مراد سے نامراد تک


چندا ہے تو میرا سورج ہے تو،

آ میری آنکھوں کا تارا ہے تو،

جیتی ہوں میں، بس تجھے دیکھ کر،

اس ٹوٹے دل کا سہارا ہے تو

چند ماہ کے بچے کو خود سے لپٹائے رشیداں گنگنا رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں کو چومتی تو کبھی پیروں کو، یہ رشیداں کا معمول تھا۔ وہ سارا دن یہی کرتی۔ بچے کو ایک منٹ کے لیے بھی گود سے نہ اتارتی۔ جب وہ سو جاتا تو گھر کے کام کرتی۔ کتنی منتوں مرادوں سے اس کے دل کی مراد پوری ہوئی تھی، تو کیوں نہ اس کے لاڈ اٹھاتی۔ چار بار اس کا حمل ضائع ہوا تھا۔ پانچویں بار جب پھر امید سے ہوئی تو دتو نائی نے کتنی منتیں مانگیں تھیں، کہ اب کی بار سب ٹھیک ہو جائے۔

اس نے رشیداں کو پیر بھی زمین پر نہ رکھنے دیا تھا۔ گھر کے کام بھی سارے خود کرتا تھا۔ رشیداں کو ہتھیلی کا چھالہ بنا لیا تھا۔ گاؤں کی بڑی بوڑھیاں دتو کو زن مرید کہتیں، تو رشیداں کے ساتھ کی عورتیں دتو کی محبت دیکھ کر رشک کرتیں۔ دتو اور رشیداں کی احتیاطیں رنگ لائی تھیں۔ رشیداں نے ایک صحت مند جیتے جاگتے بچے کو جنم دیا۔ خدا نے ان کی جھولی میں ایسا خوبصورت لعل ڈالا، کہ جو دیکھتا دیکھتا ہی جاتا۔ گورا چٹا، گول مٹول ایسا بچہ پورے پنڈ میں نہیں تھا۔

ساتھ والے قصبوں تک دھوم مچ گئی تھی کہ ایسا پیارا بچہ تو شاہوں کے ہاں ہوتا ہے۔ دتو نائی اور رشیداں نائن تو خوشی سے بے حال تھے ہی، آس پاس کے لوگ بھی ان کی خوشی میں خوش تھے اور اتنے پیارے بچے کو دیکھ کر خود بخود پیار کرنے لگتے۔ رشیداں اور اس کے گھر والے دتو نے اس کا نام مراد رکھا۔ آخر اتنی منتوں مرادوں سے تو آیا تھا۔ سات گاؤں چھوڑ کے زندہ پیر کی خانقاہ پہ جا کر پوری سات دیگیں چڑھا کے آئے تھے۔ مراد شروع ہی سے تھوڑا اتھرا تھا، بے جا ضدیں کرتا۔

لیکن مراد کے آنے سے ان کی زندگی خوبصورت ہو گئی تھی، وہ دونوں مراد کو دیکھ دیکھ کر جیتے۔ رب جانے رشیدان نائن کی زندگی میں پوری خوشی نہیں لکھی تھی، مراد آیا تو دتو چلا گیا۔ مراد ابھی سال کا بھی نہیں کا ہوا تھا جب دتو نائی کے مرنے کی خبر گھر آئی تھی۔ چوہدریوں کے گھر ویاہ تھا، دتو ادھر دیگیں پکا رہا تھا کہ دیگ میں دیسی ککڑ بھونتے ہوئے جلتا بھانبھڑ مراد کے دل کو پڑا تھا۔ اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ پورے پنڈ میں رولا پڑ گیا تھا۔

رشیداں عمر کے اس دور میں تھی جہاں بیوہ بن کر پوری زندگی گزارنی مشکل تھی۔ بہتوں نے کہا کہ رشیداں ابھی تو اتنی عمر کی نہیں ہوئی، چھوٹے بچے کا ساتھ ہے۔ دتو کے تائے کے پتر نورے کے ساتھ دو بول پڑھا لے۔ اس کی ووہٹی نہیں ہے، اور تیرے سر کا سائیں چلا گیا ہے۔ پچھلے سال دتو کے تائے کے پتر نورے کی ووہٹی جب ایک بار پھر ماں بنی تو چھٹی بیٹی کی پیدائش کا سن کر سہار نہ سکی اور وہیں دم توڑ گئی تھی۔ وہ بیچارہ بھی چھ کڑیوں کو اکیلے پال رہا ہے تم دونوں اک جی ہو جاؤ تو دونوں کے بچے آرام سے پل جائیں گے۔

لیکن رشیداں نہ مانی، کہنے لگی میرے پاس میرے دل کی مراد ہے، دتو کی نشانی ہی میرا سہارا ہے، مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔ محنت مزدوری کر لوں گی لیکن دوجا ویاہ نہ کروں گی۔ لو بھلا شرم نہ آوے دوجے مرد کا نام لیتے، توبہ توبہ۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی۔ رشیداں کو سمجھانے والے آہستہ آہستہ چپ ہو گئے۔ رشیداں نے گھر کے باہر والے کمرے میں کریانے کی دکان ڈال لی۔ گاؤں کا چوہدری نیک انسان تھا، وہ بھی رشیداں کے بیوہ ہونے کی وجہ سے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا، آٹا، چاول، دیسی گھی اور سبزیاں چوہدری کے گھر ہی سے آتیں، موسم کے کپڑے بھی بھجوا دیتا۔

رشیداں مراد کو دیکھ کر یہی گنگناتی رہتی۔ چندا ہے تو میرا سورج ہے، آ میری آنکھوں کا تارا ہے تو۔

بھری جوانی میں بیوگی کا دکھ مراد کی صورت دیکھ کر کم ہو جاتا۔ وہ مراد کو دیکھتی تو خوشی سے نہال ہوجاتی، ہر دکھ بھول جاتی۔ رشیداں کو خوشی ملی بھی تو ادھوری۔ لیکن اس ادھوری خوشی کے ساتھ بھی رشیداں پورا خوش تھی۔ رشیداں مراد کو بہت لاڈ پیار سے پال رہی تھی۔ اس کی ہر فرمائش پوری کرتی، جس سے مراد دن بدن ضدی بدتمیز اور منہ پھٹ ہوتا جا رہا تھا۔ مراد رشیداں کے لاڈ پیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتا۔ جوں جوں مراد بڑا ہو رہا تھا اس کی بدتمیزیوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔

لوگ شکایتیں لے کر گھر آنے لگے، تو رشیداں کہتی، باپ کا سایہ سر پر نہ ہو تو بچے ایسے ہی ہو جاتے ہیں، آپی ہولے ہولے ٹھیک ہو جائے گا۔ رشیداں اسے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتی تھی وہ رشیداں کی کمزوری تھا اور مراد اس کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتا۔ مراد اب جوان ہو رہا تھا۔ قد کاٹھ باپ کا تو رنگ روپ ماں کا چرایا تھا اس نے۔ خوب گھبرو جوان رج کے سوہنا۔ مراد کے رنگ ڈھنگ بدل رہے تھے۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ تو وہ پہلے بھی نہیں کرتا تھا لیکن اب تو ہتھے ہی سے اکھڑ جاتا۔

زیادہ تر لوگ اس سے بات کرنا پسند نہ کرتے، کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا اوباش لوگوں میں ہو گیا تھا۔ مراد شرابی تو تھا ہی اب جوا بھی کھیلنے لگا تھا۔ آئے دن ماں سے پیسے مانگتا۔ انکار پر ہاتھ اٹھانے سے دریغ نہ کرتا۔ گاؤں کی لڑکیوں کو چھیڑتا۔ لیکن رشیداں کو کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس کی آنکھوں پر تو بیٹے کی محبت کی پٹی بندھی تھی۔ جو کوئی رشیداں کو مراد کے کرتوت بتاتا تو رشیداں الٹا اس پر برس پرتی۔ رفتہ رفتہ لوگ رشیداں سے بھی دور ہو گئے۔

رشیداں دوپہر میں آنکھوں پہ دوپٹہ ڈالے سو رہی تھی جب مراد گھر آیا تھا، اس نے ماں کو بان کی چارپائی پہ چت لیٹا دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ وہ ماں کے جسم کے ایک ایک زاویے کو بغور دیکھ رہا تھا۔ مراد کی آنکھیں چمکنے لگیں، تبھی رشیداں کی آنکھ کھل گئی۔ کیا بات ہے، کچھ چاہیے؟ اس نے بیٹے کو خود پہ نظر جمائے دیکھا تو ایک دم سے سیدھی ہو بیٹھی۔ نہیں، کچھ نہیں، کہہ کر مراد باہر چلا گیا۔ رات رشیداں نے زرد بلب کی روشنی میں مراد کے آگے کھانا رکھا تو مراد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ تیرے ہاتھ کتنے سوہنے ہیں۔ لگتا ہی نہیں تو ان ہاتھوں سے مزدوری کرتی ہے۔ دیکھ تو کتنے ملائم ہیں۔ مراد نے کھانا رکھتی رشیداں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ رشیداں کو بیٹے کی حرکت عجیب سی لگی۔ اس نے جھٹ سے ہاتھ چھڑایا۔

سن، تو اس عمر میں غضب ڈھاتی ہے تو جوانی میں تو قیامت ہی ہوگی۔ مراد نے پیچھے ہٹتی ماں کو آواز لگائی۔ چل ہٹ بے شرم نہ ہو تو ماں سے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ رشیداں نے شرم سے سر جھکا لیا۔ خود پہ اوڑھے دوپٹے کو خوامخواہ پھر سے ٹھیک کرنے لگی۔ دیکھ مراد ہر کوئی تیری شکایتیں لے کر آتا ہے تو کوئی کام دھندا شروع کرے، تو پھر کوئی سوہنی سی کڑی دیکھوں تیرے لیے ۔ ارے کوئی بھی لڑکی تجھ سے سوہنی نہیں ہو سکتی، مراد نے ماں کو شانوں سے پکڑ کر گھما ڈالا۔

رشیداں کو اس کا لہجہ اور انداز عجیب سا لگا۔ پرے بھی ہٹو، تجھے پہلے بھی کہا ہے کہ ماں سے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ مجھے برتن اٹھانے دے، چل جا ادھر سے۔ اب کہاں جاؤں گا بھلا، مراد نے ماں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ لگتا ہے آج کچھ زیادہ پی کر آیا ہے جو بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ ارے رشیداں بی بی بہک تو میں گیا ہوں لیکن تیری قسم پی بالکل نہیں۔ یہ کہہ کر مراد گھر سے چلا گیا۔

آج نیند رشیداں کی آنکھوں سے دور تھی۔ اس کا دل گھبرا رہا تھا اور اسے انجانے سے خوف نے گھیر لیا۔ وہ باہر جاکر کتنی بار بند دروازے کو دیکھ کر آئی تھی۔ اچانک زوروں کا مینہ برسنے لگا۔ رشیدہ اپنی چارپائی پہ کروٹیں بدل رہی تھی، کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ مراد کے انداز کو پہچانتی تھی، سو دروازہ کھول دیا۔ آج بڑی جلدی آ گئے ہو، طبیعت تو ٹھیک ہے تیری؟ دیر سے گھر آؤ تب بھی بولتی ہے کہ جلدی آیا کرو آج جلدی آ گیا ہوں، تب بھی تفتیش شروع کر دی ہے۔ مراد نے اندر کمرے میں جا کر اونچی آواز میں ڈیک لگا لیا۔ لو اب آدھی رات کو اسے کیوں لگا دیا۔ محلے والوں کو جگائے گا کیا، ابھی آ جائیں گے سوتے سے اٹھ کر۔

کس کی جرات ہے جو میرے ہوتے اس دروازے پہ آئے۔ جو آئے گا مجھے پوچھنے اس کو جان سے نہ مار دوں۔ رشیداں چپ کر کے کمرے میں چلی گئی۔ ابھی وہ بان کی چارپائی پہ لیٹنے ہی لگی تھی کہ مراد اس کے پیچھے آ گیا۔ کوئی کام ہے کیا، کچھ چاہیے؟ رشیداں نے اپنے پیچھے اسے آتے دیکھا تو پوچھے بنا رہ نہ سکی۔ ہاں کام تو تجھی سے ہے۔ اس نے رشیداں کو کندھوں سے تھام لیا۔ آج رشیداں کے سامنے اس کا بیٹا مراد نہیں، ایک مرد تھا۔ جس کی آنکھوں میں وحشت ناچ رہی تھی اور جس کے سامنے رشیداں بے بس تھی۔

جس دل سے اس کے پیدا ہونے کی کبھی دعائیں نکل۔ اسی دل سے مراد کے مرنے کی بد دعائیں کر رہی تھی۔ مراد تو مر جائے لیکن ہر دعا کے پورا ہونے کا اپنا ہی وقت ہوتا ہے۔ مراد کے بھیانک ارادے، ڈیک میں چلتے اونچی آواز کے گانے رشیداں کی چیخوں پر سبقت لے گئے تھے۔ اور مراد کے مضبوط ہاتھوں نے رشیداں کی آواز کو روک لیا تھا۔ جن ہاتھوں کو اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگی تھی اس کے آنے کی، انھی ہاتھوں سے مراد کو دھکے دے کر خود سے دور کر رہی تھی، لیکن اس کا ناتواں جسم مراد جیسے جوان مرد کے آگے بے بس تھا۔ صبح جو رشیداں اٹھی، وہ کل والی رشیداں نہیں تھی۔ کون سا وقت ایسا نہیں تھا جب اس نے اپنی مراد پانے کے لیے دعائیں نہ کی ہوں، اور آج اس من کی مراد نے اسے جیتے جی مار دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments