کیا پاکستان میں خواتین محفوظ ہیں؟


ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان اپنی کابینہ کے 10 وزراء کو ان کی متعلقہ وزارتوں کی اچھی کارکردگی پر اعزازات سے نواز رہے تھے بشمول وزیر برائے انسانی حقوق کے جن کو اچھی کارکردگی پر پانچواں نمبر ملا۔ اسی وقت ملک خواتین کے خلاف تشدد میں ڈوبا ہوا تھا۔ دسمبر 2021 میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران؛ ملک میں عصمت دری کے 14000 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران 2439 خواتین کی عصمت دری کی گئی، 9529 کو اغوا کیا گیا، 22030 کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 90 کو قتل کیا گیا۔ جب کہ 2021 میں بلوچستان میں 49 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، تشدد کے 129 واقعات رپورٹ ہوئے اور 128 خواتین کو قتل کیا گیا۔

اس افسوسناک صورتحال نے پاکستان کو خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے انڈیکس میں ٹاپ 10 ممالک میں لا کر کھڑا کر دیا ہے اور ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ 2021 کے مطابق ہم عالمی صنفی فرق میں 156 میں سے 153 ویں نمبر پر ہیں جبکہ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک سے صنفی فرق کو ختم کرنے میں 136 سال لگیں گے۔

پاکستان میں یونیورسٹیوں میں طالبات، خواتین نوکری کی جگہوں، شاہراہوں، گلیوں، حتیٰ کہ گھروں میں بھی (نور مخدوم کی طرح ) محفوظ نہیں۔ جب درندے زیادتی کرتے ہیں تو عمران خان جیسے لوگ خواتین کے ڈریس کوڈ کو ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور متاثرہ عورت کو مورد الزام ٹھہرا کر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ملک میں لوگ حیا اور عورت مارچ کے کرنے یا نہ کرنے کی بحث میں مصروف ہیں۔

2021 میں، متعدد بل اور ایکٹ جیسے کہ خواتین کے املاک کے حقوق ترمیمی بل 2021 کا نفاذ، گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کا بل 2021، انسداد عصمت دری کی تحقیقات اور مقدمے کا بل 2021، گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ ایکٹ 2021 منظور کیا گیا۔ ان قوانین میں انسداد عصمت دری کی تحقیقات اور مقدمے کی سماعت کا بل 2021 خصوصی عدالت کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرے گا تاکہ تیز رفتار مقدمے کی سماعت کی جا سکے۔ قابل تعریف اقدامات ہیں۔ کیا یہ قوانین خواتین کو تحفظ فراہم کرسکے گے اور ان متاثرین کو اعتماد دیں گے جو شکایت کرنے سے بھی کتراتے ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات غیر یقینی ہیں۔ کیونکہ، موجودہ حالات میں، ملک میں صنفی نازک پر تشدد کرنے والوں کو سزا کی شرح 4 فیصد سے کم ہے۔ متعدد قوانین کی موجودگی میں یہ چیلنجز اب تک حل طلب ہیں۔

کیا ہم خواتین کو عصمت دری، تشدد، زیادتی، غیرت کے نام پر قتل سے بچانے اور ان کے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق فراہم کرنے میں ناکام نہیں ہوئے؟ کیا خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملک کو لبرل اور نان لبرل طبقوں میں تقسیم نہیں کر دیا ہے؟ انہیں ان کا حقیقی مقام دینے کی بجائے حکومت، دانشور، میڈیا اور پارلیمنٹ ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔

ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں خواتین کو حقوق دلانے کے لیے معاشرے کو اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون جرائم کی روک تھام کا موثر ذریعہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خواتین میں ان کے حقوق کے لیے بیداری، قانونی خدمات کی فراہمی، متاثرین کا تحفظ، فوجداری انصاف کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کی شدید ضرورت ہے، ۔ اس ضمن میں کلیدی ذمہ داریاں حکومت کے کندھوں پر ہوتی ہیں۔ قوانین کا نفاذ، خواتین مدعیوں کا تحفظ، انہیں قانونی معاونت فراہم کرنا، عدالتوں میں کارروائی کے دوران تحفظ کی یقین دہانی اور جلد انصاف کو یقینی بنانا حکومت کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ تعریفی اسناد کی محض سیاسی چال بازی سے کام نہیں چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments