ژاں پال سارتر کے ناول ”سزائے موت میں التوا“ کا وجودی مطالعہ


تاریخ عالم کو بہ نظر غور دیکھا جائے تو یوں گماں ہوتا ہے کہ تخلیق انسانی میں آب و گل کے ہمراہ سوال وجود کی آمیزش بھی ہے۔ داستان گوئی ہو کہ غاروں میں مصور شکستہ اشکال، یہ تمام اثبات وجود کے ہی استعارے ہیں۔ لیکن زمیں و آسماں کی وسعتوں کو پاٹنے والا انسان تلاش ذات کے سفر میں بار بار ٹھٹک جاتا، صدیوں تک انسان نے اپنی ذات میں اٹھنے والے ان سوالوں کو نظر انداز کرنا چاہا۔ کائنات کی تفہیم و توسیع مشغول رہنے کی ہزارہا کوششوں کے باوجود سوال وجود اسے اندر ہی اندر کچوکے دیتا رہا۔

انسانی شعور کی بالیدگی کے ساتھ داخلی جوار بھاٹے کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب عقل کی مطلقیت کے سائے انسان کی زندگی پر گہرے ہونے لگے تو پاسکل نے اس کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اپنے وجود کے اثبات کے لیے وہ خارجی اشیاء سے منہ موڑ کر خدا کے حضور سر بسجود ہوا۔ کرکیگارڈ نے احساس کی صدا پر لبیک کہا، زندگی کے جمالیاتی، اخلاقی اور مذہبی ادوار سے گزر کر انفرادیت حاصل کی۔ دوستو فیسکی نے انسان کو لا محدود تنہائی میں گھرا پایا اور اقدار و روایت کی زنجیریں توڑ کر فرد کی آزادی کے لیے اپنا زور قلم صرف کیا۔ نطشے نے ”جہان کہن کی موت“ کا اعلان کیا اور انسان کے ارادہ قوت کو پہچان کر اسے فوق البشر کے مقام تک رسائی حاصل کرنے کی راہ دکھلائی۔

دو عالمی جنگوں کے بعد فرد کے موضوع میں اٹھنے والا یہ انفرادی سوال اجتماعی تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ جنگیں اپنے ساتھ لوٹ مار، قتل و غارت، معاشی بدحالی اور بے حسی کے وہ نمونے لے کر ابھری کہ انسان کے تمام روایتی اقدار و اعتقادات خاک میں مل گئے۔ انسان کو اپنے افعال اور دنیا کی لایعنیت و لغویت کا احساس ہوا۔ اس کرب اور مایوسی نے انسان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے نظریات، اخلاقیات اور فلسفے کو از سر نو مرتب کرے۔

لایعنیت اور بے حیثیتی سے لرزاں انسان کو جبرئیل مارسل، کارل جیسپرز اور مارٹن بیوبر نے آزادی اور خودمختاری کا احساس دلایا۔ انہوں نے انسانی وجود کی کاملیت ماورائے مطلق کے ساتھ تعلق میں تلاش کی۔ ہائیڈگر نے فرد کی حقیقی زیست کے راز کو دریافت کیا۔ سارتر نے انسان کے وجود کو اس کے جوہر پر مقدم جانا۔ سیمون دی بوا نے عورت کو اس کے وجود کی قوت کا احساس دلایا۔ کافکا کی پر اسرار دنیا نے انسان کو آنے والے خطرات سے آگاہی بخشی، کامیو کے فرد نے دنیا کی لغویت سے آنکھیں پھیرنے کی بجائے بغاوت کی راہ اختیار کی اور کولن ولسن نے انسانی وجود میں رجائیت کا خوشگوار احساس پیدا کر کے اسے نصب العین کی تلاش پر مائل کیا۔

وجودیت نے انسان کے وجود میں سر اٹھانے والے تمام جذبات و احساسات کو اہم مقام دیا۔ وجودیوں کے نزدیک دنیا اور اپنے افعال کی لغویت کے احساس ہونے پر انسان خود کو بے حیثیت تصور کرنے لگتا ہے یہ کیفیت وجود کے اندر اور خارج میں پھیلے ہوئے عدم کا شعور بھی پیدا کرتی ہے۔ بے رشتگی، بیگانگی اور مایوسی کی یہ فضا انسان کو اکتاہٹ اور کرب میں مبتلا کر دیتی ہے، لیکن یہی منفی جذبے اس کے اندر جرآت و حریت لا کر انتخاب پر مائل کرتے ہیں۔ وجودی طرز فکر نے فرد کی آزادی اور انتخاب کو کائنات کی تخلیقی قوت قرار دیا۔ وجودیت کے فلسفے نے وجود کی وسعتوں اور گہرائی سے آگاہی بخش کر انسان کو اس کے ”ہونے“ کا اثبات دیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی وحشت و بربریت سے شکستہ فرد کے لیے سارتر عظمت انسان کا تصور لیے کر آیا۔ ایک ایسا فلسفی جس نے انسان کی آزادی پر کسی قسم کے جبر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ خدا کے وجود کی نفی کر کے انسان کو اپنی قسمت کا مختیار قرار دیا۔ سارتر کے ہاں وجودیت انسان دوستی کے فلسفے کے طور پر ابھرتی ہے کوئی بھی انسان جب انتخاب کرتا ہے تو وہ صرف اپنے وجود کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے انتخاب کرتا ہے۔

یوں انتخاب کی یہ آزادی در حقیقت ایک ذمہ داری ہے اس ذمہ داری سے منہ پھیرنے کی صورت میں وہ متلی، فنادگی اور مایوسی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انتخاب کر کے وہ ان کیفیات سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ سارتر ہر اس فکر کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا رہا جو انسان کو محدود کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ سارتر نے فلسفے کو ہفت افلاک کی بلندیوں سے اتار کر انسان کی یاسیت اور کرب کو سمجھنے کے لیے برتا۔

ژاں پال سارتر کا ناول ”سزائے موت میں التواء“ میونخ معاہدے ”سے قبل کے فیصلہ کن ہفتے سے جڑے تاریخی واقعات کو افسانوی انداز میں بیاں کرتا ہے۔ 23 ستمبر سے 30 ستمبر 1938 کے سات دن جب فرانس، برطانیہ، چیکوسلاوکیہ ہٹلر کی دھمکی سے خوفزدہ جنگ اور امن کی دو انتہاؤں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے۔ جنگ کی دہشت اور کرب سے لبریز ایک ایسا ہفتہ جس میں یورپ کا ہر ایک باشندہ کش مکش تھا۔ سارتر کرداروں کے جم غفیر کے احساسات و جذبات کے بیانیہ سے، اس آفاقی صورت حال کو سامنے لاتے ہیں۔

لیکن اس طرح کہ ہر فرد اپنے انفرادی کرب، مایوسی، بے چینی کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ سزائے موت میں التوا میں جنگ کی دہشت بطور ایک صورت حال کے سامنے آتی ہے، جس میں ہر فرد اپنے انفرادی انتخاب سے جنگ اور امن کے مابین ایک کو چنتا ہے۔ یوں جنگ کسی ایک فرد کے انتخاب، لالچ اور بے بسی کی بدولت انسانیت پر نازل ہوتی نہیں نظر آتی۔ بلکہ انتخاب سے نظریں چرانے والے ہر انسان کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ سزائے موت التواء کے کینوس پر متنوع ردعمل سے بھر پور کردار ابھرتے ہیں۔

ایک جانب ایسے کردار سامنے آتے ہیں جنہیں جنگ کی صورت حال بے حیثیت کرنے پر مائل تھی، لیکن اپنے وجود اور اطراف میں پھیلی ہوئی لاشئیت کے ادراک سے وہ جرآت اور استقلال کو بروئے کار لا کر انتخاب اور اظہار کی راہ چنتے ہیں تو دوسری طرف ایسے کردار بھی نظر آتے ہیں جو فضا کی لایعنیت اور لغویت کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے تقدیر کے ہاتھوں میں سب کچھ سونپ کر انتخاب سے آزاد ہونے کی سعی کرتے ہیں۔ ماود، ڈینیل اور فلپ کے کردار حالات کے بہاؤ پر اپنی زندگی کو چھوڑ دینے کے بعد اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے رہتے ہیں۔

اپنے وجود کے کرب اور بے عملی سے بیدار ہونے والے شرم کے جذبات کو نظر انداز کر کے لوگوں کی بے توجہی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ میلان اور اینا اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے سوڈیٹن جرمنوں کے ہاتھوں اپنے گھر کی شکست و ریخت کا چپ چاپ نظارے کرتے ہیں، لیکن“ بے عملی ”کے مرتکب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے لیے بھی بے گھری اور غلامی کا باعث بنتے ہیں۔“ چارلس ”اور“ گراس لوئیس ”کے کردار اپنی زندگی کو سنوارنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام اور نا مراد ہی رہتے ہیں۔

چارلس کیتھرین سے محبت کر کے دنیا سے وابستگی کا انتخاب کرتا ہے، لیکن بہت جلد ہی دنیا اپنے تمام تر جبر کے ساتھ اس اپاہج انسان کو گھیر کر اسے کیتھرین سے جدا کر دیتی ہے۔ گراس لوئیس جیسا عام انسان جس کے لیے جنگ کے میدان میں گولیوں سے موت لکھی ہے تو زندگی کے میدان کا راز میں بھوک اور بے رشتگی کے عفریت نگلنے پر تیار ہیں۔ جنگ اور امن دونوں صورتوں میں سادہ دل انسان کی زندگی اجیرن ہے۔ ان دو کرداروں کی بنت میں سارتر اپنے کامل اختیار کے نظریے سے اختلاف کرتا ہوا نظر آتا ہے، یوں گماں ہوتا ہے کہ سارتر انسان کی زندگی پر جبر کی کار فرمائی کا ایک حد تک قائل ضرور ہے۔

متھیو اور پائری جنگ کی بے جو اذیت اور لغویت کے بھر پور ادراک کے باوجود جنگی صورت حال کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کرب اور گھن کی کیفیت سے گزرنے کے بعد ان کے اندر عمل کی جرآت پیدا ہوتی ہے، وہ وابستگی تلاش کر کے اپنے وجود کو اور اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کو معنی دینے کی کوشش کرتے ییں۔ اس لیے میونخ معاہدے کی خبر بھی ان میں جذباتی تلاطم پیدا نہیں کرتی۔ اپنے“ ہونے ”کا احساس اس قدر لازوال ہوتا ہے کہ جنگ کی موجودگی یا غیر موجودگی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

وجود اور لاشئیت میں سارتر انسان کو مہمل اضطراب قرار دیتا ہے جو خدا بننے کے لیے کوشاں ہے لیکن کبھی بن نہیں پاتا، وہ اپنے اندر کے عدم کو کبھی بھی نہیں بھر سکتا۔ بورس اور آوئچ کے کردار سارتر کے اس نظریے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں، بورس جنگ کو ایک نا گزیر مستقبل تصور کرتا ہے، وہ سیاسی صورت حال کی لایعنیت سے اکتا کر فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے یوں اپنے تئیں وہ خود کو کرب سے محفوظ کر کے فوراً انتخاب کرتا ہے، لیکن جنگ کے نہ ہونے کی خبر اس کی فیصلے کی لغویت کو نمایاں کر دیتی ہے۔ آوئچ جنگ سے قبل اپنے محبوب شہر کے چپے چپے کو اپنی آنکھوں کو دوبارہ بھر لینے کی خواہش سے پیرس میں وارد ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کے اختتام پر وہ اپنی کوئی خواہش تشنہ نہیں رہنے دینا چاہتی، لیکن آوئچ کی یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوتی اسے لا حاصلی اور اذیت کا کے درد ناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن انتخاب کے نتائج کی تمام تر محدودیت اور بے یقینی کے باوجود انسان کی اپنے وجود کے اثبات کے لیے جدوجہد لغو اور لا حاصل نہیں ہے۔ سارتر کے نزدیک انسانی وجود اسی جد و جہد سے اپنا جوہر تلاش کرتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی کائنات کو معنی عطا کرتا ہے۔ انسانی وجود کی موجودگی اور آزادی کا احساس ہی اس کے لیے باعث عظمت ہے۔

دو عالمی جنگوں سے شکستہ انسان کے لیے سارتر کا فلسفہ باعث رحمت بنا۔ جہاں قدیم قدروں کے اختتام، مشینی حکومت، سائنسی تحقیقات اور کشت و خون کے مظاہرے اسے ذلت کی گہرائیوں میں سپرد کرنے پر آمادہ تھے، وہی سارتر نے انسان کو مایوسی اور تنہائی کے اندھیروں سے نکالا۔ وہ فرد کی آزادی کا داعی بن کر سامنے آیا اور انسان میں عظمت و رفعت کا احساس بیدار کیا۔ ژاں پال سارتر کا ادب اس کے فلسفے کی ترجمانی کرتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہے۔ وجودیت سارتر کا فلسفہ حیات ہے اور ادب اس توسیع و تشریح کا وسیلہ۔ سارتر کی ادبی تصانیف سے وجودیت کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ وجودیت نے دنیا بھر کے ادبی شہ پاروں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ اردو ادب میں بھی وجودی فکر کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔

ہندوستان کی سرزمین پر انگریز سامراج نے فرد سے آزادی اور تہذیب چھین کر اس کے وجود میں ایک کبھی نہ بھرنے والا عدم پیدا کر دیا۔ جبر و استعماریت کے گہرے سایوں سے گھرے ہوئے انسان نے اپنی تمام تر جرآت و استقلال کو بروئے لا کر تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ لیکن تقسیم کے فوراً بعد ہی فرد کا اپنے انتخاب کی لغویت اور لایعنیت سے سامنا ہوا۔ آزادی کے خوابوں کی تعبیر بھیانک ثابت ہوئی۔ کشت و خون، لوٹ مار، عصمت دری کے واقعات نے ہندوستان اور پاکستان کے افراد کو جذباتی سطح مجروح کیا۔

ان ممالک کی بنیادوں میں اس قدر ناحق خوں تھا کہ سال در سال گزرنے کے بعد بھی یہ عمارت وطن اس لہو سے لال نظر آتی ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر عام فرد کے ساتھ جو سلوک ہوا اس سے بے حیثیتی کا احساس اور بڑھتا چلا گیا۔ تخلیق کے فن سے آشنا قلم کاروں کے لیے یہ کیفیت اور بھی شدید ثابت ہوئی۔ ان کے حساس وجود گھن اور کرب سے بھر گئے۔

ظلم، بربریت اور بے حیثیتی کے ستائے ہوئے اہل قلم کے درد کا مداوا وجودیت کی صورت میں ہوا۔ اقبال نطشے کی وجودی طرز فکر سے متاثر ہوئے لیکن ان کا مرد کامل خدا کے وجود سے منکر ہونے کے برعکس اپنی خودی کی تکمیل ذات مطلق میں پاتا ہے۔ مذہبی انداز نظر کی بدولت اقبال فرد پرستی کے قائل نہیں نظر آتے۔ لیکن اردو ادب میں وجودیت کو مقبول عام رجحان کا درجہ تب حاصل ہوا، جب سارتر وجودی فلسفیانہ نظریات سے تشکیل دی ہوئی اپنی اخلاقیات کے تحت تیسری دنیا میں ہونے والے جبر کے خلاف کھڑا ہوا۔

برصغیر کی سر زمین کے لیے یہ دور بھوک، بدحالی اور بے حسی سے معمور تھا۔ اس انتشار اور اضطراب کی فضا میں سارتر کی وجودی فکر نے ادیبوں اور شاعروں کو عظمت انسان کا احساس دلایا۔ انہوں ظلم و بربریت، استعماریت اور ہر اس فکر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جو انسان کو محدود و مجبور ثابت کرنے پر مائل تھی۔ راشد، مجید امجد، میرا جی، منیر نیازی اور وزیر آغا نے عدمیت، بے رشتگی، بیگانگی، بے حیثیی اور گھن کی کیفیت کو اپنی شاعری میں بیان کیا۔

ان کے ہاں انسان کی ابدی تنہائی کا مکمل شعور بھی نظر آتا ہے۔ وہ وجود کی انفرادیت اور آزادی کے لیے کوشاں ہے تاکہ زندگی کی بے معنویت میں معنی پیدا کر سکے۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے ہاں سارتر کے ”ذمہ داری“ کے انسان دوست نظریے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اردو فکشن میں منٹو، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، سریندر پرکاش، بلراج مین را، بانو قدسیہ اور نثار عزیز بٹ کے ہاں دنیا کی لایعنیت، مہملیت اور لغویت کا شعور ابھرتا ہے۔ ان کے کردار خوف اور دہشت کی فضا میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عظمت انسان سے معمور اس کے نظریات کسی ایک خطے اور زمانے میں محدود نہ تھے۔ سارتر اپنے عہد کا ضمیر تھا جس کی فلسفیانہ نظریات اور ادبی تخلیقات نے انسان کو خود اس کے وجود سے روشناسی کرایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments