فلم ”زندگی تماشا“: مسئلہ کیا ہے؟


ایک بار پھر فضاؤں میں بازگشت ہے کہ فلم زندگی تماشا 18 مارچ 2022 ء کو ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ فلم کی کہانی ایک بزرگ نعت خوان کے گرد گھومتی ہے جو ناچ گانا بھی کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے کسی عورت کے ساتھ تعلقات بھی ہیں اور وہ اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ کہہ کر اس تعلق کو جواز بخشتا ہے کہ میرا بھی تو دل ہے۔ سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ میں نے اس فلم پر اٹھارہ سالہ تجربہ صرف کیا ہے۔ یعنی ان کے خیال میں اس فلم میں ایسی کوئی بات نہیں جو مذہب کے حوالے سے حساس ہو۔ فلم کا دفاع کرنے والے اونچے اور پہنچ والے لوگ ہیں لہذا ان کے موقف کا ابلاغ تو ہو رہا ہے لیکن مخالف طبقے کی میڈیا میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا موقف عوام تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ لہذا میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے تحفظات پیش کر کے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔

ٹریلر شروع ہوتا ہے کہ ایک باریش بزرگ مکان کی چھت پر اپنے گناہوں کا ویڈیو اعتراف ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ پس منظر میں بادشاہی مسجد ہے۔ انسانی نفسیات ہے کہ انفرادی جرم اور گناہ سے متعلق ویڈیو عموماً کمرے میں تنہائی کے عالم میں بنائی جاتی ہیں۔ کیا اس نفسیاتی پہلو کو اس خاص مقصد کے لیے نظرانداز کیا گیا تاکہ پس منظر میں مسجد دکھائی جا سکے؟ اگر نہیں تو پھر بتایا جائے کہ پس منظر میں مسجد دکھانے کی کیا تک ہے؟ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے کیونکہ فلم اور ڈرامے کے ہر سین کو انتہائی جزئیات کے ساتھ دیکھا جاتا ہے کہ سین کہاں ہو گا؟ پس منظر کیسا ہو گا؟ پیش منظر کیا ہونا چاہیے؟ منظر میں کیا کچھ دکھایا جائے گا؟ کس کس چیز کو فوکس کیا جائے گا وغیرہ۔ پھر ناجائز تعلقات کو ایک نعت خوان اور وہ بزرگ نعت خوان کے ساتھ ہی کیوں خاص کیوں گیا؟ پھر مزید یہ کہ پس پردہ آواز میں پیر مہر علی شاہ ؒکی یہ مشہور زمانہ نعت کیوں لگائی گئی؟

”کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا“
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں ”

فلم بناتے وقت فلم ساز نے ملک کے حالات، مذہب اور آئین کو کیوں نظرانداز کیا؟ ہمارے ملک میں پاک فوج کے خلاف آج تک کوئی فلم نہیں بنی کیونکہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک مسلمان فلم ساز یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ پاکستان میں مذہب ایک حساس معاملہ ہے، بزرگوں کا ادب و احترام اس معاشرے ہی نہیں دین کا بھی بنیادی مسئلہ ہے، یہاں پیر مہر علی شاہؒ کے کروڑوں عقیدت مند ہیں جو کسی صورت یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ان کی نعت کسی برے منظر پر فٹ کی جائے، آئین کسی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتا جس سے اسلامی روایات و اصطلاحات کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو۔ پتا نہیں سینٹ کی کمیٹی یہ پہلو کیسے نظرانداز کر گئی؟

اب ذرا ایک لمحے کے لیے کہانی بدل لیں۔ بزرگ نعت خوان کی جگہ کسی فلم ساز کو رکھ لیں تو کیا وہ گوارا کر لیں گے؟ فلم کا دفاع کرنے والے صحافی بتائیں کہ اگر اس بزرگ نعت خوان کے کردار میں کسی بزرگ صحافی کو فٹ کر دیا جائے تو ان کی کیا رائے ہو گی؟ یونیسف کی ایک رپورٹ ہے جس میں قریبی رشتہ داروں کی تعداد دکھائی ہے جن میں محرم رشتے تک شامل ہیں، جنہوں نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا، کیا مناسب ہو گا کہ اس کی آڑ لے کر مقدس محرم رشتوں کو بدنام کیا جائے؟ فلم ساز سے بنیادی غلطی یہ ہوئی ہے کہ اس نے برائی کی نشاندہی کرنے کی بجائے برائی کو ایک خاص مذہبی حلقے کے ساتھ خاص کر دیا ہے جو اس کا مینڈیٹ نہیں تھا۔

کوئی بھی فلم ساز فلم بنانے سے پہلے اپنے ناظرین کا ٹارگٹ سیٹ کرتا ہے۔ ہر فلم ساز کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ٹارگٹ زیادہ سے زیادہ وسیع ہو تاکہ فلم زیادہ سے زیادہ دیکھی جائے اور خوب دولت کمائی جائے۔ پاکستان میں 96.47 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یہ بات ایک کامن سینس رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ اس قدر کثیر مسلم آبادی والے ملک میں اینٹی اسلام فلم نہیں چل سکتی۔ تو پھر فلم ساز یہ فلم کسے دکھانا چاہتا ہے؟ فلم سازی کے Targeted Audience والے بنیادی اصول سے انحراف کرنا مذہبی حلقوں کے ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ فلم اسلام کا مذاق اڑانے اور مغرب کو خوش کر کے چند ایوارڈ اپنے نام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کسی بزرگ کا کسی نوجوان لڑکی کے ساتھ تعلقات اور مغربی میڈیا میں اس فلم کی پذیرائی اور مختلف ایوارڈ ملنا معاملے کو مزید مشکوک بناتا ہے۔

فلم بنانے کا بنیادی مقصد دولت، شہرت، کسی ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنا، تفریح مہیا کرنا، شعور دینا اور بھائی چارے کو فروغ ہوتا ہے۔ اس فلم میں کسی ہیرو کی کہانی بھی بیان نہیں ہوئی، موضوع ہی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا ہے لہذا تفریح والی بات بھی گئی، فلم کا ٹریلر ہی تفریق کا باعث بن رہا ہے تو قومی یکجہتی والی بات بھی خارج از امکان ہے، فرد کی بجائے ایک معزز طبقے کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے لہذا مثبت قدروں کے فروغ والا مقصد بھی نکل گیا، پیچھے رہ گئی شہرت او دولت تو مثبت تو نہیں البتہ منفی شہرت مل سکتی ہے اور مل بھی رہی ہے، پیچھے رہ گئی دولت تو وہ پاکستان سے تو مل نہیں سکتی کیونکہ یہاں تو اس فلم کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے دیکھے گا کون؟ البتہ باہر سے مل سکتی ہے۔ فلم ساز کو ان باتوں کی وضاحت کرنی چاہیے تاکہ فلم کے بارے میں منفی پروپیگنڈا زائل ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments