جہد مسلسل اور کامیابی


یہ ایک ایسے بچے کا تذکرہ ہے ’جو اسکول کے ابتدائی دنوں میں تعلیم سے اچاٹ رہتا تھا۔ جسمانی طور پر اتنا مریل کہ کئی مرتبہ ہم جماعتوں سے مار کھائی۔ مگر زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ سب کچھ بھلا کر کتاب کے قریب ہوتا ہے۔ کتاب کو اپنی ہمنوا بنا لیتا ہے۔ کتاب کے سوا اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ کتب بینی میں اس قدر مگن رہتا کہ دوران پڑھائی کسی کو جواب نہیں دیتا تھا۔ ان کے والدین کو شک گزرا کہ کہیں ان کا بچہ بہرا تو نہیں؟ وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے مگر معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ بچہ بالکل صحت مند ہے۔

کتاب میں جو کچھ پڑھتا اسے پریکٹیکل کے ذریعے نئی چیز تخلیق کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ فزکس جسے دنیا کی مشکل ترین سبجیکٹ سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں اس میں خاص دلچسپی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو فزکس اور کمپیوٹر میں مہارت ہو تو اسے ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ غرض یہ فزکس اور معاشیات میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔

جی ہاں! آپ نے درست پہچانا یہ ہیں امریکی سائنس دان اور معروف کاروباری شخصیت ایلان مسک جن کا دنیا کے امیر ترین اور با اثر افراد میں شمار ہوتا ہے۔ یہ دنیا کے انسانوں کو مریخ پر بسانے کا آرزو مند ہے۔ یہ چاہتا ہے گھروں میں ملازموں کے بجائے روبوٹ کام کریں۔ ان کی خواہش ہے کہ گاڑیاں تیل کے بجائے پانی سے چلیں۔ اسی وجہ سے لوگ اسے پاگل سمجھتے ہیں مگر یہ اپنے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے ایکس ڈاٹ نام کی ایک آن لائن کمپنی بنائی مگر جلد ہی یہ کمپنی بیچ دی اور سپیسکس نامی کمپنی کی بنیادی رکھی جو فضائی راکٹ اور خلائی مشن کے لیے سامان تیار کرتی ہے۔

جب اس نے پہلا راکٹ بنا کر خلا میں بھیجا تو وہ زمین کی مدار سے باہر نکلنے میں ناکام ہوا۔ ایلان مسک نے کافی کوشش کے بعد دوسرا راکٹ خلا میں بھیج دیا مگر وہ سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ایلان کو کافی معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ہمت نہیں ہاری اور خصوصی توجہ کے ساتھ فالکن 9 نامی ایک راکٹ بنایا اور یہ راکٹ کامیابی سے خلا میں پہنچ گیا۔ یوں ایلان کے لیے کامیابیوں کے دریچے کھلتے گئے۔ امریکا کی سب سے بڑی خلائی کمپنی ناسا نے فالکن طرز کے راکٹ بنانے کے لیے ایلان مسک سے معاہدہ کیا ہے۔

ایلان مسک نے ٹیسلا نام کی کمپنی بنا رکھی ہے جہاں پر چارج سے چلنے والی خود کار اور آرام دہ گاڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ جو ایک چارج پر تقریباً چار سو پچاس کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔ قوی امکان ہے کہ آنے والے وقتوں میں ایلان مسک ناقابل یقین کارنامے انجام دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دے اور وہ سب کچھ ممکن بنا دے جو اس وقت ہمیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ بہر حال ایلان مسک کی زندگی دنیا کے ہر انسان کو جہد مسلسل کا درس دیتی ہے۔ یہ کہانی قارئین کی دل چسپی کے لیے جناب ناصر محمود بیگ کے کالم سے اخذ کیا گیا ہے۔

دنیا میں خواب راج کرتے ہیں۔ خواب کی تعبیر کے لیے سچے جذبوں، بلند حوصلوں، یقین محکم اور عمل پیہم کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم سائنس دان، سیاست دان، کاروباری شخصیات اور سماجی رہنما ہو گزرے ہیں ’وہ منھ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے۔ دنیا میں نام کمانے اور عام لوگوں کی زندگیوں کو سہل بنانے کے لئے اپنی جائیدادیں لٹائی، پابند سلاسل ہوئے، سولی پر چڑھنا گوارا کیا، گھر بار لٹایا، اولاد کی قربانیاں دی‘ لیکن ایک لحظے کے لئے بھی اپنے مقصد سے روگردانی نہیں کی۔

انھوں نے حصول تعلیم اور پھر حصول مقصد کے لئے دن رات محنت کی ہے۔ آج کام یابی کے مینار پر ان کا نام چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں جس نے بھی عزت پائی، نام کمایا، شہرت کی بلندیوں کو چھوا وہ سچی لگن سے محنت اور مصیبتوں میں پنپنے کا ہی نتیجہ ہے۔ یاد رہے منھ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والا جدوجہد نہیں بلکہ جعل سازی اور لوٹ کھسوٹ کے ہی طریقے ایجاد کر سکتا ہے۔

دنیا کے امیر ترین شخصیت بل گیٹس کا کہنا ہے کہ کامیابی کوئی حادثہ نہیں ہوتی۔ کامیابی، مستقل مزاجی، سیکھنے، پڑھنے، قربانی اور سب سے بڑھ کر جو کام تم کر رہے ہو اس سے پیار کرنے کا نام ہے۔ انسان کا مقصد و ہدف جتنا اعلٰی ہو گا وہ اتنا ہی جان فشانی اور عرق ریزی سے تگ و دو کرتا ہے اور اس کی مستقبل اتنی ہی درخشاں ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت امام علیؑ کا فرمان ہے انسان کو حقیقی کامیابی مسلسل محنت سے حاصل ہوتی ہے۔

کوئی بھی شخص بغیر محنت و مشقت کے کامیابی و کامرانی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کامیابی صرف محنت میں پوشیدہ ہے۔ ستائیس سالوں تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والا نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ میری کامیابیوں سے مت پرکھو۔ مجھے پرکھنا ہے تو اس سے پرکھو کہ کتنی بار نیچے گر کر پھر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پس نیلسن منڈیلا ہو یا ابراہم لنکن، مادر ٹریسا ہو یا فاطمہ جناح، علامہ اقبالؒ ہو یا امام خمینیؒ، قائداعظمؒ ہو یا گاندھی ان کی کامیابیوں کے پیچھے جہد مسلسل کی کہانی پوشیدہ ہے۔ الطاف حسین حالی نے کیا خوب فرمایا ہے۔

مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی
جہاں میں ملی ان کو آخر بڑائی
بغیر اس کے کبھی کسی نے نہ پائی
نہ عزت، نہ دولت، نہ کشور کشائی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments