پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کی مشکلات: ’سوچ لیا تھا کہ بھیک نہیں مانگنی اور سیکس سے پیسے نہیں کمانے‘

موسیٰ یاوری - بی بی سی اردو، لاہور


علینہ، ٹرانس
علینہ نے جب سے نیا گھر کرائے پر لیا تھا، تب سے ان کی مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ ان کے گھر مردوں کا دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔

گھر والوں سے دور اور ان سے الگ رہ کر اپنے آپ کو خود مختار بنانا ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ معاشرے کی طرف سے مسائل سے دو چار ہونا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔

جب سے لوگوں کو پتا چلا تھا کہ علینہ اس نئے گھر میں منتقل ہو گئی ہیں تب سے مختلف طرح کے لوگ کسی نہ کسی بہانے ان کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ دوسری طرف علینہ کے لیے یہ گھر چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ کسی ٹرانس جینڈر کو کرائے پر گھر ملنا اتنا آسان کام نہیں۔

علینہ ایک ٹرانس عورت ہیں اور ان کی پیدائش ایک لڑکے کو طور پر ہوئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی گھر والوں کی باتیں سنتی آ رہی تھی۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب باہر کی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں بھی انھیں اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔

’ایک وقت آ گیا تھا جب مجھے لگا کہ میں غلط ہوں اور مجھ میں ہی کوئی کمی ہے جو مجھے ٹھیک کرنی چاہیے۔ میں نے اپنی جنس کو بہت چھپانے کی کوشش کی۔‘

کچھ عرصے تک تو انھوں نے لڑکوں کے طور پر زندگی گزارنے کی کوشش کیں۔ اور مختلف جگہ لڑکے کے طور پر نوکری بھی کی۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’اس زندگی میں بھی لوگ طعنے دیتے تھے۔ اور لوگ ’چکنے، سوہنے بات سن‘ کی آوازیں لگاتے تھے۔‘

علینہ، ٹرانس

یہ وہ وقت تھا جب علینہ نے اپنی ذات پر سوال اٹھانا شروع کیا۔ معاشرے کے ایک عام فرد کی طرح وہ اپنے گھر میں بھی کسی کو یہ بات نہیں بتا سکتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں گھر میں بھی آسانی سے گھل مل نہیں پا رہی تھی۔‘

’ہمارے معاشرے میں تعلیم بہت ہے لیکن تربیت نہیں‘

لیکن ان تمام واقعات کے بیچ ایک کام جو وہ لازمی طور پر کرتی تھیں وہ تھا چھپ چھپ کر ڈانس کرنا۔ صرف یہی ایک چیز تھی جس کے دوران وہ اپنی حقیقت کے بالکل قریب ہوتی تھی اور انھیں کوئی کچھ کہنے والا بھی نہیں ہوتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سکول سے آنے کے بعد یونیفارم تبدیل کرنے کے دوران یا پھر اور بہانے ڈھونڈ کر میں اپنے آپ کو کمرے میں بند کر دیتی تھی اور ایک دو ٹھمکے لازمی لگاتی تھی۔ اسی سے سکون ملتا تھا۔ اور یہی چیز میں گھر والوں کے سامنے نہیں کر پاتی تھی۔‘

ٹرانس عورت، پاکستان، خواجہ سرا

علینہ کی طرح سب خواجہ سراؤں کو اسی طرح کی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں ان کے لیے یہ رکاوٹیں صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ اور مختلف ادوار میں ان کے خلاف مختلف قوانین آتے گئے اور ان میں تبدیلی آتی گئی۔

80 کی دہائی میں جنرل ضیا الحق کے دور میں شرعی قوانین متعارف کرائے گئے جن سے خواجہ سراؤں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ 2009 میں کئی برسوں کے احتجاج اور اپیلوں کے بعد سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو قانونی طور پر تیسری جنس قرار دیا اور ان کے لیے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ حاصل کرنے کا راستہ کھل گیا۔

اور اس کے چند سال بعد سال 2012 میں پہلی مرتبہ انھیں ووٹ ڈالنے اور جائیداد میں وراثت کا حق ملا۔

ٹرانس جینڈرز کے تحفظ کا قانون

سنہ 2017 میں پہلی مرتبہ ان کو مردم شماری میں ایک علیحدہ جنس کے طور پر شامل کیا گیا۔ اور اس کے اگلے برس ’ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ‘ منظور کیا گیا۔

علینہ، ٹرانس

اسد جمال جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور خواجہ سراؤں کے ساتھ نااںصافیوں کے خلاف آواز بھی اٹھاتے رہتے ہیں اور قانونی پیچیدگیوں میں ان کی مدد کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ ایک اچھی پیشرفت ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سے لوگ اس ایکٹ کے خلاف ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ترقی کی جانب ایک اور قدم ہے۔ اور لوگ اس کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ اس سے متعلق لوگوں کہ بہت ساری غلط فہمیاں ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قانون ہم جنس پرستوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ سب ذہنی تعصبات اور خدشات کی بنا پر ہیں۔‘

انھوں نے اس ایکٹ کے سیکشن تین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سیکشن میں صنفی شناخت سے متعلق صنفی خود مختیاری کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ تمام خواجہ سراؤں کو یہ حق حاصل ہے کہ ’وہ جذباتی، نفسیاتی، اور روحانی طور پر جیسے محسوس کرتے ہیں، اس کا اظہار کر سکیں۔‘

اسد جمال کہتے ہیں کہ اس طرح کا تعصب صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خواجہ سراؤں کے خلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس ایکٹ کی منظوری کو ایک اہم پیشرفت سمجھتے ہیں۔

علینہ بھی اس اسد جمال کے اس بات سے متفق ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں تعلیم بہت ہے لیکن تربیت نہیں۔ جس طرح بچپن میں بتایا جاتا ہے کہ یہ خالہ ہیں، یہ ماموں ہیں اور ان کی عزت کریں۔ اس طرح ہمارے بارے میں بھی بتایا جائے کہ ہم ایک تیسری جنس ہیں اور ہم بھی ان ہی کی طرح ایک انسان ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمیں میڈیا پر بھی کامیڈی کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔‘

ٹرانس عورت، پاکستان، خواجہ سرا

یہ بھی پڑھیے

ٹرانس خاتون کی محبت کی تلاش: ’لوگ جنسی اعضا، سیکس سے متعلق پوچھتے تھے‘

انڈیا کی وہ ٹرانسجینڈر خاتون جن کی موت کی درخواست نے سب کو ہلا دیا

’مجھے عورتوں کا لباس پہننے پر ہتھکڑی لگا کر مارا پیٹا گیا‘

عورت مارچ: ’ایل جی بی ٹی کھل کر سامنے نہیں آتے‘ تو مسائل پر بھی بحث نہیں ہوتی

علینہ، ٹرانس

’ڈانس کر کے اپنے اخراجات پورے کیے‘

علینہ ماضی کی یادوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھیں گھر والوں کی طرف سے مختلف اوقات میں مار پٹائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی دوران محلے میں آنے والے خواجہ سراؤں کو دیکھنے کے بعد وہ ان کی طرف راغب ہوئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان کی طرف ایک الگ کشش ہوتی تھی۔ اور یہی سوچتی تھی کہ شاید وہی مجھے سمجھ سکیں۔ کیونکہ گھر والے، سکول والے، رشتہ دار، اور محلے والے تو ہمیشہ طعنہ ہی دیتے تھے کہ تم ہو ہی کھسرے۔‘

’اسی طرح مجھے اپنی گرو ملی جنھوں نے مجھے خواجہ سرا برادری سے مجھے متعارف کرایا۔ جو چیزیں سمجھ سے بالاتر تھیں ان کے بارے میں بتایا۔ اور پھر میری زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔‘

علینہ نے جب فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہیں گی تو ان کی مشکلات میں اور اضافہ ہوا۔ کرایے پر گھر نہ ملنا، اور اکیلے رہ کر دنیا کا سامنا کرنا آسان کام نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے بھیک نہیں مانگنی، سیکس کر کے پیسے نہیں کمانے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا۔‘

شوق کی تسکین کرتے کرتے اور چھپ چھپ کر ڈانس کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں اسی ہنر کی بدولت کام ملنا بھی شروع ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ڈانس کر کے ہی میں اپنے اخراجات پورے کرتی تھی۔‘

علینہ، ٹرانس

اسی دوران ان کی زندگی اس وقت بدلی جب انھیں ڈائریکٹر سائم صادق کی مختصر فلم ’ڈارلنگ‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کی کہانی ان کے کردار کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اور یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس نے 2019 میں وینس فلم فیسٹیول میں بہترین مختصر فلم کا ایوارڈ جیتا۔

علینہ کہتی ہیں کہ ’فلم میں کام کرنے کے بعد لوگوں کا رویہ اب بدل گیا ہے۔ ’میں نے محلے میں سب کو بتایا کہ میں ایک ٹرانس ہوں اور میں مانگنے اور سیکس سے ہٹ کر بھی چیزیں کر سکتی ہوں۔ اور میں آپ کے معاشرے کا حصہ بن کر آپ کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں۔‘

ٹرانس عورت، پاکستان، خواجہ سرا

انھیں اب ان کے محلے میں خوشی کے موقع پر دعوت بھی دی جاتی ہیں اور غم کے موقع پر وہ خود لوگوں کے غم میں شریک ہونے چلی جاتی ہیں۔

علینہ اب اپنے آپ کو علینہ خان نہیں بلکہ ’علینہ ڈارلنگ‘ کہتی ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس فلم کی وجہ سے ان کی زندگی بدل گئی ہے۔ اور ان کے گھر والوں نے بھی انھیں قبول کر لیا ہے۔

ان کے بہن بھائی اب ان کی حمایت کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہ علینہ کی مدد بھی کرتے ہیں۔ لیکن بات یہی ختم نہیں ہوتی۔ علینہ اب ایک اور بہت بڑے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہیں جو ان کے مستقبل کی پریشانیوں کے برعکس ان کے لیے خوشیاں اور نئی راہیں کھول دے گا۔

مگر اس پراجیکٹ کے بارے میں اب تک باقاعدہ اعلان نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments