خاندان برامکہ کا غیر معمولی عروج و زوال


انسانی تاریخ عروج و زوال کی ایسی عجیب و غریب اور لرزہ خیز داستانوں سے لبریز ہے جن میں کئی زور آور کردار آسمان اقتدار پر کوندے کی طرح لپکتے نظر آئے اور آن کی آن میں اپنی تب و تاب دکھا کر رخصت ہو گئے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انسانوں نے اقتدار کی ہوس میں لاشوں کے ڈھیر لگا دیے، بستیوں کو تاراج اور فصلوں کو نذر آتش کر ڈالا۔ حصول اقتدار کے بعد اس کو قائم رکھنے اور طول دینے کے لیے مزید ظلم و تعدی کے پہاڑ توڑے گئے۔

مخالفوں کا تو قصہ ہی الگ اپنے محسنوں کو بھی ذرا سی لغزش پہ سپرد تیغ یا حوالہ زنداں کر دیا جاتا، پھر جیل کی کال کوٹھریوں سے ان کے جنازے ہی برآمد ہوتے۔ لیکن پھر وقت ایسی چال چل جاتا کہ اقتدار کو طول دینے کے ان کے سارے جتن ناکام ہو جاتے اور ساری تدبیریں الٹی پڑ جاتیں۔ اقتدار کا ہما کسی کے سر پہ مستقل کب بیٹھتا ہے، یہ پلک جھپکنے میں اڑ کر کسی اور سر کو تلاش کر لیتا ہے۔ بادشاہ وقت طاقت کے نشے میں مخمور کرسی اقتدار پر بڑے طمطراق سے برا جمان ہوتا ہے، بے خبر اس بات سے کہ اس کی کرسی کے پایوں کو دیمک مسلسل چاٹ رہا ہے۔

پھر اچانک وہ دھڑام سے نیچے آ گرتا ہے۔ اقتدار کا ہما اڑ جاتا ہے۔ بساط الٹ دی جاتی ہے۔ شطرنج کے مہروں کو نئے انداز سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ جیل کی کال کوٹھریوں میں عرصہ دراز سے سسکتے لوگوں کی قسمت پلٹ جاتی ہے، اقتدار والے قید خانوں کی رونق بن کر رہ جاتے ہیں اور قیدیوں کو رہائی اور اقتدار تک نصیب ہوجاتا ہے۔

86 ہجری میں عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں قتیبہ بن مسلم کو خراسان کو گورنر مقرر کیا گیا۔ قتیبہ بن مسلم نے بہت بڑی فوج کے ساتھ ”مرو“ پر فوج کشی کر دی۔ اس لڑائی سے مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مال غنیمت اور لونڈیاں آئیں۔ ان میں سے ایک لونڈی جس کا نام ”برمک“ تھا قتیبہ بن مسلم کے بھائی عبداللہ بن مسلم کے حصے میں آئی۔ اتفاق سے یہ عبداللہ سے حاملہ ہو گئی۔ چند روز کے بعد اہل بلخ سے صلح ہوئی تو قتیبہ نے حکم دیا کہ تمام لونڈیاں واپس کر دی جائیں۔

مگر برمک کو واپس کرتے ہوئے یہ شرط باندھی گئی کہ اگر اس کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا تو وہ اس کے باپ عبداللہ بن مسلم کے حوالے کر دیا جائے گا۔ حمل کی مدت گزرنے کے بعد اتفاق سے لڑکا ہی پیدا ہوا جس کا نام ”خالد“ رکھا گیا۔ خالد بچپن سے ہی بڑا ذہین فطین اور اعلی صفات کا مالک تھا، وہ بلا کا محنتی اور جفاکش ہونے کے ساتھ معاملہ فہمی اور حاضر جوابی میں بے مثال تھا۔ ادھر بنو امیہ کی سلطنت کے اقتدار کی چمک ماند پڑ رہی تھی اور بنو عباس کے اقتدار کا سورج طلوع ہو رہا تھا، تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر خالد برمکی بھی شباب کی دہلیز پہ قدم رکھ رہا تھا۔

عہد بنو عباس کے اقتدار کی شروعات ابو عبداللہ السفاح سے ہوئی تو یہی خالد برمکی اور خاندان برامکہ کی شان و شوکت اور بے مثال عزت و منزلت کا نقطہ آغاز تھا۔ خالد کو وزارت کا عہدہ عطا ہوا اور وہ سفاح کے مرنے تک وزارت کے عہدے پر متمکن رہا۔ ابو جعفر منصور کے دور میں گو خالد سے وزارت لے لی گئی مگر اسے دیگر اہم ترین امور سلطنت سونپے گئے حتیٰ کہ خلیفہ مہدی کے زمانہ ولی عہد میں اس کا اتالیق (معلم) مقرر ہوا۔ خالد کا ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ رکھا جو فطانت و لیاقت میں باپ کی مثال تھا۔

یحییٰ نے زمانے کے تمام مروجہ علوم پہ دسترس حاصل کی اور طبقہ امراء میں بہت نام کمایا، اس کی بہترین شہرت کی وجہ سے خلیفہ مہدی نے اسے جواں سال ہارون الرشید کا اتالیق (معلم) مقرر کر دیا۔ یحییٰ سفر حضر میں ایک استاد اور سرپرست کے طور پر ہارون کے ساتھ رہتا تھا۔ جب خلیفہ ہادی نے ہارون کو ولی عہد سے ہٹا کر خلافت و سلطنت سے محروم کرنے کی کوشش کی تو یحییٰ نے حتیٰ الوسع مخالفت کی جس کی پاداش میں اس کو حوالہ زنداں کر دیا گیا۔

خلیفہ ہادی کے جیتے جی یحییٰ جیل میں چکیاں پیستا رہا۔ مگر جیسے ہی ہادی کا انتقال ہوا اور ہارون الرشید بلاد اسلامیہ کا بلا شرکت غیرے حکمران بنا تو اس نے اولین کاموں میں سے ایک کام یہ بھی کیا کہ یحیٰی برمکی کو قید خانے سے عزت و اکرام کے ساتھ نکلوایا اور اپنے پہلو میں وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا لیا۔ تاریخ کے اس عجیب تغیر نے ایک بار پھر برامکہ خاندان کو عروج عطا کر ڈالا۔ جس رات خلیفہ ہادی کا انتقال ہوا وہ بھی بڑی عجیب رات تھی۔ ہادی (خلیفہ) انتقال کر رہا تھا، ہارون الرشید (خلیفہ) تخت نشین ہو رہا تھا، مامون الرشید (خلیفہ) پیدا ہو رہا تھا اور یحییٰ برمکی جیل کی تاریکیوں سے نکل کر وزیراعظم کی کرسی پر جلوہ افروز ہو رہا تھا۔

یحییٰ کے آٹھ بیٹے تھے جنہوں نے تخت و بخت کی نعمتوں کو بہت بچپن سے دیکھ لیا تھا اور ان کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہوئی تھی مگر ان میں سے صرف دو نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر تاریخ میں نام کمایا، ایک کا نام فضل برمکی اور دوسرے کا نام جعفر برمکی تھا۔ فضل، ہارون الرشید کا ہم عمر بھی تھا اور دودھ شریک بھائی بھی کہ ہارون کی ماں نے فضل اور فضل کی ماں نے ہارون کو اپنا دودھ پلا رکھا تھا۔ ہارون جس طرح یحییٰ برمکی کو ایک باپ کا درجہ دیتا تھا اسی طرح وہ فضل اور جعفر کو اپنا بھائی کہتا تھا۔

ہارون الرشید نے یحیٰی کے ضعیف ہو جانے کے بعد اس کو موقوف کر کے اس کے پسر باکمال فضل کو وزارت عظمیٰ پر بٹھا تو دیا تھا مگر بزرگ یحییٰ کے اثر و رسوخ میں چنداں کمی نہیں آئی تھی کہ اس کا بولا ہر حرف، حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔

جس طرح فضل، علم و دانش میں یکتا تھا اسی طرح اس کا بھائی جعفر بھی فہم و فراست میں بے مثال تھا، وہ بہادر اور نڈر ہونے کے ساتھ سخاوت اور فیاضی میں بھی مشہور تھا۔ خلیفہ ہارون کو جعفر سے دلی محبت تھی وہ اس کے بغیر ایک لمحہ چین نہ پاتا تھا۔ جعفر کی عقلمندی اور تجربہ کاری پر وہ اکثر ناز کیا کرتا تھا۔ خلیفہ کے حکم سے خاندان برامکہ کے لیے دریائے دجلہ کے کنارے بڑے بڑے محلات تعمیر کیے گئے اور بہت بڑی جاگیریں عطا کی گئیں۔ خاندان برامکہ کا حکومتی معاملات میں اثر و رسوخ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ عوام الناس خلیفہ کو برائے نام سمجھنا شروع ہو گئے تھے۔ کاروبار مملکت خاندان برامکہ کے چند لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گیا تھا جن میں جعفر اور فضل سر فہرست تھے جو سلطنت کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے۔

برامکہ خاندان کی اس اونچی اڑان کو دیکھ کر امراء، وزراء اور پرانے درباریوں کے دلوں میں حسد کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔ وہ خلیفہ کے دل کو برمکیوں کی طرف سے میلا کرنے کی اپنی سی سعی کرنے لگے۔ پہلے پہل خلیفہ ان شکایات کو معمولی جان کر نظر انداز کرتا رہا مگر جس طرح پانی کا کمزور قطرہ بھی مسلسل گرتا رہے تو پتھر کا سینہ چاک کر دیتا ہے اسی طرح مسلسل شکوہ و تنقیص نے خلیفہ کو سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ وہ آہستہ آہستہ جعفر اور فضل کی باز پرس کرنے لگا۔

پھر بات ہلکی پھلکی خفگی سے ہوتی ہوئی کھلم کھلا ناراضگی تک جا پہنچی۔ ایک بار خلیفہ ایک اور وزیر سے اہم صلاح مشورے میں مصروف تھا کہ بزرگ یحییٰ لاٹھی ٹیکتا ہوا اس محفل میں آ گیا۔ خلیفہ ہارون کو یہ بات سخت ناگوار گزری اس نے یحیٰی کو سنانے کے انداز میں وزیر سے پوچھا ”تم بھی کسی کی محفل میں بلا اجازت اسی طرح گھس جاتے ہو“ ؟ یحییٰ یہ سن کر سخت متعجب ہوا اور اس نے بے ساختہ خلیفہ سے کہا ”میں آپ کے بچپن سے آپ کی خلوت و انجمن میں آپ کا ساتھی و نگران حتیٰ کہ معلم رہا ہوں اگر میرے مرتبے میں کمی کر دی گئی، تو مجھے اس سے آگاہ کر دیا جاتا، میں کبھی ایسے مخل نہ ہوتا“ ۔

خلیفہ یہ بات سن کر تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور گردن جھکا لی۔ مگر جہاندیدہ یحییٰ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی وہ سمجھ چکا تھا کہ الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس واقعے کے بعد یحییٰ کے بلا اجازت دربار میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی اب یحییٰ دربار شاہی میں اطلاع کر کے بھی آتا تو دربان اور خدام منہ پھیر لیتے۔ اسی اثنا میں جعفر برمکی نے قید میں موجود ایک انتہائی اہم فرد کو خلیفہ کی اجازت حاصل کیے بنا رہا کر دیا جس سے خلیفہ ہارون الرشید بہت سخت ناراض ہوا۔

107 ہجری میں خلیفہ ہارون الرشید نے حج سے واپسی پر ”انبار“ میں قیام کیا، جعفر بھی ہمراہ تھا۔ جا بجا شاہی خیمے نصب تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے خادم خاص مسرور کو طلب کیا اور ایک عجیب و غریب حکم صادر کیا ”فوراً جاؤ اور جعفر کی گردن اتار کر اس کا سر میرے قدموں میں ڈال دو“ ۔ یہ حکم سن کر مسرور لرزہ براندام ہو گیا مگر ہارون نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ جو حکم دیا ہے اس کو بجا لاؤ۔ مسرور جعفر کے خیمے میں گیا اور اس کا سر اتار کر بادشاہ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔

خلیفہ نے بوڑھے یحییٰ اور فضل کو بھی فی الفور گرفتار کروا کے جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا۔ خاندان برامکہ کی تمام جاگیریں ضبط کر لی گئیں اور دریائے دجلہ کے کنارے شاندار محلات کو زمین بوس کر دیا گیا۔ خاندان برامکہ کے ہر چھوٹے بڑے کو پکڑ کر حوالہ زنداں کر دیا گیا۔ اگلے روز جعفر کی نعش کے دو ٹکڑے کر کے الگ الگ جگہوں پر لٹکا دیے گئے۔ یحییٰ اور فضل دونوں کا رقہ کے تنگ و تاریک قید خانوں میں انتقال ہوا۔

یوں خاندان برامکہ زوال کی عجیب داستان بن کے رہ گئے، اس خاندان کی وہ خواتین جن کے جسموں پر زیورات لدے ہوتے تھے اور جن کے چہار اطراف کنیزیں موجود ہوا کرتی تھیں، حالات کے تھپیڑوں نے ان کی حالت یہ کر دی تھی کہ وہ مسجدوں کے باہر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئیں۔

تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے، جو کچھ ماضی میں رونما ہوا وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے بس بادشاہوں، وزیروں، مشیروں، سپہ سالاروں سازشیوں اور غداروں جیسے کرداروں اور برامکہ جیسے خاندانوں کے نام اور انداز بدل گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments