حوریم سلطان: یوکرین کی روکسیلانا جو سلطنت عثمانیہ کی حوریم سلطان بنیں

اسد علی - بی بی سی اردو، لندن


یہ 16ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان احمد سلیمان کے شاہی حرم کا منظر ہے جہاں ایک کنیز کی آمد نے ان کے دور اور سلطنتِ عثمانیہ پر گہرے نقوش چھوڑ دیے۔

یہ دوررس اثرات والی پیشرفت ان کے حرم اور زندگی میں روسکیلانا یعنی خرم سلطان جنھیں آج حوریم سلطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی آمد کے باعث تھی۔

سلطان احمد سلیمان اور حوریم سلطان کے نام سے منسوب ایک مسجد گذشتہ روز یوکرین کے شہر ماریپول میں جب ‘روسی شیلنگ کا نشانہ’ بنی تو اکثر افراد یہ سوال پوچھتے نظر آئے کہ روکسیلانا کون ہیں اور ان یوکرین سے کیا تعلق ہے۔

سلطنت عثمانیہ میں روایت تھی کے اس کے مختلف حصوں سے اغوا ہو کر اور غلام بن کر کچھ لڑکیوں کو شاہی حرم لایا جاتا تھا۔ ان میں سے اکثر کا شمار اپنے دور کی طاقتور ترین عالمی شخیصات میں ہوا۔

سلطان سلیمان کے حرم میں اس سے پہلے بھی کنیزیں تھیں اور ان کے پہلے سے بچے بھی تھے لیکن ان کے اور حوریم سلطان کے تعلق کی اس سے پہلے مثال نہیں تھی اور ایک مؤرخ کے نزدیک سلطنت عثمانیہ کے اس دور کو ‘سلیمان اور روکسیلانا کا دور’ بھی کہا جا سکتا ہے۔

حوریم سلطان کی سلطان سلیمان کی زندگی میں آمد کے بعد، اُس سلطنت کی تاریخ میں، جس میں ملکہ کا کوئی باقاعدہ عہدہ نہیں تھا، اس دور کا آغاز ہوتا ہے جسے مؤرخ ‘عورتوں کی سلطنت’ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

سنہ 1520 کے ستمبر میں جب سلطان سلیمان کو سلطنت عثمانیہ کے 10 ویں حکمران کی حیثیت سے تخت ملا تو اس کی حدود میں مشرقی بحیرۂ روم، بحیرۂ اسود اور اس کے ساحلی علاقے، آج کے مشرق وسطیٰ میں شامل زیادہ تر علاقے اور جنوب مشرقی یورپ شامل تھا۔

ان کے دور کے ابتدائی برسوں میں ہی بلغراد اور بحیرۂ روم میں رہوڈز کے اہم جزیرے کی فتوحات سے شروع ہو کر سلطنت کی حدود مغرب میں یورپ اور مشرق میں ایشیا میں مزید پھیل گئیں۔

تاہم مؤرخین کے مطابق اس وسیع و عریض سلطنت پر تقریباً 50 سال حکمرانی کرنے والے سلطان سلیمان کی زندگی کے سب سے اہم لمحات میں سے ایک روکسیلانا یعنی حوریم سلطان کا ان کی زندگی میں آنا تھا۔

مؤرخ لیسلی پیئرس سلطنت عثمانیہ میں شاہی حرم اور عورتوں کے کردار کے بارے میں اپنی کتاب ‘امپیریئل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی ان دی اوٹومن ایمپائر’ میں لکھتی ہیں کہ ‘عثمان(پہلا سلطان) اور ان کے بیٹے اورہان کی نسلوں کے بعد بظاہر سلاطین کے سب بچے کنیز ماؤں سے پیدا ہوئے تھے۔’

لیکن ‘سنہ 1520 میں حوریم سلطان کے دور کے آغاز سے لے کر 17ویں صدی کے وسط میں قُسم سلطان کی موت تک سلطنت عثمانیہ کئی اعتبار سے ان خواتین کے زیر اثر تھی جن کی طاقت کی بنیاد اس بات پر تھی کہ وہ اپنے دور میں سلطان کی پسندیدہ کنیزیں تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حرم سیاست کا مرکز بن گیا تھا۔ ‘حرم کا مرکزی رجحان سیکس نہیں بلکہ خاندانی سیاست تھا۔’

کنیزوں کے اثر و رسوخ کے اس دور کے چار اہم کردار ہیں: خرم یا حوریم سلطان، ان کی بہو نور بانو سلطان اور پھر ان کی بہو صفیہ سلطان اور آخر میں صفیہ سلطان کے پوتے سلطان احمد اول کی پسندیدہ کنیز قُسم سلطان۔

عثمانوی تاریخ میں ‘عورتوں کی سلطنت’ کا یہ زمانہ یورپ میں بھی طاقتور ملکاؤں کا زمانہ تھا جن میں انگلینڈ کی الزبتھ اول اور فرانس کی کیتھرین دا میدیچی شامل ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ کے مختلف علاقوں سے اغوا ہو کر اور ‘بازار میں بِک کر’ عثمانوی حرم میں پہنچنے والی ان کنیزوں کی دنیا کے دوسرے شاہی خاندانوں سے برابری کی سطح پر اور پورے شاہی ادب آداب کے ساتھ خط و کتابت بھی ہوئی۔ ‘انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول نے صفیہ سلطان (ایک اور کینز) کو سنہ 1593 میں تحفے میں اپنا پورٹریٹ بھی بھیجا تھا۔’

مؤرخ لیسلی پیئرس کی حوریم سلطان کی زندگی پر سنہ 2020 میں شائع ہونے والی کتاب ‘ایمپرس آف دی ایسٹ’ (مشرق کی ملکہ) کا موضوع بھی یہی ہے کہ ایک غلام لڑکی کیسے سلطنت عثمانیہ کی ملکہ بن جاتی ہے؟

انھوں نے لکھا کہ ‘عثمانیوں میں ملکہ کا باقاعدہ عہدہ نہ ہونے کے باوجود روکسیلانا (حوریم سلطان) نے یہ کردار ادا کیا اور انھوں نے 16ویں صدی میں یورپ کی نامور ملکاؤں کی بھرپور انداز میں برابری کی۔’

حوریم سلطان یوکرین سے استنبول میں شاہی حرم تک کیسے پہنچیں؟

پیئرس اپنی کتاب ‘ایمپرس آف دی ایسٹ’ میں لکھتی ہیں کہ 15 صدی کے اختتام کے بعد سے حوریم سلطان کا آبائی علاقہ سمجھا جانے والا رتھینیا ان علاقوں میں شامل تھا جو انسانوں کی تجارت سے بری طرح متاثر تھے اور اس کے پیچھے زیادہ تر کریمیا کے تاتاریوں کا ہاتھ تھا۔

تاہم وہ اس کاروبار سے منافع کمانے والے پہلے لوگ نہیں تھے کیونکہ بحیرہ اسود کا یہ علاقہ زمانہ قدیم سے غلاموں کی تجارت کا مرکز رہا ہے اور ‘سلطنت روم اور پھر بازنطینی سلطنت اور بغداد کی مشہور عباسی خلافت میں بھی اس تجارت کے خریدار رہے ہیں۔’

انھوں نے لکھا کہ اس زمانے میں انسانوں کی تجارت اور کسی کو جنگ میں قیدی بنانے میں بہت باریک فرق رہ گیا تھا۔ تاتاری اپنے آپ کو مڈل مین نہیں بلکہ جنگجو سمجھتے تھے اور کافا شہر میں غلاموں کی منڈی میں کاروبار کرنے والوں میں ‘یہودی، یونانی، آرمینیائی اور کچھ اطالوی شامل تھے۔۔۔دوسرے لفظوں میں غیر مسلم۔’

پیئرس لکھتی ہیں کہ یورپ میں ان تاتاریوں کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے لیکن تنقید کرنے والوں کو ‘لوگوں کے غلام بننے سے کم اور اس بات سے زیادہ مسئلہ قیدیوں کے مسلمان بنائے جانے کے امکان سے تھا۔’ ‘غلامی ان(تنقید کرنے والے یورپیوں) کے لیے نئی بات نھیں تھی، انھوں نے خود کبھی بحیرۂ اسود کی انسانوں کی منڈیوں سے ۔۔۔۔خریداری کرنے میں ہچکچاٹ محسوس نہیں کی تھی۔’

انھوں نے لکھا کہ کریمیا کے تاتاری لوگوں کو تجارت کے لیے قیدی بنانے کے بعد سلطنت عثمانیہ کی حدود میں کافا نامی شہر(موجودہ نام فیوڈوشیا) لاتے تھے جہاں سے سمندری سفر کے ذریعے انھیں استنبول لایا جاتا تھا۔

وہ لکھتی ہیں کہ روکسیلانا کو بھی رتھینیا سے اسی راستے سے استنبول لایا گیا ہو گا۔ کریمیا کا یہ پڑوسی علاقہ براہ راست سلطنت عثمانیہ کے زیر انتظام تھا۔ اگر ذرائع قُسم سلطان کے بیٹے سلطان ابراہیم کی پسندیدہ کنیز اور سلطان محمد چہارم کی والدہ ظورخان سلطان کے رتھینیا سے تعلق کے بارے میں درست ہیں تو یہ مشکل سفر انھوں نے بھی کیا ہو گا۔

پیئرس کے مطابق اس علاقے میں تاتاریوں کا پہلا بڑا حملہ سنہ 1468 میں ہوا ہو گا جب تقریباً 18000 مرد، عورتیں اور بچے قیدی بنائے گئے۔ اس کے بعد تقریباً ہر سال اس طرح کے حملے ہوتے رہے۔

پیئرس کے خیال میں روکسیلانا سنہ 1516 میں ہونے والے ایک حملے میں قیدی بنی ہوں گی۔ اس برس مختلف اندازوں کے مطابق پانچ سے 40 ہزار لوگ غلام بنائے گئے تھے۔ انھوں نے پولینڈ کے ایک مؤرخ کا حوالہ دیا جن کے مطابق روکسیلانا کے علاقے میں 1509 میں ایک حملہ ہوا تھا وہ شاید اس میں قیدی بنی ہوں۔

سنہ 1578 میں کریمیا کے دربار میں پولینڈ کے سفیر نے ان حملوں کی تفصیل بتائی کہ یہ موسم سرما میں ہوتے ہیں جب دریا اور جھیلیں جم چکی ہوتی ہیں اور حرکت تیزی سے ہو سکتی ہے اور ‘قیدیوں کو مناسب خوراک بھی نھیں ملتی جنھیں بیڑیوں میں پیدل چلایا جاتا ہے۔’

رتھینیا سے استنبول تک کا سفر روکسیلانا جیسی کم عمر لڑکی کے لیے معمولی بات نھیں تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن 1509 میں ہی سلطان سلیمان کی شہزادے کی حیثیت سے پہلی تعیناتی 15 سال کی عمر میں کافا میں ہی تھی جہاں وہ گورنر بنا کر بھیجے گئے تھے۔

حوریم سلطان کہاں سے آئی تھیں

پیئرس نے ’ایمپرس آف دی ایسٹ‘ میں لکھا ہے کہ ہمیں روکسیلانا کے اصل نام، جائے پیدائش، تاریخ پیدائش اور والدین کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

تاہم وہ لکھتی ہیں کہ ان کی اس زمانے میں بہت زیادہ اہمیت کے پیش نظر کچھ باتوں پر یقین کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ان کا تعلق یوکرین کے علاقے رُتھینیا سے تھا جو اس وقت پولینڈ کا حصہ تھا۔ روکسیلانا کا مطلب بھی ’رتھینیا کی لڑکی‘ ہے اور یورپ والے انھیں اس نام سے پکارا کرتے تھے۔

پیئرس کے مطابق ایک بات مکمل یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی پیدائش مسیحی خاندان میں ہوئی تھی۔ کچھ عثمانی روایات کے مطابق روکسیلانا ایک پادری کی بیٹی تھی۔

ترکی میں عثمانوی تاریخ اور قانون کے ایک پروفیسر اکرم بورا اکنجے نے حوریم سلطان کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کا اصل نام الیگزانڈرا لیسووسکا تھا اور اسے 12 سال کی عمر میں کریمیا کے تاتاریوں نے اغوا کر کے استنبول بھیج دیا تھا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ شاہی حرم میں باقی کنیزوں کی طرح حوریم سلطان کی بھی کئی سال تک شاہی آداب، عثمانی علوم اور اسلام کے بارے میں تربیت ہوئی اور پھر انھیں ان کی خوش مزاج طبیعت اور مسکراتے چہرے کی وجہ سے خرم نام دیا گیا(جو جدید ترک میں حوریم بن گیا)۔

پیئرس نے ایک سے زیادہ بار حوریم کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مشکلات کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی تفصیل سے بتایا ہے کہ اس زمانے میں شاہی حرم کی زندگی کے بارے لکھی گئی بہت سی کتابیں سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھیں اور زیادہ قابل اعتبار نہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ روکسیلانا سنہ 1520 میں ستمبر میں سلطان سلیمان کی تخت پوشی کے کچھ ہی مہینوں کے بعد ان کے حرم کا حصہ بن گئی تھیں، اس وقت سلطان کی عمر 26 برس اور روکسیلانا تقریباً 17 برس کی تھیں۔ ’سن 1521 میں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا۔

ان کے سلطان سے ایک بیٹی اور چار (کچھ ذرائع کے مطابق پانچ) بیٹے ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر اس معمول کی بات نے اس وقت سلطنت عثمانیہ کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ارطغرل اصل میں کون تھے؟

سلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘

یروشلم میں بابا فرید کی سرائے

قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

پہلے بیٹے کی پیدائش تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد اسی کنیز کے ساتھ تعلق جاری رکھنا مؤرخین کے مطابق سلطنت کی نسلوں پرانی روایات کے خلاف تھی۔ سلطنت عثمانیہ اس وقت تک دو صدیاں اور نو سلطان دیکھ چکی تھی اور مؤرخین کے مطابق ’ایک عثمانی سلطان کے لیے، کسی بھی اور بادشاہ کی طرح، سیکس صرف مزے کے چیز نھیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس کے اہم سیاسی نتائج تھے۔۔۔خاندان کے اقتدار کے بقا کا دارومدار اسی پر تھا۔ یہ ایسا فُعل نھیں تھا جو نتائج کو دھیان میں رکھے بغیر کر لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔حرم میں سیکس کے کچھ ضوابط تھے۔‘

اس وقت ان ضوابط کے تحت ایک کنیز سلطان کے بیٹے کی ماں بننے کے بعد اس سے جسمانی تعلق نھیں جاری رکھ سکتی تھی۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ ایک کنیز ایک بیٹا کی پالیسی کی بنیاد یہ تھی کہ ماں ایک شہزادے کو پوری توجہ دے سکے اور کبھی اسے دو یا اس سے زیادہ بیٹوں میں ایک کا انتخاب کرنے کی نوبت نہ آئے۔

پیئرس لکھتی ہیں کہ سلطان اور حرم کی خواتین کے درمیان سیکس وارث پیدا کرنے کی پیچیدہ سیاست سے کنٹرول ہوتی تھی۔

اگر کسی کا خیال تھا کہ خرم کا سلطان کے ایک سے زیادہ بیٹوں کی ماں بننا غلط تھا تو سنہ 1536 میں سلطان سلیمان نے اپنی پسندیدہ کنیز حوریم سلطان سے شادی کر کے نہ صرف اپنی عوام بلکہ استنبول میں تعینات اہم عالمی سفارتکاروں کو ایک بار پھر حیران کر دیا۔

اس کے بعد جب حوریم کے بیٹے روایت کے مطابق صوبوں میں فرائض انجام دینے گئے تو ان کے ساتھ جانے کی بجائے وہ سلطان کے ساتھ استنبول میں رہیں۔ یہ ایک اور روایت کی خلاف ورزی تھی۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ عثمانوی عوام کی نظر میں کسی سلطان کا ایک شخص کے اثر میں ہونا ناقابل قبول تھا کیونکہ ان کے نزدیک سلطان کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے ہر بندھن سے آزاد ہونا چاہیے تھا۔

حوریم سلطان اب مکمل طور پر حرم کی سیاست میں گھر چکی تھی۔ خرم سلطان سے پہلے سلطان سلیمان کا ایک اور کنیز ماہیدیورن سے بھی ایک بیٹا تھا جس کا نام مصطفیٰ تھا۔ یہ بیٹا سلطان کی تخت نشینی سے پہلے پیدا ہوا تھا اور عوام اور عسکری حلقوں میں بہت مقبول تھا اور سب کا خیال تھا کہ اگلا سلطان یہی بنے گا۔

سلطنت عثمانیہ میں اس وقت تو جو روایت چلی آ رہی تھی اس کے مطابق ہر سلطان کی موت کے بعد شہزادوں میں تخت کے لیے کشمکش ہوتی تھی جو ایک کے علاوہ سب کی موت تک جاری رہتی۔

پیئرس لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان اپنا پیدائشی خاندان تو کھو چکی تھی اب شاید دوسرا خاندان کھونے کا خدشہ اس کے ذہن میں رہتا ہوگا کہ اگر مصطفیٰ سلطان بن گیا تو اس کے بچوں کا کیا ہو گا۔ مؤرخین کے مطابق اس وقت سلطنت کے وزیر اعظم ابراہیم پاشا کی ہمدردیاں بھی مصطفیٰ کے ساتھ تھیں۔

اب حالات کچھ اس طرح آگے بڑھے کہ مصطفیٰ اور ابراہیم دونوں کو سلطان نے عہدوں کی حدود پار کرنے اور بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں مروا دیا۔ اس کے بعد اب یہ طے ہو گیا کہ سلطان سلیمان کے بعد حوریم سلطان کا ہی کوئی بیٹا تخت پر بیٹھے گا۔ حوریم سلطان کا اپنے خاوند سے آٹھ سال پہلے سن 1558 میں انتقال ہو گیا اور وہ شہزادے سلیم کو تخت پر بیٹھتے ہوئے نھیں دیکھ سکیں۔ یاد رہے کہ حوریم سلطان اور سلطان سلیمان کے بیٹے بایزید کو بھی بغاوت کے الزام میں مروا دیا گیا تھا۔

حوریم سلطان تاریخ کا ایک متنازع کردار ہے جس کے بارے میں کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی بحث جاری ہے۔ پیئرس لکھتی ہیں کہ سلطان سلیمان اور ان کا تعلق اتنا غیر روایتی تھا کہ دوبارہ عثمانی تاریخ میں اس کی مثال نھیں ملتی۔

حوریم سلطان اپنی زندگی میں ہی متنازع ہو گئی تھیں اور ’کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے عثمانی تاریخ میں مقام کے بارے میں بحث ختم نہیں ہوئی۔‘ ان پر اسی دور میں سلطان پر جادو کرنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔

پیئرس کہتی ہیں کہ عوامی سطح پر سب الزام حوریم پر ڈالنا اس لیے آسان تھا کیونکہ سلطان سے تو غلطی کا تصور نھیں تھا۔

حوریم سلطان کی کامیابی

پیئرس لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان کی بڑی کامیابیوں میں سلطنت بھر میں پھیلے ہوئے فلاحی کام تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ انھوں نے مسجدیں، ہسپتال، یتیم خانے، لنگر قائم کرنے اور پینے کے پانی کی سہولیات میں بہت دلچسپی لی اور خیراتی ادارے بھی قائم کیے۔ وہ لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان غلاموں کو آزاد کروانے میں بہت دلچسپی لیتی تھیں جس کی وجہ شاید ان کا اپنا ماضی کا تجربہ تھا جسے وہ نھیں بھلا سکی تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ ان کے فلاحی کاموں ان کے بعد بھی نچلی سطح تک ہزاروں خواتین کو فائدہ پہنچا۔ ان کے قائم کیے گئے کئی فلاحی ادارے آج بھی قائم ہیں۔

حوریم سلطان سفارتی محاذ پر بھی بہت متحرک تھیں۔ اس کی ایک مثال کے طور پر سلطان سلیمان کے دور میں خرم سلطان کے آبائی علاقے پولینڈ سے سلطنت کا مسلسل رابطہ رہا۔ پولینڈ کے بادشاہ سجیسمند اوّلا حوریم سلطان کی کوششوں کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ امن قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔

یہی نہیں بلکہ حوریم سلطان کا خط کے ذریعے صفوی بادشاہ شاہ تہماسپ کی بہن سلطانم سے بھی رابطہ تھا۔ پیئرس لکھتی ہیں ممکن ہے کہ جب سلطان سلیمان کا مقصد صلح ہوتا تھا وہ حوریم سلطان کے ذریعے بات کرتے تھے۔

پیئرس نے عثمانی سلطنت میں حرم کی زندگی کے بارے میں اپنی کتاب ’امپیریئل حرم‘ میں لکھا ہے کہ ’16ویں اور 17ویں صدیوں میں عثمانوی سلطنت کے سفارتی محاذ پر خاص طور پر چار خواتین نمایاں تھیں: حوریم، نور بانو، صفیہ اور قُسم۔‘ اور ان کے ذریعے قائم کیے گئے سفارتی روابط نے سلطنت کی بہت مدد کی۔

حوریم سلطان کے بعد آنے والی شاہی خواتین کے ذکر کی طرف بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نوعمر لڑکیاں دور دراز علاقوں میں انسانوں کی منڈیوں سے کن تجربات سے گزر کر استنبول پہنچی تھیں۔ ’اغوا کے تجربے سے گزرنا کسی کمزور انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔‘

حوریم سلطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ جب انھوں نے اپنی رہائش گاہ پرانے محل سے نئے شاہی محل میں منتقل کی تو حرم کو سیاست کے مرکز کے قریب لے آئیں۔

ایسا کرنے سے حرم ایک سیاسی طاقت بن گیا اور آئندہ آنے والے وقتوں میں حرم کی سینئیر خواتین کے لیے سیاسی حلقوں میں رابطے قائم کرنا ممکن ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments