عمران خان کا دورہ روس، مضمرات و امکانات


اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس کافی پہلے بلکہ اس وقت سے طے شدہ تھا جب روس اور یوکرین کشیدگی اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ جنگ کی نوبت آئے۔ مگر عمران خان کے دورے سے چند دن پہلے صورتحال واضح ہو چکی تھی خاص کر جب امریکی صدر جو بائیڈن نے کھل کر خبردار کیا تھا کہ روس چند دن میں یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے۔ ایسی صورتحال میں ضرورت اس بات کی تھی کہ وزارت خارجہ عالمی سفارتی صورتحال کو مد نظر رکھ کر اس دورے کو ملتوی کر دیتی کیونکہ گزشتہ تین سال میں کم از کم تین مرتبہ روسی صدر مختلف وجوہات کی بناء پر اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر چکے تھے۔ تو عمران خان کا دورہ ملتوی ہونا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی نہ ہی اس کے کچھ زیادہ منفی اثرات ہوسکتے تھے۔ سوائے اس کے کہ روس تھوڑی سی ناراضگی کا اظہار کرتا۔

مگر لگتا ہے کہ دورہ روس میں وزارت خارجہ سے زیادہ عمران خان کی ذاتی دلچسپی کا عمل دخل تھا کیونکہ جو بائیڈن کا عمران خان کو کال نہ کرنا اب عمران خان کے لئے ایسی بین الاقوامی سبکی بن چکی تھی جس کا ازالہ شاید وہ اسی طرح کر نا چاہتے تھے کہ وہ امریکہ مخالف سپر پاور کے ساتھ وقت گزارے اور خود مختاری کے ساتھ کچھ ممکنہ معاہدے کر سکے۔ عمران خان کی ذاتی سمجھ بوجھ اور دانش کی حد تک یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر جب بات اور ذمہ داری وزارت خارجہ اور اس میں بیٹھے تجربہ کار سفارتکاروں کی ہو تو وہ ایک ایک لفظ کو تول کر بولتے ہیں اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ اس میں پھر ایسی غلطی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی۔ جس سے پوری دنیا میں وزیراعظم عمران خان کے دورے کی ٹائمنگ اور اس کے ملک پر منفی اثرات موضوع بحث بن گئی۔

دوسری طرف زیرک عالمی رہنما روسی صدر پیوٹن نے جان بوجھ کر یوکرین کے خلاف اسی روز اعلان جنگ کرنا ضروری سمجھا جس روز عمران خان روس میں موجود تھے۔ انھوں نے یورپ و امریکہ کو پیغام دینے کی کوشش کی کہ چین کے علاوہ بھی ایک ایٹمی قوت کا حامل ملک پاکستان بھی مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ان کا مقصد یہ نہ ہوتا تو وہ اعلان جنگ کو دو دن پہلے یا دو دن بعد بھی کر سکتے تھے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عمران خان کے اس دورے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا یا نقصان، تو خدشہ یہ ہے کہ یہ دورہ پاکستان کے لئے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان کا باعث بنے گا۔ کیونکہ ایسے وقت میں جب امریکہ کی سربراہی میں یورپ اور برطانیہ سمیت عالمی طاقتیں روس پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔ پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ معاہدے اور پھر اس کی تکمیل کیونکر ممکن ہے۔ ایک طرف معاہدوں کی تکمیل میں مشکلات درپیش ہوگی دوسری جانب امریکہ برطانیہ اور یورپ پاکستان کو روسی حلیف کے طور پر سمجھنا شروع کریں گے۔ اور خاص کر ایک ایسے وقت میں جب افغان جنگ میں شکست کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے ہیں، امریکہ بہادر کو بلا وجہ مزید غصہ دلانا کوئی دانشمندی نہیں۔

پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال، ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف اور عالمی عدالتوں کی من مانیاں ہم سب کے سامنے ہیں، ان حالات میں جب وزیر اعظم عمران خان بار بار آزاد خارجہ پالیسی اور کسی بھی کیمپ میں نہ جانے کا اعادہ کر رہا ہے۔ جنگ کے دہانے پر کھڑے ہو کر یہ دورہ اس کی نفی کرتا ہے۔ جب ہمارے ہر دلعزیز ترکی سمیت پوری دنیا روسی جارحیت کی مذمت کرتی ہے ایک بے وقت اور بے سود دورے کی وجہ سے ہماری زبان گنگ ہو چکی ہے۔

ہم ایک کھلی جارحیت کی مذمت تک نہیں کر سکتے۔ ہمارا یہ عمل ہمیں امریکی بلاک سے مزید دور کرنے اور چائنیز بلاک میں دھکیلنے کا موجب بن سکتا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں امریکی بلاک کا حصہ رہنے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ گزشتہ چالیس سال کے دوران اسٹیبلشمنٹ سمیت ملکی اشرافیہ کے منہ کو امریکی ڈالرز کا جو چسکا پڑا ہے۔ وہ چائنیز بلاک میں جانے سے پورا ہونا ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تو بلاک بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں مگر نواز شریف کی جانب سے سی پیک شروع کرنے کے بعد ملکی اشرافیہ پہلی مرتبہ دو بلاکس میں بٹی نظر آتی ہے۔ ایک با اثر گروپ کا خیال ہے کہ ہمیں ہر حال میں امریکہ کے ساتھ نباہ کے رکھنا ناگزیر ہے۔ اور یہ کہ چین امریکہ کی طرح عالمی اور مقامی سطح پر ہماری تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا ہے۔ وہ انتہائی حد تک مادہ پرست کاروباری ملک ہے مگر وہ امریکہ کی طرح ڈالر لٹاتا نہیں ہے۔

جبکہ ایک اور توانا گروپ کا موقف ہے کہ ہم پچاس ساٹھ سال سے امریکہ کے اتحادی رہے ہیں مگر انھوں نے صرف اپنے مفادات کے لئے ہمیں استعمال کیا کبھی حقیقی دوست کا درجہ نہیں دیا۔ اور چونکہ چین نیا معاشی اور سیاسی سپر پاور بننے جا رہا ہے ہمارا پڑوسی بھی ہے اس لئے ہمیں امریکہ کی بجائے چین کے ساتھ تعلقات پر فوکس کرنا چاہیے۔ اگرچہ دونوں فریقین کے موقف اور دلائل میں وزن ہے مگر موجودہ پاکستان جیسے معاشی طور پر انتہائی کمزور اور سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک کے لئے پالیسی شفٹ جیسا انتہائی قدم اٹھانا اتنا آسان بھی نہیں۔

اس لئے دوبارہ عرض ہے کہ پاکستان کے گھاگ سفارتکار اور وزارت خارجہ کے ذمہ دار اپنی ذمہ داریاں نبھانے آگے آئیں۔ ملک کو عمران خان جیسے ناتجربہ کار اور من مانے حکمران کی مرضی پر مت چھوڑیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس مشکل وقت میں کوئی بھی غلط فیصلہ پوری قوم کو تاریخی سبق سکھانے کا ذریعہ بنے۔ اور ہم سب کف افسوس ملتے رہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments