عورت مارچ: پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ہونے والے احتجاج پر اعتراضات کیوں ہیں؟

ترہب اصغر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


عورت مارچ
پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے ہر سال منعقد ہونے والے عورت مارچ پر کچھ طبقوں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ عورت مارچ ہونا ہی نہیں چاہیے تو کسی کو اس مارچ کے احتجاج کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جنھیں اس مارچ کے کچھ نعرے نہیں پسند آتے۔ عوام کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی جانب سے بھی اس مارچ کو آخری دن تک اجازت نامے جاری کرنے کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

اس سال بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سامنے آئی جب لاہور اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے مخصوص سڑکوں پر عورت مارچ کی اجازت نہ دی تو منتظمین کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا جس کے بعد انھیں سکیورٹی فراہم کرنے اور مارچ کرنے کی اجازت دی گئی۔

رواں برس تو عورت مارچ رکوانے کے لیے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے بھی وزیرِ اعظم پاکستان کو یہ خط لکھا گیا کہ اس مارچ کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اس مارچ میں ’معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی، حجاب اور مذہب کا مذاق اڑایا جاتا ہے جس کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔‘

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر آٹھ مارچ کو پاکستان میں منائے جانے والا عورت مارچ پہلی مرتبہ 2018 میں کیا گیا تھا جس میں مختلف قسم کے پوسٹرز اٹھائے خواتین اپنے حقوق اور برابری کی بات کرتی دکھائی دیتی تھیں۔

’میرا جسم، میری مرضی‘ پر اعتراض کیا؟

عورت مارچ

ہم نے اس حوالے سے مردوں کے بجائے کچھ ایسی خواتین سے بات کی جنھیں عورت مارچ یا اس میں بلند کیے جانے والے نعروں پر اعتراضات ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے تمام خواتین کے صرف پہلے نام ہی شائع کیے جا رہے ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عائشہ کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس مارچ سے مسئلہ نہیں ہے اور خود بھی عرصہ دراز سے خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

تاہم اُنھوں نے کہا کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے اس ایک نعرے نے عورتوں کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا دی ہے اور صرف یہ نعرہ ہی زیرِ بحث رہتا ہے۔

ہاجرہ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ میں بہت سی ایسی لڑکیوں کو جانتی ہوں جنھیں یہ مارچ دیکھ کر گھر سے باہر جانے اور پڑھنے کی اجازت نہیں ملتی کیونکہ گھر والے کہتے ہیں کہ ہماری بچی بھی شہر اور یونیورسٹی جا کر یہی کچھ سیکھے گی اور کرے گی۔

مگر عورت مارچ لاہور کی منتظم ہبہ اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس نعرے کی تشریح ہی غلط کرتے ہیں۔

’اس نعرے کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ اگر میرا جسم ہے تو اس پر مرضی بھی میری ہونی چاہیے۔ کوئی اسے میری مرضی سے بغیر ہاتھ نہ لگائے، کوئی ہمارا ریپ نہ کرے، کوئی ہمیں ہر سال ہماری مرضی کے بغیر بچے پیدا کرنے کو نہ کہے، ہمیں اپنے خاوند سے ہم بستری کرنی ہو تو اس میں بھی ہماری مرضی شامل ہو۔‘

’معاشرتی اقدار‘

عورت مارچ

بہت سے لوگوں نے اس مارچ سے جڑے معاشرتی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شخص کا حق ہے لیکن ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

اس حوالے سے عائشہ کا کہنا تھا کہ مرد ہو یا عورت ہمیں احتجاج اس انداز میں کرنا چاہیے جو ہمارے معاشرے میں باآسانی قبول ہو۔ اُن کے مطابق بیشتر لوگوں کو لگتا ہے کہ جس انداز میں عورت مارچ ہوتا ہے وہ ’معاشرتی اقدار کے خلاف‘ ہے۔

جہاں ایک طرف یہ سوچ پائی جاتی ہے وہاں عورت مارچ میں ہر سال شامل ہونے والی ثنا کہتی ہیں کہ اُنھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ عورت مارچ سے مسئلہ کیا ہے۔

’اگر ایک دن خواتین سڑکوں پر آ کر اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں فحاشی ہوتی ہے حجاب پر مذاق کیا جاتا ہے۔ میں نے تو ایسا کچھ نہیں دیکھا، کیونکہ میں خود ہر سال اس مارچ میں چادر لے کر جاتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ مارچ میں ہر قسم کی خاتون آئی ہوتی ہے اور ’یہی آزادی تو ہم مانگتے ہیں کہ عورت کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی اجازت ہو۔‘

عورت مارچ

عورت مارچ میں چھپ کر شرکت

ثنا کے علاوہ سارہ بھی ہر سال عورت کا حصہ بنتی ہیں تاہم ان کے گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وہ عورت مارچ میں جاتی ہیں۔

ان کے مطابق وہ ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں اُنھیں ہر کام کرنے سے پہلے گھر والوں کی اجازت لینی اور اُن کی بات ماننی پڑتی ہے۔ ’یہاں تک کہ میں نے جب انٹرن شپ کرنی تھی تو مجھے اس کی بھی اجازت نہیں تھی، اس لیے میں کالج سے چھپ کر جا کر انٹرن شپ کرتی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اسی لیے یہ مارچ بہت ضروری ہے کیونکہ کم از کم اس سے تھوڑی بہت تو آگاہی پھیل رہی ہے۔ ’میرے گھر والے ابھی بھی اس کے خلاف ہیں اور میں سُن رہی ہوتی ہوں، اسی لیے میں ہر سال چھپ کر ہی اس مارچ میں شرکت کرتی ہوں۔‘

مگر سارہ اس مارچ میں صرف شرکت ہی نہیں کرتیں، بلکہ وہ اس مارچ میں رضاکارانہ طور پر کام بھی کرتی ہیں۔

اس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس مارچ کے نعروں پر اعتراض اٹھاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کئی برسوں سے دیکھتے تو آ رہے ہیں کہ عورت پر ظلم ہو رہا لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر عورت نے اپنے حقوق کی بات کرنی بھی ہے تو وہ بھی وہ اُن کی مرضی کے مطابق کرے۔

عورت مارچ

مسئلہ بات سے نہیں، بات کرنے والوں سے

انھوں نے مزید کہا کہ عورت پر ظلم اور حقوق کی بات تو عرصہ دراز سے ہوتی آ رہی ہے لیکن آج تک اس پر اعتراض نہیں ہوتا تھا۔

’اس مارچ پر اعتراض اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ عورتوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔‘

ہبہ کہتی ہیں کہ عورت مارچ میں اس نعرے کے علاوہ بھی کئی نعرے ایسے ہیں جو اُنھیں بہت پسند ہیں اور ان نعروں کی وجہ سے ہی عورتوں کے حقوق پر کھل کر بات ہو رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’عورت مارچ سے اصل مسئلہ اور خطرہ یہ نہیں ہے کہ اس مارچ کیا بات ہو رہی ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ بات کر کون رہا ہے۔‘

اُن کے مطابق بظاہر پاکستان میں اس مارچ پر اعتراض کرنے والے لوگوں کو یہ خطرہ ہے کہ کہیں ایسی حقوق کی بات ہمارے اپنے گھر سے نا آ جائے جس کی وجہ سے وہ اس مارچ کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

محمد حنیف کا کالم: خاموش رہیں اندر لڑکی قتل ہو رہی ہے

موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزمان عابد ملہی اور شفقت کو سزائے موت

’مائرہ جج بننا چاہتی تھی۔۔۔ اگر میری بیٹی کی بات سُن لی جاتی تو آج وہ زندہ ہوتی‘

اسلام آباد میں والد کے ہاتھوں بیٹی کا قتل: ’قاتل تک پہنچنے میں سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھی مدد ملی‘

عورت مارچ 2022 کا منشور

عورت مارچ ہر سال کسی نہ کسی تھیم کے تحت منعقد کیا جاتا ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے عورت مارچ لاہور کی منتظم ہبہ نے بتایا کہ ہر سال عورت مارچ کا منشور اس سال سب سے نمایاں رہنے والے معاشرتی مسائل کو دیکھتے ہوئے تیار کرتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ اس سال کے منشور کا بنیادی نکتہ ’اصل انصاف‘ پر مبنی ہے۔

مارچ

’ہم برسوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ عورت کے خلاف ظلم ہوتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں دیا جاتا۔ کوئی عورت اس لیے قتل کر دی جاتی ہے کیونکہ وہ مرد کے سامنے کھانا گرم نہیں پیش کرتی تو کبھی غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے۔‘

اُنھوں نے پاکستان میں بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دینے کے رجحان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی تو کوئی بچی اس لیے بھی قتل کر دی جاتی ہے کیونکہ وہ بیٹی تھی اور والدین کو بیٹے کی خواہش تھی۔

’ہر دن عورت مارچ ہونا چاہیے‘

واضح رہے کہ پاکستان کے شہر میانوالی سے پیر کے روز خبر سامنے آئی تھی کہ مبینہ طور پر ایک والد نے اپنی سات دن کی بیٹی کو اس لیے قتل کر دیا کیونکہ وہ بیٹا چاہتا تھا۔

اسی طرح سے پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، ریپ یا خواتین پر تشدد کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔

جن واقعات نے پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کی ہے اس میں جولائی 2021 میں اسلام آباد میں نور مقدم کا قتل، ستمبر 2020 کا لاہور سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس، جنوری 2018 میں کم سن زینب انصاری کا جنسی تشدد کے بعد قتل، سنہ 2016 میں ماڈل قندیل بلوچ کا غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حکام اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بیشتر واقعات ایسے ہیں جو کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق پاکستان میں ہر برس ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو ‘غیرت’ کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے، جبکہ 32 فیصد خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہبہ نے کہا کہ ’ہمارے سامنے نور مقدم کا کیس بھی موجود ہے۔‘ جب کسی معاشرے میں ایسی مثالیں موجود ہوں تو میرا خیال تو یہ ہے کہ عورت مارچ ایک دن نہیں بلکہ سال کے ہر دن ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments