مقصد حیات


عابد ضمیر ہاشمی کا تعلق جنت نظیر وادی کشمیر کے علاقے باغ سے ہے۔ جن کا شمار پاکستان کے صف اول کے نوجوان اور سنجیدہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ آپ اشاعت کتب اور کتب بینی کی روایت کو برقرار رکھنے والے جویائے علم اور قلم قبیلے کے سردار ہیں۔ ہر سو معاشرے میں بکھری الجھنیں بالخصوص قلاش طبقے کے مسائل کو حکام بالا تک پہنچانا ان کا ہدف اول ہے۔ وہ کشمیر میں سسکتی زندگیوں کی توانا آواز مانے جاتے ہیں۔

انھوں نے پاکستان کے معروف اخبارات اور مختلف ویب سائٹس پر شائع ہونے اپنے والے آرٹیکلز کو ”مقصد حیات“ کے نام سے کتابی شکل دے دی ہے۔ یہ تصنیف 548 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی تدوین و تالیف بھی بڑی اہتمام سے کیا گیا ہے۔ اس میں منفرد، متنوع اور متعدد موضوعات جیسے (عالمی یوم انسانی حقوق، کشمیر بنے گا پاکستان، بے روزگاری اور انسانی سمگلنگ، عالمی یوم خواندگی، بڑھتے ہوئے سائبر کرائم، خودکشی کا بڑھتا رجحان، عالمی یوم آبادی، نوجوان نسل میں منشیات کا بڑھتا رجحان قابل ذکر ہیں ) پر نہایت انہماک سے قلم فرسائی کی گئی ہے۔ یہ تصنیف معاشرے کا مکمل آئینہ دار ہے۔

میں نے اس مسودے کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ بلاشبہ عابد ضمیر ہاشمی نے معاشرے کا درد عرق ریزی اور جاں فشانی سے بیان کیا ہے اور یہ سماج میں پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے حل کے لیے ایک کلیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عابد صاحب نے کمال مہارت سے کتاب کا حرف حرف موتیوں سے پرویا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ یہ علم و دانش کا ایک ایسا بیش بہا خزانہ ہے جو ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تشنگان علم خواہ بچے ہوں یا بوڑھے، معلمین ہوں یا متعلمین، سیاست دان ہوں یا فلاسفرز، ڈاکٹرز ہوں یا انجنیئرز غرض ہر ایک کے لیے نسخہ کیمیا کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر آپ ذوق مطالعہ کی حلاوت سے آشنا ہیں اور کتاب کے سمندر سے در نایاب سمیٹنے کے خواہاں ہیں تو لازماً اس کتاب کا مطالعہ کیجیے۔

اس تصنیف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کے پیش لفظ پر وزیر خزانہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عتیق احمد خان، چیف جسٹس آزاد جموں کشمیر چودھری محمد ابراہیم ضیاء، معروف کالم نگار وجاہت مسعود اور بیرون ممالک کے اعلیٰ سطحی علمی شخصیات نے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں اور مصنف کی کاوشوں کو خوب سراہا ہے۔ موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ نے بھی تحریری صورت میں مصنف کی ادبی تخلیق کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ ہنوز دانشور حضرات اور متعدد مؤقر ادارے بھی اس تصنیف پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔

جہاں یہ تصنیف ملک کے طول و عرض تک پہنچائی گئی ہے وہیں ہماری بھی خوش بختی ہے کہ عابد ضمیر ہاشمی نے راقم کو اہل سمجھ کر اپنی تصنیف بطور تحفہ محبت پیش کی۔ جس کے لیے میں ان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں۔ یہ کتاب مجھے تقریباً چار ماہ قبل موصول ہوئی تھی ’مگر روایتی سستی اور دیگر نجی مصروفیات کی بنا پر تبصرہ لکھنے میں دیر کر دی جس کے لیے میں عابد بھائی سے معافی کا طالب ہوں۔ امید ہے وہ فراغ دلی کا مظاہرہ فرمائیں گے۔ کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کا ایک مشن مکمل ہوتا ہے‘ مگر اس سے بڑھ کر آنے والے وقتوں میں مزید اعلیٰ اہداف و مقاصد کو سامنے رکھ کر انھوں نے کام کرنا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انسان جس مزاج اور طبیعت کا مالک ہو گا وہی رنگ اس کی تحریر میں بھی نظر آتا ہے۔ میں جب بھی کتاب پڑھتا ہوں تو میری نظروں میں عابد ضمیر ہاشمی کی خوش مزاج، خوش اخلاق اور ہشاش بشاش طبیعت سامنے آتی ہے۔ ان سے ہماری سوشل میڈیا پر غائبانہ ملاقات ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر کالم نگاری کی دنیا نے ہمیں آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عابد ضمیر ہاشمی کے قلم میں مزید طاقت پیدا کرے اور نیک مقصد کی تکمیل میں سرخروئی عطا کرے۔ یونہی ملک و قوم کی خدمت کرتا رہے۔ عابد ضمیر ہاشمی کے لیے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔ آخر میں اس شعر کے ساتھ کہ:

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments