وزیر اعظم :میلسی سے دیر اور دہن سے دہانہ تک


وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے ایک تلاطم بپا کر رکھا ہے۔
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؛

نتائج سے قطع نظر اس تلاطم کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ دنوں میلسی اور گورنر ہاؤس کراچی میں خان صاحب کی دو تاریخ ساز یا تاریخ شکن تقاریر، کسی حد تک پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ یہ بڑا قومی زیاں ہے۔

ویسے تو کھیل کود کے زمانے سے ہی وزیراعظم عمران خان کی ”خوئے دل نوازی“ اور ”خوش گفتاری“ کے بہت چرچے رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ”شیریں کلامی“ میں مسلسل شہد گھلتا چلا گیا۔ سیاست نے ان کے حرف و بیاں کی نوک پلک مزید سنواری، لہجے کی گھن گرج میں کچھ اور اضافہ کیا، پیہم ریاض نے حلق میں کچھ نیا سوز بھرا، ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی خطیبانہ جوہر کھلتے ہی چلے گئے۔ ان کی خطابت لوگوں کے دلوں میں ہلچل مچاتی اور بجھتی آنکھوں میں بھی ایک نئی صبح خوش جمال کے خواب بوتی گئی۔

جب بھی کسی مجمع عام میں بولتے، نوجوانوں کا لہو جوش مارنے لگتا، اچھے خاصے اہل فکر و دانش چوکڑی بھول جاتے اور حسینان خوش جمال دل تھام کے رہ جاتیں۔ 2013 کے انتخابات میں بوجوہ خان صاحب کی خطابت کا جادو نہ چلا لیکن کس کو خبر تھی کہ یہ انتخابی شکست ان کے لئے کامرانیوں کا ایک نیا راستہ کھول دے گی اور وہ ملکی تاریخ کے ممتاز ترین مقرر بن کر ابھریں گے۔ یہ باب فضیلت اگست 2014 کے اس دھرنے کی صورت میں کھلا جو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر چار ماہ سے زائد عرصے تک رنگ بکھیرتا رہا۔

اس دھرنے کے دوران خان صاحب ایک دن میں کئی کئی تقریریں فرماتے اور نئی بلندیوں کی طرف پرواز کرتے گئے۔ اس مشق اور ریاض نے نہ صرف ان کی لغت نئے الفاظ سے بھر دی بلکہ وہ ایک ماہر اداکار کی طرف نقالی کا فن بھی سیکھ گئے۔ عین پہلو میں حضرت علامہ طاہر القادری کا میلہ بھی سجا تھا۔ حضرت کی خطابت کا ایک زمانہ مداح ہے۔ وہ بولتے تو مارگلہ کی پہاڑیوں میں بھی ارتعاش آ جاتا، حضرت کی یہ خطیبانہ گھن گرج، خان صاحب کے جوہر خطابت کے لئے تازیانہ ثابت ہوئی۔ ان کا حسن بیاں دو چند ہوتا چلا گیا۔ 2018 میں وہ وزیراعظم بن گئے۔ ان کے کچھ بد خواہوں نے سوچا کہ منصب کے سنجیدہ تقاضوں کے سبب ان کی خطابت کا ولولہ اور طنطنہ سنولا جائے گا کیوں کہ اب انہیں بولنے سے پہلے تھوڑا بہت تولنا بھی ہو گا۔ لیکن داد دینی چاہیے خان صاحب کی استقامت کو کہ انہوں نے یہ سب اندیشے غلط ثابت کر دکھائے۔

جس طرح 2013 ء کی انتخابی شکست نے ان کے فن تقریر کو نئی جلا بخشی تھی، عین اسی طرح اپوزیشن ایک ایسا قدم اٹھا بیٹھی جس نے خان صاحب کی خطابت کو ایک بار پھر کہکشاؤں پر کمند ڈالنے کا ملکہ عطا کر دیا۔ اس کا پہلا بڑا مظاہرہ کچھ دن قبل میلسی میں سامنے آیا۔ اس دن خان صاحب کی آنکھوں سے چنگاریاں اٹھ رہی تھیں اور ان کی زبان شعلے اگل رہی تھی۔ جلسہ گاہ پر جو گزری سو گزری گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگوں کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بڑے بوڑھوں نے بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر گواہی دی کہ انہوں نے ایسی تقریر دیکھی نہ سنی۔ کروڑوں لوگوں نے کہا کہ یہ خطاب حرف آخر ہے۔ کوئی اور تو کیا، خود خان صاحب بھی میلسی کی معراج کمال چھو لینے کے بعد بال برابر بھی آگے نہ بڑھ سکیں گے۔ لیکن انہیں اندازہ نہ تھا کہ ہمارے خاکستر میں چھپی اس چنگاری کے لئے کوئی حد بھی آخری حد نہیں۔

اگلے ہی دن خان صاحب کراچی کے گورنر ہاؤس میں بولے اور کچھ ایسا بولے کہ میلسی گرد پا ہو گیا۔ پورا پاکستان انگشت بدنداں رہ گیا۔ چونچال میڈیا نے بھی انگلیاں دانتوں تلے داب لیں۔ خود کو بہت زیادہ آزاد منش اور روشن خیال سمجھنے والے بھی یقین نہ کر پائے کہ کیا ایسی گفتگو ہو سکتی ہے اور حریفان سیاست کو یوں بے لباس کیا جا سکتا ہے؟ لیکن خان صاحب نے یہ سب کچھ کیا اور ڈنکے کی چوٹ کیا۔

ہمارے ہاں کئی وزرائے اعظم، اچھے مقرر بھی تھے۔ بہت دور نہ جائیں تو ذوالفقار علی بھٹو بلا کے مقرر تھے۔ لاکھوں کا مجمع الٹ پلٹ دیتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی کچھ کم نہ تھیں۔ نواز شریف میں مجمع بازوں والی گھن گرج تو نہیں لیکن عوامی جلسوں میں وہ بھی ہجوم کو گرما دینے کا فن جانتے ہیں۔ حالات کی بے مہری کے باعث الطاف بھائی کا شعلہ گفتار سنولا چکا ہے لیکن بھلے وقتوں میں وہ بھی بے مثال تھے۔ مریم نواز عملی سیاست میں نووارد سہی لیکن اس وقت وہ پاکستان کی سب سے بڑی ”ہجوم کش“ (Crowd Puller) لیڈر ہیں۔ بولتی ہیں تو لاکھوں کا مجمع مٹھی میں لے لیتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی میلسی اور کراچی کے نمونہ ہائے خطابت کو چھو بھی نہیں سکتا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سے خان صاحب شدید غصے میں ہیں۔ یہ غصہ اب جھنجھلاہٹ میں بدلتا جا رہا ہے۔ ان کی رگوں میں دوڑتا لہو، دہکتے لاوے میں ڈھل چکا ہے اور ان کا دہن، دہانہ بن کر یہ لاوہ اگل رہا ہے۔ میں نے جن وزرائے اعظم کا ذکر کیا ہے وہ اچھے مقرر ہونے کے باوجود صرف اپنے دہن سے بولتے تھے۔ بعض الفاظ انسان کے دہن سے نکل ہی نہیں سکتے سو یہی ان کی مجبوری یا معذوری تھی۔ خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ مسلسل ریاضت سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے ”دہن“ کو ایسا “دہانہ” بنا لیا ہے جس میں کوئی لفظ رکتا یا اٹکتا نہیں، بڑی روانی اور فراوانی سے ادا ہوتا رہتا ہے۔

میں نے صرف پاکستان کی تاریخ کا حوالہ دے کر شاید خان صاحب سے نا انصافی کی ہے۔ مجھے تو برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں کسی سربراہ حکومت و ریاست کا ایسا نمونہ خطابت نہیں ملتا جو میلسی اور کراچی کے پاسنگ بھی ہو۔ دنیا میں سرد اور گرم جنگیں ہوتی رہیں۔ ایٹم بم گرتے رہے، غیض و غضب عروج پر رہا۔ لیکن ہمیں اپنی معلوم تاریخ میں کوئی میلسی، کوئی کراچی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی جنگ دو سامراجوں سے تھی۔ آزادی کی جدوجہد میں تو زبانیں تیز دھار تلواریں بن جاتی ہیں۔ لہجے بیڈھب ہو جاتے ہیں، اعصاب کا تناؤ بڑھ جاتا ہے، لیکن قائد کے منہ سے کبھی کوئی ناتراشیدہ لفظ نہیں نکلا۔ ان کے خطوط، تقاریر، خطبات، پریس ٹاکس کے بیسیوں مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ دستاویزات سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہیں۔

کچھ لوگوں نے سوچا تھا کہ میلسی اور کراچی کے بعد ، کوئی خطیب ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ چاہے اس کا دہن بہت بڑے ”دہانے“ کی شکل ہی کیوں نہ اختیار کر چکا ہو۔ جمعہ کے مبارک دن انھیں ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑی۔ خان صاحب، لوئر دیر کے جلسہ عام میں بولے اور کچھ ایسا بولے کہ پورے پاکستان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اس جلسے میں انہوں نے ایک عظیم فلسفیانہ اصول بھی وضع کیا۔ فرمایا ”نیوٹرل تو صرف جانور ہوتے ہیں۔“ معنی اس کے یہ ہیں کہ اگر کوئی انسان ہے تو اسے اچھے برے کی تمیز کرنا ہوگی۔ نہ صرف یہ بلکہ ”اچھائی“ کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ”جانور“ ہے۔

چونکہ خان صاحب صرف خود کو ”اچھائی“ کا ایسا نمونہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پوشاک سے فرشتوں کے پروں کی خوشبو آتی ہے۔ اس لیے ان کی تقریر کی تفسیر یہ ہے کہ جو ان کے ساتھ نہیں، وہ ”جانور“ ہے۔ کم از کم مجھے حد خیال تک، تاریخ میں کوئی رہنما خان صاحب کی ہمسری کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ لے دے کر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف دھیان جاتا ہے، ان میں یہ جوہر دکھائی دیتا تھا کہ وہ خان صاحب کے مقام بلند کے لئے خطرہ بنیں، لیکن میلسی، کراچی اور لوئر دیر کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ بھی گرد پا ہو چکے۔

یہ ساری باتیں ایک طرف، میں ایک عجیب الجھن میں پڑا ہوں۔ وزارت اطلاعات کا ایک شعبہ مطبوعات بھی ہے۔ یہ شعبہ ہر وزیر اعظم اور صدر کی تقاریر کو بڑی خوبصورت کتابوں کی شکل میں شائع کرتا ہے۔ صدر رفیق تارڑ مرحوم کی تقاریر کے دو مجموعوں کی اشاعت میں، میں نے بھی اس شعبے کی معاونت کی تھی۔ میں سوچ رہا ہوں اعلیٰ ترین آفسٹ پیپر، مضبوط جلد، حسین گرد پوش اور ہر صفحے کو دھنک رنگ حاشیوں سے سجانے کے باوجود، خان صاحب کی تقاریر کس طرح ان صفحات کی زینت بنائی جائیں گی؟ سو میری معلومات کے مطابق مذکورہ شعبہ مطبوعات پونے چار برس سے سر پٹخ رہا ہے۔ کمیٹیاں بن رہی ہیں، ابلاغیات کے بڑے بڑے ماہرین جتن کر رہے ہیں، لیکن خان صاحب کے کسی خطبہ عالیہ کو آغوش قرطاس میں سمیٹا نہیں جا سکا۔ سو کوئی مجموعہ تقاریر شائع نہیں ہوا۔ اب ان ”بابوؤں“ کو کون سمجھائے، ”دہن“ سے نکلے الفاظ تو کتابوں میں سما سکتے ہیں۔ ”دہانوں“ سے پھوٹتا آتشیں لاوہ کیسے سمائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments