ایک حقیقی کہانی اور ہماری سیاست و صحافت


میں آپ کو ایک غریب گھر کی کہانی سناتا ہوں، کہانی تو یہ ایک گھر کی ہے مگر ہمارے ملک کی کثیر آبادی روزانہ کی بنیادوں پر اسی قسم کے سماجی اور معاشی مسائل کا شکار ہے۔

نجمہ بی بی اندرون لاہور میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔ شوہر ان کے کافی عرصہ ہوا وفات پا چکے تھے۔ سلائی کا ہنر ان کو آتا تھا جس کی بدولت ان کا گزر بسر ہو ہی جاتا تھا۔ بھائی ان کے ایک سرکاری محکمے میں ٹیلیفون آپریٹر تھے اور کم آمدنی اور بڑے کنبے کے مسائل کا شکار بھی۔ نجمہ بی بی کو بھی بیٹی کی خواہش تھی۔ انہوں نے اپنی خواہش کی تکمیل اور بھائی کے مسائل کم کرنے کے لیے اپنے بھائی کی ایک بیٹی ثانیہ کو چھوٹی عمر ہی میں گود لے لیا تھا، اور اس کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔

اس دوران نجمہ بی بی کا ایک شادی شدہ بیٹا فوت ہو گیا۔ نجمہ بی بی نے جس بھائی کی بیٹی کو گود لیا تھا اس نے بھی گریجویشن کر لیا اور پرائیویٹ نوکری کے ساتھ آن لائن کپڑوں کی فروخت کا بھی کاروبار شروع کر دیا۔ نجمہ بی بی سلائی کرتیں، ثانیہ نوکری کے ساتھ کپڑوں کا کام کرتی اور نجمہ بی بی کا شادی شدہ بیٹا کسی سرکاری محکمے میں ڈرائیور کی نوکری کرتا، جس سے اتنی آمدن ہو جاتی کہ اس کنبے کا گزارا آرام سے ہوجاتا تھا۔

ثانیہ ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک معقول حصہ اپنے حقیقی والد والدہ کو بھی دیتی، اس کے علاوہ بھی بہن بھائیوں کا خیال رکھتی۔ نجمہ بی بی کو ثانیہ کے رشتے کی فکر ستانے لگی، مگر جو بھی رشتہ آتا ثانیہ کے والد کا سرکاری کواٹر دیکھ کر ہی لوٹ جاتا، انھیں لڑکی سے زیادہ ان کے مکان اور جہیز میں دلچسپی ہوتی۔ اس دوران درجنوں رشتے آئے مگر بات دونوں خاندانوں کی پہلی ملاقات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ نجمہ بی بی اور ثانیہ نے دن رات محنت کر کے تقریباً چار پانچ لاکھ کی رقم شادی کے لیے پس انداز کرلی تھی۔

ان کا خیال تھا کہ جیسے ہی کہیں رشتہ طے ہو تو شادی کی تیاری میں مالی مشکلات حائل نہ ہوں۔ ان کی پس انداز کی ہوئی رقم کی بھنک ان کے ایک قریبی عزیز کے دوست سرفراز کے کان میں پڑ گئی۔ خبر کا اس تک کیا پہنچنا تھا، بھائی صاحب نے ان کے گھر کے چکر لگانا شروع کر دیے۔ اس نے انھیں بتایا کہ اس کی ایک جاننے والی خاتون ہیں جن کا بہت بڑا چلتا ہوا کاروبار ہے۔ آپ اپنی بچت کی ہوئی رقم اس خاتون کے کاروبار میں لگا دیں، تو ہر ماہ معقول منافع ملے گا۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ راقم کا ابھی تک کا یہ تجربہ ہے کہ انسان یا تو لالچ میں دھوکہ کھاتا ہے یا پھر ترس کھا کر دھوکے کا شکار بنتا ہے۔ نجمہ بی بی اور ثانیہ کے ساتھ بھی یہ ہی کچھ ہوا۔ ان کے عزیز کا دوست سرفراز ان سے تقریباً تین لاکھ روپے لے گیا اور دو تین ماہ تک کچھ رقم بھی منافع کی مد میں دیتا رہا۔ اس دوران ثانیہ کا رشتہ طے ہو گیا، منگنی کی بجائے نکاح کی رسم ادا کی گئی اور رخصتی دو تین ماہ بعد کی رکھی گئی۔ اب نجمہ بی بی اور ثانیہ نے سرفراز سے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا، جسے وہ دو ماہ تک ٹالتا رہا۔

اس عرصے میں ثانیہ کے والد سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے اور جس سرکاری کوارٹر میں وہ رہائش پذیر تھے وہ کسی اور کو الاٹ ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم کی فائل ابھی تکمیل کے مراحل میں تھی۔ خیال ان کا یہ تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کی رقم ملتے ہی کوئی مکان خرید کر اس میں منتقل ہوجائیں گے۔ مگر اس میں ابھی تاخیر تھی اور ان کا کوارٹر کسی اور شخص کو الاٹ ہو گیا۔ انہوں نے اس شخص سے مارچ کی دس تاریخ تک وقت لیا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی کرلوں تو کوارٹر چھوڑ دوں گا۔

ادھر سرفراز رقم دینے میں ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ مگر چند روز کے بعد اچانک ایک اور شخص کو ساتھ لے کر ثانیہ کے گھر آ پہنچا اور بتانے لگا کہ میں نے جس خاتون کے ساتھ کاروبار میں پیسے لگائے تھے وہ میں لے آیا ہوں، اور ساتھ ہی اگلا پلان یہ دیا کہ میرا ایک مکان کا سودا چل رہا ہے، آپ یہ رقم مجھے دس دن کے لیے دے دیں تو شادی ہال اور کھانے کا خرچہ میری طرف سے ہو گا اور آپ کی رقم بھی پوری آپ کو مل جائے گی۔ سرفراز اپنی لچھے دار سے ایک بار پھر رقم اینٹھنے میں کامیاب ہو گیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ثانیہ کے والد کو ریٹائرمنٹ کی رقم ابھی تک نہیں ملی، کواٹر دس مارچ تک خالی کرنا ہے، مارچ کے پہلے ہفتے میں بیٹی کی رخصتی رکھی ہے اور شادی کے پیسے سرفراز کے پاس ہیں، جو اس نے دس دن کے لیے مانگے تھے اور اب تقریباً ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے اور وہ پیسے نہیں دے رہا۔ یہ خاندان جس اذیت کا شکار ہے، اس کا تصور کرنا دل درد مند کے لیے مشکل نہیں ہے۔

ہم میڈیا پر سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی کرپشن کی داستانیں سنتے ہیں، کاروباری افراد کی ذخیرہ اندوزی اور حرص منافع کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، مگر گلی محلوں میں ہونے والی فراڈ کے حقیقی واقعات منظر عام پر نہیں آتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر چند روز قبل تک ایک سیاستدان کی تیسری شادی زیر بحث رہی، اس کے بعد مراد سعید اور محسن بیگ کا قضیہ۔ کبھی کسی کی خانگی زندگی پر تبصرے اور کبھی کوئی اور لایعنی بحثیں جن کا عام آدمی کے مسائل کے حل سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں سیاست اشرافیہ کے ڈرائنگ روم تک محدود تھی، اس کلچر کو ذوالفقار علی بھٹو نے ختم کیا اور سیاست کو عوامی سطح پر لائے۔ مگر 1977 ء کے مارشل لاء کے بعد سیاست نظریات کی بجائے مفادات کے گرد گھومنے لگی، سیاست گلی محلوں کے رابطوں سے نکل کر سیاسی جماعتوں کے عہدیداران کی رہائش گاہوں کا طواف قرار پائی۔ اگر سیاسی نظام مضبوط ہوتا اور سیاسی جماعتوں کی تنظیم سازی گلی محلوں کی سطح پر کاغذوں کی بجائے عملی طور پر موجود ہوتی تو فراڈ اور دھوکہ دہی کے ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے۔ مگر افسوس کہ سیاست خرافات میں کھو گئی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments