں جائیں گے اور کچھ روپے دیں گے اسے، ایک طرح کی امداد۔ سالوں اس نے ہم سب لوگوں کی کاریں صاف کی تھیں، ہماری خدمت کی تھی، ہمارے چھوٹے چھوٹے کام دوڑ دوڑ کر کیے تھے۔ اس کی کنجوسی اپنی جگہ پر مگر تھوڑا سا حق تھا اس کا ہم سب پر ۔ بہت دنوں تک تندہی سے خدمت کی تھی اس نے ہم لوگوں کی۔

تنخواہ بھی لی تھی مگر ہمارے جو کام کیے تھے ایسے کام جو اس کے کام میں شامل نہیں تھے، ہمارے ذاتی کام، بہت سارے چھوٹے چھوٹے کام جن کے لئے وقت نہیں ہوتا تھا ہمارے پاس۔ ان کو کبھی جوڑا جائے تو نہ جانے کتنے گھنٹے دن ہفتے مہینے سالوں کا کام اس نے صرف ہنس کر بغیر معاوضہ لئے ہوئے کیا تھا ہم لوگوں کے لئے۔ ان کی تنخواہ نہیں لی تھی، کبھی کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ صرف خلوص و محبت سے اچھے بول بول کر ہمیں خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔

دفتر میں تقریباً ہر ایک نے اس کے لئے چندہ دیا تھا، کسی نے پچاس روپے، کسی نے سو اور کسی نے پانچ سو بھی دیے۔ آٹھ ہزار سات سو دس روپے جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے اس کا پتہ معلوم کیا اور کچے پکے راستوں سے ہوتے ہوئے شہروں، قصبوں، جنگلوں سے گزر کر پہاڑوں سے لڑ کر اس کے گاؤں پہنچ گئے تھے۔

وہ ہم دونوں کو دیکھ کر حیران ہو گیا تھا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کراچی سے کوئی اس طرح سے ملنے آ جائے گا۔ اس کے چہرے پر رونق آ گئی اور آنکھوں سے چھلکتے ہوئے آنسو امڈ امڈ کر زمین پر گر رہے تھے۔

اس نے آواز دے کر کسی کو بلایا اور مسجد کے اندر سے ایک آدمی آیا تھا۔ رحمان نے اس سے کہا کہ اس کے گھر پر جا کر کھانے کا بندوبست کرے کہ کراچی سے مہمان آئے ہیں۔ وہ بے تحاشا خوش لگ رہا تھا۔

ہم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ گئے تھے، باتیں شروع کردی تھیں۔ اس نے اب گاؤں کی زندگی اپنا لی تھی۔ باپ کی چھوٹی سی زمین پر اس کے بچے، اس کی بیوی اور ایک دو مزدور کام کرتے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ سوچ رہا ہے کہ ایک دکان کھول لے تو دکان پر بیٹھ کر کام کرسکے گا، اب کراچی تو نہیں جاسکتا ہے۔ پیر کٹ جانے کے بعد وہ کراچی کے کام کا نہیں تھا۔ وہ مکمل تھا تو کراچی کے کام کا تھا۔ اب وہ کٹے ہوئے پیروں کے ساتھ لنگڑا لنگڑا کر کراچی میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اب یہ گاؤں، یہ دیہات، یہ کھیت، یہ کھلیان ہی میرا ہے، اب مجھے یہیں پر رہنا ہے، یہیں مرنا ہے۔

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ بولا کہ ”صاحب یہ جو پیر کاٹ دیتے ہیں تو ان کا کیا کرتے ہیں۔“

”مجھے تو کچھ بھی اندازہ نہیں۔ شاید کاٹ کر کسی جار میں رکھ دیتے ہوں گے یا اگر پیر میں جراثیم پڑ گئے ہوں تو اسے جلا دیتے ہوں گے۔ کسی سرجن سے پوچھنا ہو گا۔“ میں نے جواب دیا۔

”نہیں صاحب کسی وجہ سے پوچھتا ہوں۔“ وہ دھیرے سے بولا۔ ”کیوں کہ جب میں ادھر مسجد کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہوں تو میرے پیروں میں کھجلی ہوتی ہے اور میرے ہاتھ میرے پیروں کو تلاش کرتے ہوئے پتھروں سے ٹکراتے ہیں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے پیر تو کٹ چکے ہیں۔ نہ جانے کہاں ہوں گے کسی نے دفن کر دیا ہو گا، شاید جلا دیا ہو گا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا ہے، جب پیر ہیں ہی نہیں تو پھر کھجلی کیوں ہوتی ہے؟“

میری سمجھ سے بھی باہر تھا۔ ہم دونوں ہی خاموش رہے تھے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اس مسجد میں ہی ہم لوگوں نے اس کے ساتھ اس کے دل رکھنے کو ظہر کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد مسجد کے باہر درخت کے نیچے ایک سائبان سا بنا ہوا تھا جہاں دوپہر کا کھانا ہم لوگوں نے کھایا تھا۔ گھر کا پکایا ہوا پالک دال اور شلجم گوشت۔ ایسا کھانا بہت کم کھایا تھا ہم لوگوں نے یا شاید اس وقت بھوک بہت شدت سے لگی ہوئی تھی۔

کھانے کے بعد چائے پی کر میں نے رحمان کو لفافہ دیا جس میں اس کے لئے جمع شدہ رقم تھی۔ اس کے چہرے پر حیرت شدت سے عود کر آئی، ”مگر کس لئے میرا تو کوئی حساب نہیں تھا آپ لوگوں کی طرف۔“ اس نے کہا تھا۔

”نہیں حساب کی بات نہیں ہے یہ ہماری طرف سے ہے تمہارے لئے، ہم سب نے جمع کیا ہے تمہارے لئے۔“ ساتھ ہی میں نے دل میں سوچا کہ اس سے پوچھ لوں کہ اب وہ اپنی کنجوسی کی وجہ بتادے کہ پہلے مسکرایا پھر دھیرے سے بولا۔ ”آپ نے مجھ سے پوچھا تھا ناں کہ میں پیسوں کا کیا کرتا ہوں؟“ آپ تمام لوگوں سے پیسے لیتا ہوں۔ تھوڑے تھوڑے کاموں کے عوض بھی پیسے کی امید کرتا ہوں۔ پھر اتنی کنجوسی کیوں کرتا ہوں۔ دراصل میں پیسے جمع کرتا تھا کہ ایک دن اس گاؤں میں اس پہاڑی کے اوپر مسجد بناؤں گا۔

یہ چھوٹی سی مسجد، اس کی دیوار اس کی چھت اس کا فرش سب کچھ میں نے آپ لوگوں کے دیے ہوئے پیسے جمع کر کے بنایا ہے۔ دن دن بھر کام کیا ہے، رات رات بھر جاگا ہوں، ایک ایک روپیہ جوڑ کر ایک ایک اینٹ خریدی ہے اس مسجد کے لئے۔ اس حادثے سے پہلے میں نے اتنے پیسے کرلئے تھے کہ اس مسجد میں قالین بھی لگوا دوں اور لاؤڈ اسپیکر بھی لگوا لوں۔ وہ سب کچھ بیماری میں خرچ ہو گیا، اب آپ لوگ آئے ہو یہ پیسے لائے ہو تو مسجد میں بیٹھنے کی جگہ بھی اچھی ہو جائے گی۔

مگر میں اب سوچتا ہوں کہ اس مسجد کے ساتھ اسکول بھی بنا دوں۔ اگر ہمارے اس گاؤں میں اسکول ہوتا تو شاید ہم لوگوں کی زندگی ذرا بہتر ہوتی۔ مجھے کراچی نہیں جانا پڑتا۔ میرے پیر نہیں کٹتے۔ اذان تو لاؤڈ اسپیکر کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ نمازی اذان کا انتظار نہیں کرتے، وہ وقت پر خود ہی چلے آتے ہیں۔ اگر ان پیسوں سے اسکول کا استاد ادھر آ جائے تو وہ ہمارے بچوں کو پڑھادے گا پھر ہم لوگ اور بھی پیسہ جمع کر لیں گے اس کی تنخواہ کے لئے۔ ”

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا تھا۔ اس کے آدھے جسم کے اوپر جو سر تھا، جو آنکھیں تھیں، وہ سوچ رہی تھیں۔ مجھے لگا جیسے میں اس گاؤں کی چھوٹی سی سرخ اینٹوں والی مسجد کے سامنے نہیں کھڑا ہوں بلکہ قرطبہ کی مسجد الحمرا میرے سامنے ہے، جیسے ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد میرے سامنے ہے، جیسے لاہور کی شاہی مسجد میرے سامنے ہے جیسے دہلی کی جامع مسجد میرے سامنے ہے۔ مجھے لگا جیسے کراچی کی وہ ساری مسجدیں جن کے چاروں طرف دکانیں بنانے والوں نے سڑکوں، چوراہوں، فٹ پاتھوں پر قبضہ کر کے مسجد کے نام پر اپنی دکان چمکائی ہوئی ہے۔

وہ حشرات الارض ہیں، گندے پانی کے کیڑے ہیں جو دین کے نام پر دنیا بناتے ہیں اور ادھر کراچی سے دور، بہت دور سوات گاؤں میں میرے سامنے رحمان کھڑا تھا، کھچڑی بالوں کی چھترائی ہوئی داڑھی کے ساتھ۔ اوپر بیساکھی کے سہارے کھڑے ہوئے اس بھولے آدمی کی صورت میں کچھ ایسی شان تھی کہ مجھے بے اختیار اس پر پیار آ گیا، دونوں کٹی ہوئی ٹانگیں اور بیساکھی کے سہارے کھڑا ہوا اس کا بدن یوں لگ رہا تھا جیسے منبر اور محراب۔ میرا جی چاہا کہ میں وہیں عقیدت سے جھک جاؤں۔ میں نے ایک ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو پونچھے اور دوسرا ہاتھ رحمان سے مصافحے کے لئے بڑھادیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments