بہت بے آبرو ہو کر


ہائبرڈ حکومت کا قصہ تمام ہو چکا، بس رسمی کارروائی باقی ہے۔ دیدۂ عبرت نگاہ ہو تو انسان جان سکتا ہے کہ عمران خان کا بیساکھیوں والا عروج، طنطنہ، جھوٹی شان و شوکت اور نجات دہندہ اور مسیحا والا بت اوندھے منہ گرنے والا ہے۔ عمران کا عروج اور فوری زوال ایسی بلندی ایسی پستی کی عبرت انگیز اور کرب انگیز مثال ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی بار کوئی حکومت خالص جمہوری انداز سے رخصت ہو رہی ہے۔ پانچ چھ سال قبل جب میاں نواز شریف کو پانامے کی بساط بچھا کر اقامے کی بنیاد پر نا اہل کر کے پس دیوار زنداں ڈالا گیا تھا۔

عدلیہ، پارلیمنٹ، نیب، ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور میڈیا سمیت جس طرح تمام اداروں کو نون لیگ و اپوزیشن کے خلاف اور عمران کی حمایت میں میدان میں اتارا گیا تھا، اس وقت کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ بہت جلد عمرانی بت پاش پاش ہو جائے گا؟ جب نون لیگ کی مرکزی قیادت پر جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں موت کی کال کوٹھڑیوں میں پھینکا جا رہا تھا تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہائبرڈ نظام اتنی جلدی لیرو لیر ہو جائے گا؟ جب نواز شریف کی تصویر تک الیکٹرانک میڈیا پر دکھانے کی پابندی تھی تو کسی کے وہم و گماں میں بھی تھا کہ لاڈلے کے اقتدار کے لیے بچھائی جانے والی بساط اتنی جلدی درہم برہم ہو جائے گی؟

عمران خان کی رسوا کن اور عبرت ناک شکست پر ہزاروں تجزیے اور تبصرے ہو رہے ہیں۔ طرح طرح کے اسباب و علل بتائے جا رہے ہیں۔ مگر سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ اس پسپائی اور رسوائی کے پس پردہ کوئی اور نہیں عمران خان خود ہیں۔

عمران خان وہ خوش قسمت سیاستدان ہیں جن کو اسٹیبلشمنٹ کی بے لوث اور غیر مشروط حمایت ملی۔ جن طاقتوں نے سہروردی سے لے کر نواز شریف تک سیاستدانوں گھٹنوں پر بٹھایا انہوں نے عمران کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ جنہوں نے منتخب نمائندوں کے نیچے سے اقتدار کی کرسی کھینچی انہوں نے عمران کے لیے بڑے پیار سے اقتدار و اختیار کی بساط بچھائی۔ جنہوں نے منتخب وزیراعظم کو جھوٹے الزام میں تختۂ دار پر لٹکایا انہوں نے عمران خان کے قدموں میں گلدستۂ اقتدار بچھایا۔

جس میڈیا نے نواز، زرداری، شہباز سمیت اپوزیشن لیڈروں کو چور، ڈاکو، لٹیروں جیسے القابات سے نوازا اسی میڈیا نے عمران خان کو دیانت و امانت کا پتلا بنا کر پیش کیا۔ جن معزز عدالتوں نے نواز شریف کو تا حیات نا اہل کر کے کاذب و خائن قرار دیا ان عدالتوں نے عمران خان کو اہل ترین اور صادق و امین قرار دیا۔ جس نیب نے اپوزیشن لیڈروں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کو ہتھکڑیاں لگا لگا کر سر بازار رسوا کیا اسی نیب نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو دودھ میں دھلا ہونے کی سندیں جاری کیں۔ جس غیر سیاسی ”ادارے“ کے سربراہ اور ماتحتوں نے سیاستدانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا، اسی ادارے نے عمران خان کی سیاست کو بام عروج پر پہنچایا۔ اور تو اور پہلے تین سال تک عمران خان کو اپوزیشن بھی لولی لنگڑی، بہری، گونگی اور اندھی ملی۔

عمران خان کی جگہ کوئی معمولی سیاسی سوجھ بوجھ اور انتظامی اہلیت کا حامل آدمی ہوتا تو وہ اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ملک کو اوج ثریا تک پہنچا دیتا مگر افسوس صد افسوس کہ عمران خان نے سیاست جیسے پوتر شعبے کو اندھی نفرت کا اکھاڑہ بنا دیا۔ انہوں نے سیاسی اور نظریاتی اختلاف کو ذاتی دشمنی کی مکروہ جنگ بنا کر زہر ناک اور خوفناک انتقام کا ہدف بنا دیا۔ سیاسی رواداری کی وہ شاندار روایات جو ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مودودی، نواب زادہ نصراللہ خان اور مفتی محمود، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے قائم کی تھیں، عمران خان نے ان شاندار روایات کے چشمۂ صافی کو اپنے طرز عمل، بدکلامی اور گالم گلوچ کی پے در پے سنگ زنی سے آلودہ و متعفن کر دیا۔

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے

جن گھر کے چراغوں نے عمران خان کے خرمن اقتدار کو بھسم کر دیا، ان کو خود عمران خان نے جلایا تھا اور وقتاً فوقتاً ان کی لو بڑھاتے رہے تھے۔ کپتان نے منصف مزاج، کھرے اور دبنگ بانی پی ٹی آئی بزرگ جسٹس وجیہ الدین کی جگہ سیاست کے گھاٹ گھاٹ سے پانی پینے والے ابن الوقت جہانگیر ترین جیسے پیرا شوٹرز کو اپنے قریب کیا۔ صلح جو، نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو والے حامد خان کی جگہ ضیا الحق سے لے کر زرداری صاحب کے دربار کے نورتن رہنے والے بابر اعوان جیسے ”نابغوں“ کو اپنی کابینہ میں رکھا جنہوں نے ہر موقعے پر کپتان کو تصادم اور انتشار و خلفشار کا مشورہ دیا۔

جب اکبر ایس بابر جیسے بے باک، باشعور اور دیانتدار ارکان کی جگہ فواد چودھری، فیاض الحسن چوہان، فردوس عاشق اعوان جیسے بد زبانوں اور جگھڑالو عناصر کو اپنے ترجمان رکھیں گے تو وہ اپنی شعلہ نوائی اور ہرزہ سرائی کے ذریعے آپ کو بند گلی میں دھکیل دیں گے۔ نیک سیرت، سیاسی شعور و جذبہ و جنون سے معمور فوزیہ قصوری کی جگہ ہر وقت کل کل کرنے والے شہباز گل اور ہر وقت آمادۂ جنگ رہنے اور کام و دہن کو گالم گلوچ و دھمکیوں سے آلودہ کیے رکھنے والے شیخ رشید کو اپنا مصاحب خاص بنائیں گے تو آپ کے راستے میں قدم قدم پر کانٹے ہوں گے۔

یہی نہیں عمران خان نے اپنے سب سے بڑے محسن اور قدم قدم پر بدنامی مول لے کر ساتھ دینے والے ادارے اور اس کے سربراہ کو بھی نہیں بخشا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر نوٹیفیکشن پر دستخط کے حوالے سے غیر ضروری تاخیر ادارے کی ساکھ کو داوٴ پر لگانے کے مترادف تھی۔ معیشت سے لے کر خارجہ پالیسی تک ہر ایک چیز کا برا حال کر دیا۔ موصوف کو اقتدار کے سنگھاسن سے کسی اور نے نہیں تکبر، غرور، انا پرستی، نرگسیت، بے حسی، منتقم مزاجی، بد انتظامی، یاوہ گفتاری اور فضول گوئی کے علاوہ خدائی لہجے نے اتار پھینکا ہے۔

یہ وقت کس کے غرور پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

تاریخ میں عمران احمد نیازی ایک بزدل، سیاسی شعور سے عاری اور متلون مزاج و نرگسیت و انتقام کی آگ میں جلنے والے حادثے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بزدل نہ ہوتا تو لانے والوں کے بدلتے تیور دیکھتے ہی نواز شریف بن جاتا۔ یہ نہیں کر سکا تھا تو اتحادیوں اور پی ٹی آئی کی بدلتی آنکھیں اور لہجے دیکھ کر اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کر دیتا۔ یہ بھی نہیں کر سکا تھا تو اپوزیشن کے ساتھ سیاسی مکالمے کا آغاز ہی کر دیتا۔

آج جب عمران خان کو سو فیصد اپنا اقتدار جاتا نظر آ رہا ہے تو اب بھی استعفا دے کر کسی قدر باوقار انداز سے رخصت ہونے کے بجائے آخری گیند تک لڑنے مرنے کی بڑھکیں مار کر چالبازی کے لبادے میں نادانی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ کاش کوئی بتانے والا عمران نیازی کو بتا سکے کہ حضور! جس میچ کی آخری گیند تک لڑنے کی باتیں آپ کر رہے ہیں وہ میچ کب کا ختم ہو چکا ہے، جسے آپ بری طرح ہار چکے ہیں۔ آپ نے اپنے طرز عمل، بدحواسی اور گھبراہٹ کی وجہ سے اپنے رومان پرور چاہنے والوں بقول میر یہ کہہ کر فخر کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا کہ

شکست و فتح تو نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments