ابو نے گاڑی کی چھت میں اندر سے کٹ کیوں لگایا؟


ابو جی کے بارے میں میری پہلی یادداشت ابو کا چہرہ نہیں ہے۔ سر کے پچھلی طرف کا حصہ ہے اور گردن پر بال ہیں (جو کہ حیرت ہے کہ کیوں کر ہیں)۔ ابو وہ نیلا ویسپا چلا رہے ہیں جس نے بڑا عرصہ ہماری خدمت کی۔ میں امی کی گود میں موجود ہوں اور بھیا ہینڈل اور ابو کے درمیان والی جگہ پر کھڑا ہے۔ ہم ملتان کینٹ کی کسی سڑک پر ہیں اور کمپنی باغ کی طرف جا رہے ہیں۔ ابو بار بار ہاتھ پیچھے لا کر مجھے پکڑنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور میں ان کے ہاتھ سے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں اور امی یہ سب دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔

پھر ایک دن ہے۔ ملتان کی شدید گرمی میں بھیا اور میں صحن کے درمیان پانی کے پائپ کو ایک پرانی صندوقچی جو غالباً کسی زمانے میں پیسے جمع کرنے والی گولک تھی، کے الف نما چھید میں پھنسا کر فوارہ بنائے نہا رہے ہیں اور ابو ڈیوڑھی سے صحن میں داخل ہوتے ہیں۔ آفس سے آئے ہیں تو وردی پہنی ہوئی ہے۔ رے بین کا دھوپ کا چشمہ ہے اور آرام سے پاؤں رکھ رہے ہیں صحن میں کہ پھسل نہ جائیں۔

ابو کی رنگت صاف، مونچھیں تراشیدہ اور بالوں کا اسٹائل اتنا کوئی فوجی کٹ رہتا تھا اور اب بھی رہتا ہے کہ راہ چلتا کوئی فوجی سلیوٹ نہ بھی مارے لیکن آنکھوں سے ایک لحظے کو رک کر تسلیمات ضرور پیش کر دیتا تھا کہ شاید کوئی کرنل صاحب جا رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ کہ اگر ابو کے دوست حسن انکل بھی ساتھ ہوں۔ ان کا بھی یہی اسٹائل ہوتا تھا۔ ابھی بھی ایسا ہی ہے۔ قلموں پر بال انچ برابر بڑھتے نہیں کہ شاہد بھائی گھر آ کر ابا کی حجامت کر جاتے ہیں۔ کرونا کے دنوں میں ابو کی حجامت میں خود بناتا تھا۔ مونچھیں بنانے کے لیے میں ان کو فل باچھیں پھیلا کر اور دانت نکال کر مسکرانے کو کہتا۔ اس طرح مونچھوں کے بال ایک قطار میں آ جاتے ہیں اور بیک گروانڈ میں سفید دانت ہوں تو بالوں کو برابر کاٹنے میں آسانی رہتی ہے۔

ابو ہم بچوں کے ساتھ بہت فرینک رہتے ہیں اور کبھی کوئی خاص سختی نہیں کی۔ جتنی ریسلنگ میں نے ابو کے ساتھ کی ہے اور ان پر ہلک ہوگن کے داؤ پیچ آزمائے ہیں اتنی اپنے دوستوں کے ساتھ بھی نہیں کی۔ میرا مرحوم دوست دبیر میری ابو کے ساتھ یہ فرینک نس دیکھ کر ایک مرتبہ پوچھ بیٹھا کہ سچ بتا یہ تیرے ہی ابو ہیں۔

ویسپا ابو کا پسندیدہ تھا اور جب وہ بکا تو ابو بہت افسردہ تھے ایسا مجھے بھیا نے بتایا۔ میں اس وقت چھوٹا تھا، حساب نہیں لگا سکا کہ ابو کیا محسوس کر رہے ہیں۔ میں نے تو وہ ویسپا ہمیشہ صحن میں ایک طرف گردن ڈھلکائے کھڑا دیکھا تھا جیسے دل ہی دل میں کہہ رہا ہو ہائے میں تاں مر ویساں بہوں گرمی ہے پئی۔ لیکن میں نے ابو کو پرجوش دیکھا اور ان کے چہرے پر خوشی دیکھی ہے کہ جب انھوں نے گاڑی خریدی۔ پہلے فون کیا کہ میں عاشق ٹیلر والی گلی سے گاڑی لے کر آ رہا ہوں۔ یہ گلی پائلٹ اسکول ملتان والی سائیڈ سے ہمارے گھر کی طرف آتی تھی۔ میں خوشی خوشی اس گلی میں پہنچ گیا اور اس گلی سے متصل دائی کے میدان کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس میدان میں ایک تنور تھا اور روٹیاں لگانے والی خاتون کو دائی کہا جاتا تھا۔ اسی کے سامنے کچھ گھر تھے جن میں بھیا کے دوست ہنی بھائی کا گھر بھی تھا۔

ابو گاڑی لائے۔ پیلے رنگ کی ایف ایکس۔ سب بہت خوش تھے۔ دادی کے کہنے پر گاڑی کی چھت کی اندرونی طرف سے ایک کٹ لگا کر پاکٹ سائز قرآن مجید اس میں فٹ کر دیا گیا۔ اس گاڑی پر ہم نے بہت سفر کیا۔ یہ آج بھی ابدالی روڈ پر پی آئی اے کے دفتر میں کام کرتے چغتائی صاحب کے پاس موجود ہے۔

ابو کو ہم نے کبھی پریشان نہیں دیکھا۔ اس لیے کہ وہ پریشانی چھپانے میں کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب معاملات طبعیت پر اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو پھر ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ کوئی مسئلہ ہو جائے تو فوراً اس کے حل کی طرف سوچنا شروع کر دیتے ہیں بجائے اس کے کہ واویلا مچایا جائے۔ مختصر ترین بات کرنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔ بات لمبی ہو اور بتانا بھی ضروری ہو تو انسانی بنیادوں پر اپیل کر کے ابو جی سے پہلے اجازت لینی پڑتی ہے۔ میں بھی اسی چیز کا عادی ہوں لیکن مجھے صبر سے کام لینا پڑتا ہے بہت سے لوگوں کے ساتھ اور کچھ تربیت بہ طور فضائی میزبان 15 سال کام کرنے کی وجہ سے بھی ہو گئی ہے۔ اب میں بہت کچھ سکون سے سن لیتا ہوں۔

اب کے ابو اور پہلے کے ابو میں کچھ فرق آ گیا ہے۔ ابو نے پی آئی اے میں 40 سال نوکری کی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کول ابو کافی ہاٹ ہو گئے ہیں۔ غلط نہ سمجھیں میرا مطلب غصے سے ہے۔ ابو پہلے بہت کچھ کنٹرول کر لیتے تھے۔ اب جھاڑ جھوڑ کر بندے کو یس کرا دیتے ہیں موقع پر ہی۔ طنز کرنا ویسے ہمارے یہاں کی خاندانی سوغات ہے جو کہیں نہ کہیں ہم اپنے جاننے والوں کو دل و جان سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ابو کا طنز بڑا تکنیکی ہوتا ہے۔ عام بندہ اپنی تعریف سمجھ کر اکثر واری صدقے بھی ہو جاتا ہے لیکن جو سمجھ جاتا ہے وہ بس سمجھ ہی جاتا ہے۔

جس طرح ابو پریشانی چھپا جاتے ہیں اس ہی طرح جذبات بھی۔ طنز کے ساتھ ساتھ یہ عادت مجھ میں بھی بھرپور طریقے سے سرایت کیے ہوئے ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ابو ہمیں بہت پیار کرتے ہیں۔ ابو کو بھی پتہ ہے کہ بچے مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے نا یار۔ اب اور کیا کریں۔ لو یو کے میسج سے نہ ابو کبھی روشناس ہوئے اور نہ ہی ہمیں کروایا۔ یہی بات ہے کہ اکثر میری زوجہ کو شکایت رہتی ہے۔

بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے ابو نے ہماری تربیت کی ہے۔ مار دھاڑ تو چھوڑیں ڈانٹ ڈپٹ بھی بس کبھی کبھار ہی ہمارے یہاں کا راستہ دیکھتی۔ بڑوں کی عزت کرنے سے لے کر نہا کر غسل خانے سے نکلنے سے پہلے وائپر کرنے تک ہر بات سیکھ لی ہم نے۔ ہم بچوں کی حس مزاح نکھارنے میں بھی ابا کا ہی ہاتھ ہے۔ کوئی دنیا جہان کا لطیفہ سنا دیں آپ، بیچ میں سے اچک لیں گے۔ پھر سب رنگ اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھ کر معلوم ہوا کہ ابو کی لغت ہائے لطائف کا ذخیرہ کہاں سے آتا ہے۔ وہی پڑھ کر بھیا کو شوق ہوا پڑھنے کا اور اس نے مجھے بھی اس کام پر لگا دیا۔

ہم دو بھائی ہیں۔ بہن ایک ہی ہے۔ نوکری لگتے ہی میں تو ملتان سے نکل گیا۔ اگلے سال بھیا بھی۔ بہن کی آخر کو شادی ہو جانی تھی۔ ہم نے کہا لاہور آ جائیں اور ہمارے پاس رہیں لیکن نہیں مانے۔ میں نے کہا بس پھر ہم میں سے کوئی ایک آ جاتا ہے۔ کہنے لگے کوئی ضرورت نہیں۔ وہی جذبات چھپا لینے والی عادت۔ ہم نے کہا چلیں آپ مانیں یا نہ مانیں اب ایک بیٹے کو تو آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ ہنسی میں ٹالنے لگتے کہ بھئی کیا تیر مار لو گے یہاں آ کر۔

اچھے خاصے سیٹ ہو اور کما رہے ہو۔ ہماری فکر نہ کیا کرو۔ اندر سے انھیں معلوم تھا کہ ایک بیٹا ضرور ان کے پاس ہونا چاہیے۔ جی ایک ہی کیوں کہ ابا زیادہ رش بھی پسند نہیں کرتے۔ میرے پاس یہ سہولت تھی کہ میں پروازیں چھوڑ کر زمینی عملے کے طور پر کام کر سکتا تھا۔ سو میں ملتان آ گیا۔ میں نے آج تک باقاعدہ طور پر نہیں پوچھا کہ اب آپ میرے آنے سے خوش ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ مجھے بھی معلوم ہے اور ابو کو بھی۔

ابو جی کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ دادی کے انتقال کر جانے والی صبح کو جب میں ایک عزیز، حفیظ بھائی کے بین سے اٹھا تو بھیا پہلے سے جاگ رہا تھا۔ ابو نے مجھے بتایا کہ دادی کا انتقال ہو گیا ہے۔ ابو کا چہرہ سپاٹ تھا شاید رات کو رو چکے ہوں گے۔ ایسا ایک مرتبہ لگا کہ جب میلسی کے قریب حسین آباد میں میرے جواں مرگ دوست دبیر کے چالیسویں کی مجلس پر ہم دونوں ساتھ بیٹھے تھے۔ میری تو ہچکی بندھ گئی تھی مصائب کے دوران اور مجھے لگا ابو بھی رو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے دبیر کی جگہ انھوں نے مجھے یا بھیا کو رکھ کر سوچا ہو۔ مگر میری ہمت نہ ہوئی کہ ان کو روتا دیکھوں۔

پھر وہ دن بھی آیا جب دیکھنا ہی پڑا۔ چھوٹی بہن نے نکاح نامے پر دستخط کیے اور ابو کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں انتظامات میں مصروف تھا۔ خالہ کے بیٹے فرقان نے کان میں کہا کہ جمال انکل کو سنبھالنا خاور۔ ابو کو ڈھونڈا تو سٹیج کے پیچھے بیروں کی آمد و رفت کی جگہ پر کھڑے گڈو ماموں ان کو دلاسا دے رہے تھے اور بھیا بھی پاس کھڑا تھا۔ میرے گلے میں گولہ سا پھنس گیا اور بھیا کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس موقع پر ابو کو کیا کہنا ہے۔ کیوں کہ نہ ایسا موقع کبھی آیا تھا اور نہ ہی ابو کو کبھی روتے ہوئے دیکھا تھا۔ ابو خاموش تھے اور آنکھیں لال تھیں۔

امی ابو اور میں نے 15 سال ایک دوسرے سے الگ گزارے۔ اب ہم ساتھ ہیں۔ عالی (میرے بیٹے ) کا بچپن تو انھوں نے مس کر دیا۔ اب لڑکپن ان کے سامنے گزر رہا ہے۔ چھوٹی بہن اپنے گھر میں خوش ہے اور اس بات پر ہم سب بہت خوش ہیں۔ بھیا بھی آتا جاتا رہتا ہے۔ اللہ کی بڑی رحمت ہے۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 41 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments