مثبت رپورٹنگ


علامہ اقبال نے قریب ایک صدی پہلے مستقبل بینی کرتے ہوئے ہمارے موجودہ وزیر اعظم اور عالم اسلام کے عظیم رہنما کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی اور فرمایا تھا ’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘

قارئین کی ایک غالب اکثریت تو میرے اس دعوے کے ساتھ متفق ہو گی لیکن کچھ قلیل، اور کوتاہ بین قسم کے قارئین کے ذہن میں ناچیز کے اس دعوے کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات جنم لے رہے ہوں گے۔ ان شکوک و شبہات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ لکھاریوں اور دانشوروں کو اس شعر کے بارے میں یہی فکری مغالطہ رہا ہے کہ یہ شعر قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ ان کے اس فکری مغالطہ کے رد اور میرے دعوے کے حق میں مضبوط ترین گواہی لاہور سے تعلق رکھنے والے سابقہ جماعتی اور تادم تحریر تحریک انصاف کے نابغہ روزگار اور جہاں دیدہ رہنما، جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے یہی شعر ٹویٹ کیا تھا اور نیچے ہمارے خان صاحب کی تصویر تھی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ شعر حضرت علامہ نے عالم اسلام کے عظیم سپوت اور موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے لیے لکھا تھا۔

کوئی سوچ سکتا ہے کہ اقبال جیسی دور اندیش ہستی نے جس دیدہ ور کی پیدائش کے بارے میں سو سال پہلے پیشین گوئی کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ ہزاروں سال کے گریہ کے بعد یہ دیدہ ور عالم اسلام کو نصیب ہو گا، اسے ہمارے عاقبت نا اندیش سیاست دان اقتدار کے ایوانوں سے نکالنے کے درپے ہو جائیں گے۔ حضرت علامہ نے اس ساری صورتحال کو بھی بہت پہلے بھانپ لیا تھا کہ جب یہ دیدہ ور پیدا ہو گا اور عالم اسلام کے عروج کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہوئے عالم اسلام کو چہار دانگ عالم میں پھیلا نے ہی والا ہو گا، اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ اس کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے ہی والی ہوگی کہ عین اسی وقت قوم خلاف ہو جائے گی، دشنام طرازی پہ اتر آئے گی، مہنگائی، بدانتظامی، بدعنوانی اور بد کلامی کے سنگ ہائے دشنام اور تیر الزام کی برسات ہوگی اور حزب مخالف کے سیاسی رہنما آپ جیسے عظیم سپوت پر عرصہ حیات تنگ کر دیں گے، تحریک عدم اعتماد لے آئیں گے۔ اس صورتحال کی عکاسی بھی اقبال پہلے کر کے جا چکے ہیں، آپ نے فرمایا تھا

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اگر آپ کو میری باتیں قرین قیاس محسوس نہیں ہو رہیں تو ہمارے وزیر داخلہ کی پریس کانفرنسز سن لیں۔ یقیناً کچھ تنقیدی مزاج کے قارئین میری دلیل کے رد میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ وزیر داخلہ ماضی میں تو اس عظیم رہنما اور ان کی پارٹی کو تانگہ پارٹی کہا کرتے تھے۔ جناب یہی تو عظمت کی دلیل ہے کہ جو شخص خان صاحب کے بارے میں ایک معمولی کپتان اور تانگہ پارٹی اور اور طنز و تضحیک روا رکھتا تھا آج تادم تحریر وہ خان صاحب کی کابینہ میں وزیر ہے، معتمد خاص ہے اور آپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔ حتیٰ کہ زمین و آسمان کے قلابے والی مثال بھی یہاں چھوٹی پڑ رہی ہے۔

اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو امریکہ سے انٹلیکچوئل کیٹگری میں درآمد کیے گئے جناب وزیراعظم کے مشیر کے پچھلے چند دنوں کے ٹویٹس دیکھ لیں۔ نمونے کے طور پر جناب کا ’چیچنیا کے صدر کا ہمارے رہنما کی مدح سرائی والا‘ ٹویٹ تو آپ کو یاد ہو گا۔ جس میں چیچن صدر رمضان قادروف نے خان صاحب کے روپ میں اپنے نجات دہندہ کو پہچانتے ہوئے مستقبل کی آنکھ سے دیکھ لیا ہے کہ یہی اقبال کا شاہین چہار دانگ عالم میں اسلام کا پھریرا لہرائے گا اور چیچنیا کو بھی روسی سامراج سے آزادی دلوائے گا۔

اب دیکھ لیں چیچن لوگوں کو اپنا مسیحا اور نجات دہندہ خان اعظم میں نظر آ گیا لیکن پاکستانی قوم کا کیا کریں کہ جس سر زمین پر آپ کا ظہور ہوا، وہی لوگ ہی آپ کی عظمت کے معترف ہو کے نہیں دے رہے۔ چراغ تلے اندھیرا نہیں تو اور کیا کہیں گے۔ کچھ دنوں سے دل مضطرب ہے، ابلاغ میں ہر طرف خان صاحب کے زوال کی نوید ہے۔ حامد میر صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ آپ اپنے 9 مارچ کے کالم ’جبری پابندی کے نو ماہ کی کہانی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’خان صاحب مانیں یا نہ مانیں وہ فارغ ہو چکے ہیں۔ ان کی جگہ جو بھی آنے والا ہے، ان سے گزارش ہے کہ خدارا عمران خان نہ بنیے گا۔ میڈیا سے مت لڑیے گا، آئین کی خلاف ورزی مت کریے گا، بے گناہ شہریوں کو لاپتہ مت کیجیے گا‘

میر صاحب سے بصد احترام، جناب آپ کو احساس بھی ہے کہ یہ وہ دیدہ ور ہے جس کے لئے نرگس نے ہزاروں سال گریہ کیا تو ظہور پذیر ہوا اور آپ نے اتنی آسانی سے فرما دیا فارغ ہو چکے ہیں۔

ان نا انصافیوں کے سبب دل چاہتا ہے کہ ایک یادداشت تیار کی جائے، جس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ جناب عمران خان کو عظیم عالمی رہنما قرار دیا جائے اور ’نوبل انعام‘ کی طرز پر ’خان انعام‘ بھی شروع کیا جائے اور مزید مادام تساؤ میوزیم میں آپ کا مومی مجسمہ بھی رکھوایا جائے۔ اب جب قوم اور عالم اسلام دونوں نا قدری پر تلے ہیں تو باقی دنیا فیض سے کیوں محروم رہے۔ آپ حیران ہوں گے اس کی پیش بینی بھی اقبال علیہ الرحمہ ایڈوانس میں کر گئے ہیں۔ کیوں کہ آپ کو علم تھا کہ قوم اور عالم اسلام دونوں اس گوہر مراد کی ناقدری کریں گے اس لیے علامہ صاحب نے اس بار خان صاحب کو اپنا مخاطب بنایا اور فرماتے ہیں کہ۔

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments