فیصلے کی گھڑی


تیس ہزار فٹ کی بلندی پر کسی یورپین شہر کے اوپر سے گزرتے ہوئے میری آنکھیں یکایک کھل گئیں۔ میرے برابر وسیم اور سلمیٰ سو رہے تھے۔ ان کے برابر اسما بھی بے خبر سو رہی تھی۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ وہی معصوم چہرہ، وہی موٹے موٹے پپوٹے اور ان کے اوپر لانبی سیاہ پلکوں کی آنکھوں پر چھایا۔ آنکھوں کے گرد ہلکے، سیاہ حلقے جو جاکر بھری بھری بھنوؤں کے ساتھ مل جاتے تھے۔ اسما کی بھنویں بڑی فطری تھیں۔ اس نے کبھی ان کی پلکنگ نہیں کی تھی۔

بھنوؤں کے اوپر چوڑی سی پیشانی جن کے بیچ میں دونوں جانب گہرے سیاہ بال آخر مل گئے تھے۔ محرابی چہرے پر بھرے بھرے ہونٹ۔ مجھے بے اختیار اس پر پیار آ گیا تھا۔ بہت دنوں بعد بہت دیر تک میں اس کے خوبصورت چہرے کو تکتا رہا۔ پریشانی سے خالی چہرہ، کسی بڑی سی جھیل کی طرح پر اطمینان۔ میں تو اس شکل کو ہی بھول گیا تھا۔ لمحے گھنٹے بن کر ، گھنٹے دن اور رات کی شکل میں ہوتے ہوئے ہفتوں مہینوں میں بدل گئے تھے اور ہفتے، مہینے سال میں کہیں کھو کر رہ گئے تھے۔ اور اس عرصے میں، میں اسے چاہتا رہا تھا، پوجتا رہا تھا، اس کے چہرے کو تکتا رہا تھا، مگر یہ شکل، یہ چہرہ کہیں کھو گیا تھا۔ مجھ سے چھپ گیا تھا، جیسے چاند بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔

وہی پھول سا چہرہ وہی بھولی سی اسما۔ ماضی کے سال بڑی خاموشی سے گزر گئے تھے۔ میں نے بھی ایک طرح سے سوچ لیا تھا، حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا کہ اب میں امریکہ نہیں جا سکوں گا۔ شادی سے پہلے اسما کی شرط ہی یہی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ شادی ہو جائے گی تو پھر اسما کو منا لوں گا مگر شادی کے بعد جس طرح اس نے پاکستان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھا تھا، جس طرح یہاں کے کاموں میں الجھ گئی تھی، جس طرح سے ایک ایک لمحے کو وہ انجوائے کرتی تھی کہ اس کے بعد مجھ میں بھی ہمت نہیں تھی کہ میں اس سے کہتا کہ امریکا چلو۔

میرا سارا خاندان امریکہ میں تھا اور میں نے بھی زندگی اسی طرح سے پلان کی تھی کہ شادی کے بعد دلہن کو امریکا لے کر چلا جاؤں گا مگر قسمت ایسی کہ مجھے اسما پسند آ گئی اور اسما کی تو شرط ہی نہیں تھی کہ سوائے اس کے کہ پاکستان میں ہی رہنا ہے۔ پھر وہ سب کچھ ہو گیا تھا کہ برسوں کے بعد یکایک اسما ہی نے مجھے کہا تھا کہ امریکا جانا ہے اور جلد از جلد جانا ہے۔ یہ ملک چھوڑنا ہے، فوراً چھوڑنا ہے۔

میں نے ایک دفعہ اس کی طرف بھرپور نظروں سے دیکھا جو اطمینان اور جو سکون اس کے چہرے پر تھا وہ دیکھ کر مجھے وہی اسما یاد آ گئی تھی جس سے پہلی دفعہ میں سول اسپتال کراچی کے ڈاکٹرز کیفے ٹیریا میں ملا تھا۔

اس دن میں حمید سے ملنے وہاں گیا تھا۔ وہ میرا بچپن کا کلاس فیلو تھا۔ اس نے سائنس لے کر میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا۔ میں نے کامرس پڑھ کر ایم بی اے کر لیا تھا۔ میں آئی سی آئی میں کام کرتا تھا۔ بھائی جان کی وجہ سے سے ہم سب بھائی بہنوں کو گرین کارڈ مل گیا تھا۔ سب لوگ تو فوراً ہی چلے گئے تھے مگر میں ہر سال امریکا کا چکر لگا لگا کر امریکن شہری بن گیا تھا۔ کسی لڑکی کی تلاش تھی کہ اس سے شادی ہو جائے تو پھر میں بھی یہ ملک چھوڑ جاؤں۔

میرے لئے نوکریوں کی کمی نہیں تھی۔ پاکستان میں بھی ملٹی نیشنل والے مجھے رکھنے کو تیار تھے اور سچی بات تو یہ ہے کہ جس وقت حمید وغیرہ ہاؤس جاب کر رہے تھے میں لاکھوں روپے ان سے زیادہ کما رہا تھا اور کمپنی نے کار کے ساتھ ہر قسم کی سہولتیں بھی مہیا کی ہوئی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ اچھا ہوا کہ میں ڈاکٹر نہیں بنا تھا۔ دن رات کی کھٹ پٹ، سالوں کی پڑھائی، اس کے بعد چند ہزار روپوں کی کمائی، یہ بھی کوئی زندگی تھی۔ وہ زمانہ چلا گیا جب پیشوں سے عزت ہوتی تھی اب عزت کا تعلق روپوں سے ہے، ماہانہ کمائی سے ہے، بڑی سی پجارو سے ہے۔ چاہے وہ ماہانہ کمائی حرام کی ہی کیوں نہ ہو اور وہ پجارو لوٹی ہوئی دولت سے ہی کیوں نہ خریدی گئی ہو۔ معیار بدل گئے ہیں، لوگ بدل گئے ہیں، وقت بدل گیا ہے، کہا جاتا ہے ہم نے ترقی کرلی ہے۔

میں میڈیکل کالج میں تو نہیں تھا مگر حمید کی وجہ سے ڈاکٹروں سے دستیاں خوب تھیں بلکہ بہت سے لوگ تو مجھے اعزازی ڈاکٹر بھی کہتے تھے۔ ایک دن مذاق مذاق میں حمید سے دو سال جونیئر ایک لڑکا تھا فاروق، کافی تیز طرار جس کا کالج کے آفس میں آنا جانا بھی خوب تھا۔ ہمارے ساتھ اکثر کینٹین میں بیٹھا رہتا تھا۔ اس نے میرے پرس سے میری ایک تصویر نکال لی تھی اور دوسرے دن کینٹین میں حمید کے سامنے مجھے ڈاؤ میڈیکل کالج کا آئیڈینٹٹی کارڈ بنا کر دیا تھا کہ اب میں امریکا کے ویزے کے لئے اپلائی کردوں۔ کارڈ کے مطابق میں کالج کے چوتھے سال کا طالب علم تھا اور امریکن ایسے لوگوں کو ضرور ویزا دے دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کو تو واپس آنا ہی پڑے گا۔

میں نے اسے بتایا کہ میرے پاس پہلے سے گرین کارڈ موجود ہے اور میں تو عید سے ملنے اور اپنا وقت گزارنے آ جاتا ہوں تو اس نے کہا تھا، یار پہلے کیوں نہیں بتایا خواہ مخواہ میں نے وقت ضائع کیا۔ میں نے پوچھا، بھائی تم سے کہا کس نے تھا کہ یہ کارڈ بناؤ۔

وہ ہنس کر بولا، ”یار جب بھی آتے ہو، ہماری کینٹین کا بل دے دیتے ہو، میں نے سوچا کچھ اور نہیں تو تمہیں ڈی ایم سی کا طالب علم ہی بنا دوں۔ ارے بھائی! یہ کارڈ خوب بنتے ہیں اور خوب بکتے ہیں۔ ہمارے کتنے دوست اسی طرح سے امریکا چلے گئے اور واپس لوٹ کے بھی نہیں آئے ہیں۔“

مجھے پہلی دفعہ پتا لگا تھا کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں یہ دھندا بھی ہوتا ہے۔ آفس کلی مہریں چوری ہو کر پرنسپل کے جعلی دستخطوں سے کالج کے شناختی کارڈ بنتے ہیں، امریکن ایمبیسی کے نام خط جاتے ہیں بلکہ یہ بھی ہوتا تھا کہ پرنسپل کیک طرف سے خط لکھ کر امریکا کے مختلف اسپتالوں اور یونیورسٹیوں سے اس قسم کے جعلی میڈیکل اسٹوڈنٹس کے لئے عارضی کام کے خط منگوائے جاتے تھے اور امریکا کا ویزا لگوا کر امریکا جایا جاتا تھا۔

فاروق نے بتایا تھا کہ ان سب کام میں سب ملا ملو کر ڈیڑھ دو لاکھ وصول کیے جاتے ہیں۔ تمہارا تو میں نے فری میں ہی بنوا دیا ہے۔ ”اس نے ہنس کر کہا تھا۔ جب میڈیکل کالجوں میں مستقبل کے ڈاکٹر ویزا پاسپورٹ اور امیگریشن کے کالے دھندے میں لگ جائیں تو اس بات کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ اس ملک کے نظام میں کہیں پر بڑی خرابی ہے۔ پروفیسر پڑھاتے نہیں ہیں، ڈاکٹر مریض نہیں دیکھتے، لڑکے پڑھتے نہیں ہیں، جو پڑھتے ہیں وہ پاکستان میں رکتے نہیں ہیں، جو رکتے ہیں وہ ڈاکٹروں کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں اس کا اندازہ مجھے ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کالج میں، ہاسٹل میں یہ سارا کام ہو رہا ہے۔

میں نے سوچا تھا کہ بھلا ہو بھائی جان کا کہ ان کی وجہ سے ہم سب لوگوں کو گرین کارڈ مل گیا تھا بلکہ اب تو یہ ہوا تھا کہ وہاں جانے کے بعد ابو نے اپنے بھائی بہنوں کو اور امی نے اپنے بھائی بہنوں کو بھی اسپانسر کر دیا تھا اور ایک ایک کر کے خاندان کا ایک ایک فرد امریکا پہنچتا جا رہا تھا۔ تیس چالیس سال پہلے جب میرے دادا زندہ تھے تو ہم میں سے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم لوگ پاکستان چھوڑ کر اس طرح سے چلے جائیں گے۔

دادا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عمر کے آخری حصے میں جوان اولادوں اور ان کے بچوں کے ساتھ اسلام اور قائداعظم کی محبت میں پاکستان آئے تھے اور ان کے مرنے کے بعد تقریباً سارا ہی کنبہ اب امریکا جا چکا تھا۔ ڈالر کی کشش تھی یا پاکستان کے حالات سے فرار یا امریکا میں ملنے والی سہولتوں اور آرام کا نشہ۔ مجھے تو امریکا میں ہی نوکری مل گئی تھی مگر کچھ دوستوں کی وجہ سے، کچھ کراچی کی ٹھرک اور کچھ یہاں کے جعلی ٹشن تھے جو میں واپس آ کر آئی سی آئی میں ملازمت کر رہا تھا۔

لیکن اندر سے مجھے یہ پتا تھا کہ جس دن اچھی سی ایک لڑکی مل جائے گی اسی دن اسے بیاہ کر میں امریکا میں ہی جا کر بسوں گا۔ بس ایک اچھی سی لڑکی کے چکر میں کراچی میں گھوم رہا تھا ایک اچھی سی لڑکی کی کوئی تعریف نہیں ہوتی، بس وہ اچھی ہوتی ہے ایسی ہوتی ہے کہ اسے دیکھ کر آدمی بے چین ہو جائے۔ وہ خوبصورت بھی ہو سکتی ہے، لانبی ہو سکتی ہے، چھوٹی بھی ہو سکتی ہے، گوری بھی ہو سکتا ہے، کالی بھی ہو سکتی ہے، موٹی بھی ہو سکتی ہے، دبلی بھی ہو سکتی ہے، سندھی، مہاجر، میمن، پنجابی، پٹھان، پڑھی لکھی جاہل۔

دل تو کسی کے لئے بھی بے چین ہو سکتا ہے اور جس کے لئے بے چین ہو، جو راتوں کو جگا دیتی ہو، جو ہر وقت ذہن پر چھائی رہتی ہو، جس کے نام سے ہونٹ کانپتے ہوں اور چہرہ سرخ ہوجاتا ہو، جس کے نام سے دل کی دھمک کانوں کو سنائی دینے لگتی ہو، جو اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، ہر وقت ہر سمے آس پاس نظروں کے سامنے دل کے پاس دماغ کے اندر رہتی ہو، بس وہی اچھی ہوتی ہے۔ اسما ایسی ہی لڑکی تھی۔ خوبصورت تو وہ تھی ہی مگر میں اسے دیکھ کر بے چین ہو گیا تھا۔ ایک شدید خواہش دل میں اٹھی تھی کہ ہر صورت میں اسے اپنانا ہے۔ مجھے پہلی دفعہ اندازہ ہوا تھا کہ لوگ محبت میں کیا کچھ کر گزرتے ہیں۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، محاورہ میرے ذہن میں گونج اٹھا تھا۔

اسما، حمید کے وارڈ میں ہاؤس جاب کر رہی تھی۔ میں حمید کے ساتھ ڈاکٹرز کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہ اسے تلاش کرتی ہوئی آئی تھی، کسی مریض کے بارے میں پوچھنے کے لئے جو وارڈ میں بے ہوش پڑا ہوا تھا اور جس کے خون کے ٹیسٹ رپورٹ ابھی آئی تھی۔

مجھے یاد ہے اس نے کہا تھا، ”سر! وہ صرف اٹھائیس سال کا ہے اور یکایک بے ہوش ہو کر گر گیا تھا۔ ماں اور باپ اسے اٹھا کر لائے ہیں، ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں نے خون کے جو ٹیسٹ آپ نے کہے تھے، کرا دیے تھے اور اب یہ رپورٹ آئی ہے۔ کچھ بھی نارمل نہیں ہے۔ بلڈ شوگر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ سوڈیم پوٹاشیم بہت ڈسٹرب ہے۔ یوریا لیولز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ کیتھیٹر پاس کر دیا ہے مگر پیشاب کوئی خاص نہیں آ رہا مجھے تو لگتا ہے کہ نہیں بچے گا یہ۔ جوان لڑکا ہے کچھ کریں، سر کچھ کرنا ہو گا۔ سارے فون خراب ہیں۔ فون سے بات نہیں ہو سکتی تھی تو میں نے سوچا کہ میں خود ہی آپ کو جا کر بتا دوں۔“ یہ کہہ کر اس نے لیبارٹری کے کاغذات حمید کے سامنے رکھ دیے تھے۔

حمید کاغذات دیکھ رہا تھا اور میری نظریں اس کے چہرے کا بوسہ لے رہی تھیں۔ مجھے پتا تھا کہ میں بے چین ہو گیا ہوں۔ جس کی مجھے تلاش تھی، وہ اچھی سی لڑکی یہی تھی۔

حمید نے مجھ سے کہا تھا کہ میں یہیں بیٹھوں اور وہ وارڈ میں مریضوں کو دیکھ کر واپس آتا ہے۔ وہ اسماء کے ساتھ چلا گیا۔

میں وہیں بیٹھا اور لوگوں کے ساتھ گپ مارتا رہا اور چائے پیتا رہا اور بار بار ان آنکھوں کے سمندر میں غوطہ لیتا رہا تھا۔ نہ جانے جسم میں کس قسم کے کیمیائی عمل ہو رہے تھے، کوئی ہارمون تھا جو بن رہا تھا اور دل میں جا کر اسما! اسما! اسما! اسما! کی کسک جگا رہا تھا۔ محبت کا جوار بھاٹا تھا جس میں ڈوب چکا تھا اور یہ خوف کہ کہیں اس لڑکی کی منگنی، نکاح یا بات پکی نہ ہو چکی ہو یا یہ خود کسی کی محبت کے چکر میں نہ ہو۔

ادھے گھنٹے کے اندر اندر نہ جانے میں نے کیا کیا سوچ لیا تھا اور دنیا سے جھگڑے کے کیا کیا فیصلے کرلئے تھے۔ بہت ساری باتیں ذہن میں آئی تھیں۔ میرے والدین کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، ان کی تو صرف خواہش تھی کہ میں شادی کرلوں۔ نہ جانے ان لوگوں کے خاندان میں کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ مجھ سے شادی پر راضی ہوجائیں گے؟ کیا وہ تیار ہوں گے کہ اسما میرے ساتھ امریکا چلی جائے؟ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، کیا وہ کسی غیر ڈاکٹر سے شادی کریں گے وغیرہ وغیرہ۔

میں دل ہی دل میں دعا کرتا رہا کہ حمید آئے اور وہ بھی حمید کے ساتھ ہو۔ چائے پینے کے دوران میرا دماغ کہیں اور تھا اور دل کہیں اور۔ ہاتھ بار بار کپکپا جاتے تھے۔ نہ خوف تھا، نہ پریشانی۔ بس ایک انتشار تھا جو سارے وجود کو اپنی جکڑ میں لے چکا تھا۔

اسما سے شادی کچھ بہت زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوئی تھی۔ حمید کے ذریعے ہی میں نے پتا کرا لیا تھا۔ وہ لوگ بہادر آباد میں رہتے تھے، کھاتے پیتے گھرانے کے پڑھے لکھے لوگ۔ اسما کے ابو بھی ڈاکٹر تھے اور کافی سمجھدار آدمی تھے۔ حمید نے ہی مجھے بتایا تھا کہ ابھی اس کی کوئی منگنی وغیرہ نہیں ہوئی ہے مگر ایک جگہ اس سے پہلے بات چل رہی تھی مگر طے نہیں ہو سکی، کیوں کہ اسما نے پاکستان سے باہر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ لڑکا پاکستان میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔

حمید کے ہی مشورے سے میں نے پہلے اسما سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، پھر سوچا تھا کہ اس کے بعد اس کے والدین سے بات کروں گا۔ میں آج بھی حمید کا شکر گزار ہوں کہ اس نے اس قسم کے مواقع بہم پہنچائے کہ میں اسما سے بے تکلف ہو گیا۔ کبھی کسی مریض کے لئے دوائیں خرید کر ، کبھی اپنا خون دے کر اور کبھی کسی مریض کے لیبارٹری ٹیسٹ کر اکر۔ میں سوچتا تھا کہ اگر میں کبھی بیمار پڑ جاؤں تو اسما جیسا ہی کوئی میرا ڈاکٹر ہونا چاہیے۔

وہ بڑی دردمند ڈاکٹر تھی، دردمند۔ ہر وقت مریض کے لئے پریشان۔ وہ ایک غیر معمولی ڈاکٹر تھی ورنہ آج کل ایسے ڈاکٹر کہاں ہوتے ہیں، مگر میرا یہ خیال غلط تھا۔ ہاؤس جاب کے دوران تقریباً سارے ڈاکٹر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کام کی دھن لئے ہوئے، علاج کرنے کے شوق سے بھرے ہوئے، اس امنگ کے ساتھ کہ بیماریوں کا خاتمہ کر دیں گے مگر بہت جلد یہ نظام انہیں خراب کر دیتا ہے۔

مجھے اس کے وارڈ میں مزہ آنے لگا تھا۔ ہر مشکل اور غریب مریض کے لئے کچھ کر کے وہ تو خوش ہوتی ہی تھی، مجھے سکون سا ہوتا تھا۔ میں حمید کے وارڈ کا ایک کارندہ بن گیا تھا، وہ سارے دن وہ سارے لمحے اسما کی محبت کو آہستہ آہستہ بھڑکاتے ہی رہے تھے۔

اس نے امریکا نہ جانے کی شرط رکھ دی تھی اور میں نے امریکا نہ جانے کی شرط مان لی اور ہماری شادی ہو گئی۔

اسما کے ساتھ زندگی خوب گزر رہی تھی۔ اس نے پہلے ایم سی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ پھر ایک ڈگری ہوتی ہے ایف سی پی ایس وہ بھی حاصل کرلی تھی۔ پھر وہ بچوں کی اچھی سی ڈاکٹر ہو گئی تھی۔ اسے اچھا ڈاکٹر تو ہونا ہی تھا، وہ تھی ہی اتنی اچھی۔ مریض اس پر جان دیتے تھے۔ وہ کہتی تھی کہ بچوں کا ڈاکٹر بننا بہت اچھا ہے۔ بچوں کی ڈاکٹری میں سب سے اچھی بات یہی ہے کہ بچے تھوڑے سے علاج سے اچھے ہو جاتے ہیں۔ بڑوں کی طرح الٹے سیدھے سوال نہیں کرتے۔ نہ ان میں چاپلوسی ہوتی ہے نہ کسی قسم کی مکاری۔ بیمار ہوتے ہیں تو اچھے بھی ہو جاتے ہیں اور جب اچھے ہوتے ہیں تو صرف خوشیاں ہی دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں ان کی۔

میں بے ساختہ مسکرا دیا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ اسما نے بتایا تھا کہ زار و قطار روتے ہوئے بچے جن کی شکلوں سے لگتا ہے کہ بے انتہا ظلم و جبر کا شکار ہو کر آئے ہیں۔ آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لئے ہوئے، ہمکتے بلکتے ہوئے بچے بس ایک چاکلیٹ، ایک کینڈی سے خوش ہو جاتے ہیں، سب کچھ بھول کر ۔ پھر نہ جانے کتنے بچے تو اس کے پاس آتے ہی اس لئے تھے کہ اس ڈاکٹر کے پاس چاکلیٹ ملتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں فسادات کے ساتھ غربت بھی تھی، جہاں بیماریاں اتنی ہی عام تھیں جتنی گندگی عام ہے، جتنے آوارہ کتے عام ہیں، جتنا مچھر عام ہیں، جتنے کیڑے مکوڑے عام ہیں، جتنا گٹر کا پانی عام ہے، جتنا سڑکوں پر جھلستا ہوا دھواں ہے، جتنا پینے کا گندا پانی عام ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود وہ بچوں کو دیکھتی تھی، انہیں پیار کرتی تھی، ان کا علاج کرتی تھی، اپنے پاس سے پیسے خرچ کر کے من ہی من میں خوش ہوتی۔ وہ خوش تھی بے انتہا خوش اور اس کی کوشی میں ہیں میں بھی خوش تھا بے انتہا خوش۔

کراچی کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے تھے۔ ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے سب کچھ ہی چھین لیا، پھر سیاستدانوں کی سیاستیں بھی خوب تھیں۔ آہستہ آہستہ پورا شہر جیسے یرغمال ہو گیا ہو۔ اسکول بند ہو جاتے تھے، ہڑتالیں عام تھیں، گھر، دکان، کاروبار کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ رات کا سناٹا بھی سناٹا نہیں تھا کیوں کہ گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں شہر کے ہر حصے میں آتی رہتی تھیں۔ پھر ضیاء الحق کے بعد حکومتیں مگر ان کا بھی وہی حال تھا۔

ایک دن بھی سکون نہیں تھا۔ شہر میں لوٹ مار، قتل غارت گری، اغوا، ہڑتالیں، بوریوں میں کٹی ہوئی لاشیں، تھانوں میں تشدد سے مرتے ہوئے نوجوان، پولیس مقابلوں میں جانوں کا ضیاع، سیاسی لیڈروں کی رعونت، مذہبی لیڈروں کی نفرت، شہر کیا تھا کیا ہو گیا تھا۔ کسی نے میرے بچپن کا کراچی اغوا کر لیا تھا، وہ کراچی جہاں کی شامیں اودھ کی شاموں سے اچھی تھیں، جہاں کی صبح دنیا کی ساری صبحوں سے اچھی تھیں۔ اس کراچی میں وہ سب کچھ کرایا جا رہا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیا ہو گیا تھا لوگوں کو ؟

میں نے آئی سی آئی چھوڑ کر گلیکسو میں نوکری کرلی، ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی کے آئی بی اے میں بھی پڑھاتا تھا۔ پڑھانے کا مجھے ہمیشہ سے شوق تھا اور اسی ٹھرک کو پورا کرنے کے لئے مہینے میں چھ سے آٹھ لیکچر کی ذمہ داری میں نے لے لی تھی۔

کراچی میں بوریوں میں ملنے والی لاشیں اور روز روز کے ہنگاموں کی خبر میرے گھر والوں کو امریکا میں بھی ملتی تھی اور وہ سب چاہتے تھے کہ میں اسما کو لے کر امریکا چلا آؤں مگر امریکا اب میرے پروگرام میں نہیں تھا۔ میری شہریت اور پاسپورٹ ضرور امریکن تھے مگر میری بیوی اور دو بچے کراچی کے تھے اور پاکستان سے باہر نکلنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ کہتی تھی کہ اگر ہر آدمی امریکا ہی چلا جائے گا تو یہاں کون رہے گا؟ میرے والد امریکا نہیں گئے، بڑے اچھے ڈاکٹر ہیں۔

پوری کمیونٹی میں عزت ہے ان کی، ہر ایک ان کے لئے جان دینے کو تیار ہوتا ہے۔ بے شمار لوگوں کی جانیں بچائی ہیں انہوں نے، خوش و خرم رہے ہیں، ہم سب کو پڑھایا ہے انہوں نے، پاکستان سے اس کو محبت شدید تھی بہت شدید۔ میں بھی پاکستانی تھا مگر اس قسم کے خیالات میرے کبھی بھی نہیں رہے تھے۔ پاکستان سے شاید اتنی محبت نہیں تھی مجھے، جتنی کراچی سے عقیدت تھی اور وہ بھی اتنی شدید نہیں کہ میں کراچی کو امریکا پر فوقیت دیتا۔

اسما صرف اچھی ڈاکٹر ہی نہیں تھی بلکہ بہت اچھی بیوی بھی تھی۔ ہم لوگ خراب ترین حالات کے باوجود بہت خوش تھے۔ زندگی میں آدمی کو اور چاہیے بھی کیا ہوتا ہے۔ تھوڑی سی خوشی اور کیا۔

اسما کے کام کا وہی حال تھا۔ اس کی کمائی اور میری بھی آمدنی کی اچھی خاصی رقم اسما کے مریضوں پر خرچ ہوتی تھی اور اس میں میرا رویہ بھی کافی فلسفیانہ تھا۔ میرے والدین کا بڑا سا گھر تھا جس میں ہم رہتے تھے۔ میری تنخواہ اور میرے انوسٹمنٹ سے میری آمدنی ہم لوگوں کی ضرورتوں سے بہت زیادہ تھی اور اگر اس آمدنی کا کچھ حصہ لوگوں کو زندگی میں روشنی بکھیر دیتا ہو تو اس سے خوشی کے سوا اور کیا ملتا ہے۔ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے ساتھ زندگی نہایت سکون سے گزر رہی تھی۔

ایک دفعہ یہ ضرور ہوا تھا کہ یونیورسٹی کے امتحان میں ایک لڑکے کو میں نے اس کی شدید نالائقی پر فیل کر دیا تھا تو میرے گھر پر کچھ دھمکیوں والے فون آئے تھے۔ ایک سیاسی جماعت اور طلبہ تنظیم کے لوگوں نے مجھے سمجھایا تھا کہ فیل کرنے کے چکروں میں نہ پڑوں، کچھ لوگوں کو پاس کرنا ہوتا ہے۔ یہی نظام ہے آج کل اور یہی مجھے ماننا ہو گا۔ میں نے بات نہیں مانی تو میرے بچوں کو اغوا کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ ان ہی دنوں میں اسما کی گاڑی کو ایک ٹرک مار کر بھاگ بھی گیا تھا۔ اس ایک واقعے نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ اسما کی فکر رہی تھی، رہتی تھی اور رہے گی۔ اتنی شدت سے چاہا تھا اسے میں نے۔

اس واقعے کے بعد میں نے سوچا اور اسما سے کہا بھی تھا کہ اب جس قسم کے حالات ہو رہے ہیں، اس میں تو بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ پاکستان چھوڑ ہی دیں۔ امریکا نہ سہی کہیں اور چلے چلتے ہیں۔ مجھے دنیا میں کہیں بھی نوکری مل جائے گی۔ مجھے تمہاری زندگی عزیز ہے۔ میں تمہیں زندہ دیکھنا چاہتا ہوں، خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔

وہ بڑے پیار سے ہنس دی تھی۔ میں زندہ رہوں گی، تمہارے ساتھ ہی رہوں گی، وقت بدل جائے گا سب کچھ صحیح ہو جائے گا۔ یہ سب وقتی باتیں ہیں، یہی دنیا ہے میری اور یہاں کے بچے ہی میرے مریض ہیں اور اس میں ہی میں خوش ہوں۔ ”

میں نے کوئی ضد نہیں کی تھی۔ کچھ اور احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں تھیں ہم لوگوں نے۔ پولیس کو بھی خبر کی تھی، چوکیدار بھی بڑھا لیے تھے۔ اسما کا ڈرائیور پرانا فوجی تھا۔ اسے بھی بہت کچھ سمجھایا تھا اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں شامل رہے تھے۔

حالات بہتر ہوئے تھے، اسما نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ کراچی کی رونقیں بھی واپس آئی تھیں پھر برنس روڈ پر رات کے چار چار بجے تک کھانا ملنے لگا تھا، بوٹ بیسن کی گہما گہمی لوٹ آئی تھی، شام ڈھلے ہی سڑکیں ویران نہیں ہوجاتی تھیں، ٹاور کے باکڑا ریسٹورنٹ ساری رات کھلے رہنے لگے تھے، کلفٹن اور ہاکس بے کے ساحل پر لوگ راتوں کو کیمپ فائر بھی کرنے لگے تھے، اکا دکا ہڑتالوں کے باوجود اسکول کالج کھلے رہنے لگے تھے۔ شہر سے جیسے آسیبی سایہ آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔

میں خوش تھا کہ اسما بھی خوش تھی اور زندگی اپنی ڈگر پر چل نکلی تھی۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ کراچی کے حالات یکایک صحیح ہونے لگ جائیں گے اور برسوں کا کیا ہوا خراب کام اچھی کی طرف بھی جا سکے گا۔ راتوں کو کراچی میں بے خوف و خطر گھوما بھی جا سکے گا۔ صبح کو سڑکوں پر لاشیں ملنی بند ہوجائیں گی۔ بچوں کا اغوا کم ہو جائے گا۔ شہر دوبارہ اچھائی کی طرف چل نکلے گا۔ ایک امید پیدا ہو گئی تھی، ایک آسرا سا ہو چلا تھا، ایک چراغ جیسے جل اٹھا تھا، ایک صبح جیسے مچل کر بے قراری کے ساتھ طلوع ہونے والی تھی۔ یہ سب کچھ عجیب سا لگا تھا خاص طور پر اس لئے کہ اچھائی کی امید ہی نہیں تھی۔ میں کراچی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ پھر اتنے میں اگر بے وجہ قرار آ جائے تو عجیب ہی لگتا ہے۔

اس دوپہر جب اسما اسپتال سے واپس آئی تو سخت پریشان تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ آج آٹھ نو سال کا ایک بچہ اس نے داخل کیا تھا۔ اکلوتا بیٹا تھا غریب ماں باپ کا ، نہ جانے کیا ہوا تھا اسے۔ بڑا سا سر، چھوٹے چھوٹے ہاتھ، چھوٹے پیر، پسلیاں نکلی ہوئی تھیں۔ نہ جانے کب سے کم خوراکی کا شکار تھا وہ۔ اس کی ایک ایک ہڈی گنی جا سکتی تھی۔ بخار میں پھنک رہا تھا وہ۔ نہ جانے بچے گا کہ نہیں۔

اسما نے بتایا تھا کہ نیو کراچی سے آئے تھے وہ لوگ۔ بچہ بیمار پڑا تھا تو علاقے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے، بے روزگار باپ کے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے بیٹے کے علاج پر خرچ کر دیا تھا۔ بچی کھچی رقم خرچ ہو گئی تھی مگر بیٹا صحیح نہیں ہوا تھا۔ پھر وہ لوگ اسے عباسی شہید اسپتال لے گئے تھے جہاں ساری دوائیں ایک زمانے میں مفت ملا کرتی تھیں مگر وہاں بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ سارے سرکاری اسپتالوں کا یہی حال تھا وہاں بھی فیسیں تھیں، پرچی کی فیس، داخلے کی فیس، آپریشن کی فیس۔

ہر کارکن کی بخشش، پھر دوائیں بھی خریدنی پڑتی تھیں۔ سرکاری اسپتال اب سرکاری نہیں رہے تھے۔ اس بچے کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ خاندان سے قرض لے کر اور گھر کی چیزیں اور جو بھی تھوڑے بہت زیورات تھے انہیں بیچ کر مہنگی مہنگی دوائیں خرید کر بھی اس کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ پتا نہیں وہ بچے گا بھی کہ نہیں۔

اسما کافی پریشان تھی۔ ”ہمارے وسیم جتنی ہی اس کی عمر ہوگی۔“ اس نے بڑی پریشانی سے مجھے بتایا تھا۔ شام کو وہ دوبارہ اسپتال گئی تھی اسے دیکھنے کے لئے۔ واپس آئی تو پریشانی اس کے چہرے پر اسی طرح سے موجیں مار رہی تھی۔ رات کو کئی دفعہ اس نے اسپتال فون بھی کیا تھا۔

ایسے مریضوں کے علاج میں، میں بھی شامل ہوجاتا تھا۔ ان کی دو اؤں کے لئے پیسوں کا انتظام کرتا تھا اور کبھی کبھی خون بھی دیتا تھا۔ مجھے اس طرح کے کام سے خوشی ہوتی تھی۔ میں نے زندگی اسی طرح سے گزارنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر مجھے کوئی افسوس یا ملال بھی نہیں تھا۔ رات بھر میرا دل بھی اس معصوم بچے اور اس کے ماں باپ کے لئے دھڑکتا رہا تھا۔

برسوں کی بے روزگاری، بدامنی اور حکومتوں کے وزیروں، مشیروں، اسمبلی کے ممبروں نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ غربت کراچی کے ایک ایک محلے میں ایک ایک گھر میں کسی نہ کسی طرح سے گھس گئی تھی۔ کہیں مالی غربت تھی تو کہیں ذہن فقیر تھا اور ان جیسے حالات میں اسما کے اسپتال میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ میں اچھے حالات کی تمنا ہی کر سکتا تھا، دعا ہی کر سکتا تھا اور کرتا ہی رہتا تھا۔ یہ ایک نیا رخ تھا اس شہر کا ۔

کئی سال کی بدامنی، ہڑتال، جہالت، نفرت کی سیاست، مذہبی منافرت کا عذاب، ایک مستقل غربت کی صورت میں آیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچے کام کاج میں لگ گئے تھے، عورتیں فقیر بن کر سڑکوں کا گناہ بن گئی تھیں اور ایک ایک آدمی اپنی سفید پوشی کے لئے نہ جانے کیا کیا کر رہا تھا۔ غربت، بے روزگاری، امن و امان کی خرابی اور آئے دن کی پہیہ جام نے شہر کا جو حشر کیا تھا اس کے بعد اب ایک وبا خودکشی کی چل نکلی تھی۔ روز کے اخبار بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی کرنے والوں کی خبر سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ مجھے خوف سا ہوتا تھا کہ یہ غربت اور کیا رنگ لائے گی اور کون سا عذاب اترے گا آسمانوں سے۔ غربت سے بڑا عذاب تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔

دوسرے دن اسما نے بتایا کہ بچے کا بخار اسی طرح سے ہے، چہرے کی نقاہت بڑھی جا رہی ہے۔ آج اس نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کا پانی نکال کر لیبارٹری میں بھیجا تھا۔ وہ پریشان تھی تاہم اسے یہ اطمینان بھی تھا کہ ہر طرح کی دو اؤں کا انتظام ہو گیا ہے، ہر کوئی مدد کر رہا ہے۔ ہر ڈاکٹر اس بچے کے لئے پریشان ہے۔ مجھے بھی تھوڑا اطمینان سا ہوا تھا۔

اس بچے کی طبیعت بگڑتی ہی گئی تھی، تین چار روز کے بعد ہر طرح کی دوا علاج کے باوجود وہ بے ہوش سا ہو گیا تھا۔ اسما تو ہمت نہیں ہاری تھی مگر میں دل ہار گیا تھا اور سوچتا تھا کہ غربت سے زیادہ بڑا جرم کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے۔ اس گناہ کی پاداش میں انسان کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کی تو ہر کہانی ایک مثال ہے۔ کاش! ہم لوگ کچھ کر سکتے، کاش۔

اس روز دوپہر کو وہ آئی تو اس کا چہرہ اس کے سفید کوٹ کی طرح دھلا ہوا تھا۔ ایسی ویرانی میں نے پہلے کبھی بھی اس کے چہرے پر نہیں دیکھی تھی۔ میں نے سوچا تھا شاید بچہ مر گیا ہے۔ تمام دوائیں بے کار ہو گئیں، تمام محنت اکارت ہو گئی اور اب وہ اپنے دل پر اس بوجھ کو لے کر بے چین ہوگی۔ بیمار بچے پہلے بھی آتے تھے، پہلے بھی مرتے تھے مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس بچے کی موت اسما کو اتنا نڈھال کردے گی۔

میرے سوالیہ چہرے پر موجود سوال میرے ہونٹوں پر آنے سے پہلے ہی وہ کہہ بیٹھی کہ نہیں وہ مرا نہیں ہے، میں مر گئی ہوں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ ”کیا ہوا، اسما کیسی باتیں کر رہی ہو؟“

”ہاں، اس کے باپ نے مجھ سے پوچھا تھا، ڈاکٹر صاحب میرا بچہ بچے گا کہ نہیں؟ میں کیا جواب دیتی، میں تو صرف امید کر سکتی ہوں کہ وہ صحیح ہو جائے۔ اس کے لئے دو اؤں کا انتظام کیا ہے ہم لوگوں نے۔ ہر قسم کی مہنگی ترین دوائیں دے رہے ہیں ہم لوگ۔ ہم دوا دے رہے ہیں آپ دعا کرو۔“ میں نے اسے سمجھایا تھا۔ وہ بڑے دکھ سے بولی۔

”مگر اس کا باپ بار بار آ کر آج صبح سے پوچھ رہا تھا کہ اب بچنے کی کیا امید ہے؟ میں بار بار سمجھا رہی تھی اور جھنجھلا بھی رہی تھی کہ اس سوال کا کیا جواب دوں۔ میں ڈاکٹر ہوں، خدا تو نہیں ہوں۔ علاج کر سکتی ہوں جان تو نہیں ڈال سکتی۔ مگر ان کے سوالوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا تھا تو میں خود ہی پوچھ بیٹھی تھی کہ دیکھو ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں، پوری کوشش کر رہے ہیں، مہنگی ترین دوائیں دے رہے ہیں، آغا خان اسپتال میں مہنگے ترین ٹیسٹ کر رہے ہیں، پتا نہیں کن کن کتابوں میں کیا کیا دیکھ رہے ہیں، کئی ڈاکٹروں سے بات کی ہے، کمپیوٹر کے انٹرنیٹ پر لوگوں سے پوچھ رہے ہیں۔ ہم تو صرف کوشش ہی کر سکتے ہیں ناں، زندگی تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے، میں کیسے بتا سکتی ہوں کہ یہ بچے گا کہ نہیں؟ مگر تم بار بار یہ سوال کیوں کر ہے ہو؟ کیوں پوچھ رہے ہو؟ انتظار کرنا ہو گا، انتظار۔“

”معلوم ہے اس نے کیا کہا تھا؟“ اسما کے دھواں دھواں چہرے پر روشنی نہیں تھی، آنکھوں کے کٹوروں میں چھل چھل پانی امڈ رہا تھا۔ اسے اس حالت میں میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔

”کیا کہا تھا اس نے؟“ میں نے خوف زدہ ہو کر سراسیمگی سے پوچھا تھا۔

اس نے کہا تھا، ”ڈاکٹرصاحب! اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ نے بڑی مہربانی کی ہے، ساری دو اؤں کا انتظام کیا ہے، کچھ بھی نہیں لیا ہے ہم لوگوں سے۔ لیکن ہمارا سب کچھ بک گیا ہے اس کے علاج میں۔ اب تو نیو کراچی سے آنے کے لئے کرایہ بھی نہیں ہوتا ہے ہمارے پاس۔ کتنے دن ہو گئے ہیں نہ کام کیا ہے اور نہ کچھ کھا سکتے ہیں ہم میاں بیوی۔ محلے والے کب تک کھلائیں گے۔ وہ کون سے بڑے امیر ہیں۔ بڑے غریب علاقے میں رہتے ہیں ہم لوگ۔

ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ ہمارا بچہ بچے گا تو کچھ اور چیز ہے ہمارے پاس، ہماری اماں کا دیا ہوا اسے بیچ دیتے ہیں تاکہ اس کی جان بچ جائے، لیکن اگر یہ مر جائے گا تو اسے بے ہوشی کی حالت میں لے جانے دیجئے۔ بے ہوش ہو مگر زندہ ہو گا تو ہم اس کو بس میں لے جا سکتے ہیں، کوئی کچھ نہیں بولے گا، لیکن اگر یہ مر گیا تو پھر ایمبولینس کرنا ہو گا۔ مرے ہوئے بچے کے لئے بس میں جگہ نہیں ہوتی ہے، ایمبولینس کے لئے ستر، اسی روپیہ نہیں ہے ہمارے پاس۔ کہاں سے لائیں گے یہ رقم۔ صرف اتنی سی بات ہے۔ دونوں میاں بیوی نے ہاتھ جوڑ لئے تھے میرے سامنے۔“

یہ کہہ کر اسما رو دی تھی۔ ڈھیر ہو گئی تھی صوفے پر ۔ ویران آنکھوں سے دور نہ جانے کیا دیکھ رہی تھی، کیا تک رہی تھی آسمان پر ۔ پھر دھیرے سے بولی، ”میں کیا کر سکتی ہوں، روز روز ایسے ہی مریض آتے ہیں اب تو اور روز مرنا پڑتا ہے۔ میں تھک گئی ہوں، اب چلے چلو یہاں سے دور، پاکستان سے باہر۔ یہ عذاب نہیں سہا جاتا ہے مجھ سے۔ میں بار بار مر مر کر بچتی ہوں۔ یہ بچے مجھے خواب میں آ کر ڈراتے ہیں، یہ روتی ہوئی مائیں، یہ ہاتھ جوڑتے ہوئے باپ، یہ آنسو بہاتے ہوئے بچوں کے نانا نانی، دادا دادی، جن کے پاس مرے ہوئے بچے کو لے جانے کے لئے ایمبولینس تک کے پیسے نہیں ہیں۔“

اس کا یہ کہنا میرے لئے فیصلے کی گھڑی تھی۔ اب کچھ کرنا ہو گا۔ اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے مجھے کراچی سے اٹھا کر امریکا لے جانے والے جہاز پر ایمبولینس سائرن لگا ہوا ہے اور وہ کراچی کی سڑکوں پر سائرن بجاتا، لاشیں ڈھونڈتا دوڑ رہا ہے۔

……………………O……………………

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).