نر گدھا اور جاب کرنے والی خواتین


آج ہم نے ڈی ڈبلیو پہ ایک ویڈیو دیکھی کہ ایک ایسا مزار شریف بھی میرے وطن عزیر میں مو جود ہے جہاں نرینہ اولاد کی منت کچھ یو ں مانگی جاتی ہے کہ جب بیٹا پیدا ہو تو مزار پہ ایک نر گدھا چڑھایا جاتا ہے۔

دل سے کہہ رہی ہوں، بزرگ مذکورہ بہت پہنچے ہو ئے لگے۔ سمجھنے والےکسی اور ڈھب میں سمجھ گئے ہیں۔

ملک میں آج کل گدھوں، ضمیر فروشوں، لوٹوں اور اس قسم کے بھیڑیوں کی بات ہورہی ہے۔ مگر موضوع سیاست تک محدود ہے۔

ہائے اتنا ظلم۔ ۔ ۔

میرے ملک کے ہر شعبے میں ایسے “نر گدھے” موجود ہیں۔ کافی دن ہو گئے، قلم کے جیل خانے سے کفش کاری کی صدا سنائی نہیں دی، سوچا لگے ہاتھوں ہم بھی شہیدوں میں نام کر لیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ہماری ایک فیس بکی دوست اپنی ٹرانسفر کے سلسلے میں لاہور آئی ہو ئی تھی۔ وہ سیکرٹریٹ سے سیدھا ایک نمائش میں آ گئی۔ لاہور میں روز درجنوں قسم کی نمائشیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ دیکھا تو پہچان لیا مگر وہ رو رہی تھی۔ پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگیں ٹرانفسر کے کاغذ جس حرامزادے کی میز پہ پھنسے ہو ئے ہیں۔ ایک ملاقات مانگتا ہے۔ ہے وہ رج کے سوہنی۔ نہ بھی ہوتی تو عورت تو تھی۔

ہم پہ لمحہ بھر کو سکتہ طاری ہو گیا۔ ملاقات مانگتا ہے اور صاف مانگتا ہے۔ پھر تو جو گالی اس نے دی ہے، سچی لگ رہی ہے۔ کس کس سے مانگتا ہو گا؟

یونہی تب کی بات ہے۔ جب ہم اسلام آباد مقیم تھے۔ پاک چائنا سینٹر میں ایک غیر ادبی سرکاری کانفرنس تھی۔ ہم اپنے پھوپھا جان کے ساتھ چلے گئے۔ ہمارا کیا کام تھا کہ ہم اعداد و شمار کی باتیں سنتے۔ وہاں کھانے کے کیبنز والے حصے میں جا بیٹھے۔ چائے پیتے ایک خاتون افسر سےملاقات ہو گئی۔ اس وقت وہ اسلام آباد میں گریڈ اکیس میں ملازمت کر رہیں تھیں۔ فون نمبرز کا تبادلہ ہوا۔ کو ئی ایک دوسال بعد وہ ریٹائر ہو گئیں تو ہماری گپ شب لگنے لگی۔ گویا دوستی ہو گئی تو بتانے لگیں کہ اب تو خواتین بہت بااختیار ہیں۔ جب ہم نے نوکری شروع کی ایک عام ملازم ایک افسر عورت کو تھپڑ مار کے چلا جاتا تھا۔ افسر عورت کو افسر نہیں، عورت سمجھا جاتا تھا۔ اور اس سے وہی سب ڈیمانڈ کیا جاتا تھا جو ایک عورت سے یہ سماج کرتا ہے۔ اس کو نوکری سے نکلوا دینے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ اس کو پروموشن رکوانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ تب دفتر میں کام کرنا بہت مشکل تھا۔ نہ میڈیا ہمارا ساتھ دیتا تھا کہ چند تو خواتین ہوتی تھیں اور عورت کا نوکری کرنا سماج کے لئے قابل قبول بھی نہیں تھا۔

اسی کانفرنس کے اگلے دن کی بات ہے۔ ہم اسی میز پہ بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ پچھلی میز پہ چند مرد حضرات بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ اس کو خوش گپیاں کہتے ہیں ہم اس کو “کت گپیاں” کہتے ہیں۔ جس میں آدھے سے زیادہ جھوٹ ہوتا ہے۔ ان بے چاروں کو کیا خبر ہو گی کہ اگلی میز پہ بیٹھی کتاب پڑھتی بندی کے کان عام انسانوں کی نسبت چند پوائنٹ زیادہ سنتے ہیں اور وہ کانوں میں روئی دے کر سوتی ہے۔ وہ ان کی بکواس سن لے گی۔

ایک صاحب دوسروں کو فاخرانہ بتا رہے تھے کہ وہ کسی خاتون منسٹر کے دفتر میں ملازم ہیں اور موصوفہ ان کے جوبن سے خوب متاثر ہے۔ راتوں کو بلا لیتی ہے۔ خوب مزے میں چل رہی ہے۔ دن کو دیر سے دفتر بھی جائیں تو سہولت میسر ہے۔ دن میں بیوی جلد دفتر چلی جاتی ہے تو گھر کی ملازمہ بدن کی خوب صفائی کر دیتی ہے۔ سب مرد اس کی گندی باتوں پہ گندے قہقہے لگا کر مزے سے سن رہے تھے۔ مرد بھیڑ چال چلنے کی فطرت رکھتے ہیں۔ ان کی اپنی سوچ کم ہی ہوتی ہے۔ بس ایک یار نے گند پھیلایا۔ جب تک سب نہ پھیلا لیں۔ خود کو ہاری ہوئی مخلوق سمجھتے ہیں۔ اتنی اعلی غیرت کے مالک ہوتے ہیں کہ دوسرے کی محبوبہ کو بیوی بنا لیں گے، اپنی کو چھوڑ دیں گے کہ جو میرے ساتھ شریک الفت رہی، کسی اور کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔

یونہی ایک سول سروس یافتہ صاحب ایک جگہ بتا رہے تھے کہ پروین شاکر ان پہ عاشق تھیں۔ جب ہم نے ان صاحب کی عمر اور پروین شاکر کی وفات کا اندازہ لگایا پتا چلا وہ اس وقت آٹھ سال کے تھے۔ جس وقت کی وہ بات کر رہے تھے۔ ایسے کرداروں پہ اب ہمیں ترس آتا ہے۔ غصہ بھی نہیں آتا۔ اتنے ترسے ہوئے کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ لیٹرین کہاں لکھا ہوا ہے۔ جہاں حاجت ہوئی بیٹھ گئے۔ کتنی کمزور مخلوق ہے۔ اب سمجھ آتا ہے ہمیں عشق کیوں نہیں ہوا۔ ہمیں تو کوئی یوسف چاہئے تھے۔ مگر اس حمام میں تو سب ننگے ہیں۔ ننگے تو درباروں کے باہر ملنگ بھی ہوتے ہیں۔

اس کے بعد اب تک اخبار اور نیوز چینلز ایسی خوف ناک خبروں سے بھرے ہو ئے ہیں۔ ابھی اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ کالج یونیورسٹیوں کی کہانیاں تو پرائم ٹایم کے شوز کا حصہ بھی بنیں اور کچھ پروفیسرز نوکری سے نکالے بھی گئے۔

اندر کھاتے رب جانے ابھی تک خواتین کس کس قسم کی ہراسانی کا سامنا کرتی ہوں گی مگر اپنی تعلیم اور جاب جاری رکھنے کی خاطر خاموش ہوں گی۔

بہت سی لکھاری خواتین ایسی بھی ہیں جو نوکری کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی نوکری کے ہی مسائل نہیں لکھ سکتیں۔ کیونکہ اوپر تو نر گدھے جال پھلائے بیٹھے ہیں۔ جو سوشل میڈیا پہ اشاروں استعاروں میں بولنے والی خواتین کو پہلے خود دھمکاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سوشل میڈیا یا مین سٹریم میڈیا کا سہارا لے کر ہی ان کے خلاف خبر لگوا دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ خبر لگ گئی تو بات عدالت اور گھر تک جائے گی نوکری بھی جا سکتی ہے۔ لہذا زبان بندی کے لئے نس بندی کا فارمولا بھی عورت پہ ہی آزمایا جاتا تھا۔

کو ایجوکیشن سے تو ہم بھی شروع سے پڑھ کر نکلے ہیں۔ ایسی خارش زدہ مخلوق ہر جگہ اور ہر محکمے میں پائی جاتی ہے۔  ان کی کچھ اقسام ہوتی ہیں۔ بظا ہر لبرل، بباطن “آن دو” دوم او جی عورت پہ تو سب حرام ہے۔ کچھ میٹھی باتوں کا جال بنتے ہیں، کچھ براہ راست حملہ کرتے ہیں۔ خود کو محمد بن قاسم سمجھتے ہیں۔ محمد بن قاسم کی سوانح کے فتح سندھ کے بعد والے واقعات بھول جاتے ہیں۔ کچھ اشاروں شاروں میں دل لینے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ کچھ جسمانی چھیڑ چھاڑ سے کام لیتے ہیں، کچھ جنسی گفتگو کا سہارا لیتے ہیں۔

ہم نے ایک فلاسفر نما گدھے کو یہ کہتے بھی سنا کہ جب بنانے والے نے امتیاز رکھا ہے تو امتیاز تو رہے گا ناں، شاگرد اور ماتحت ملازم مثل غلام ہے۔ اورغلام خارش میں حلال ہے۔

ہائے صدقے

بابا جی، تمہاری اپنی تو نسل خراب ہے دوسروں کی کیوں کرتے ہو۔ سفر میں زندگی بسر کرنے سےانسان وہ دیکھ، سن لیتا ہے جو ہزاروں کتب سے نہیں سیکھا جا سکتا۔ ایک بار اسلام آباد سے لاہور آ رہی تھی۔ پچھلی سیٹ پہ بیٹھے دودوست آپس میں گفگتو کر رہے تھے۔ وہی سناٹوں والا سفر سنائی کیسے نہ دیتا۔

“یار ہمارا مسلہ یہ ہے کہ جو کسی کی محبوبہ ہے ہم سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ وہ اس کی ہی محبوبہ رہے۔ ہم یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ میری کیوں نہیں ہے۔ ہم یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ کسی عورت کا کسی مرد سے جنسی تعلق ہے تو اس کا سب مردوں سے ہونا چاہئے۔ اس کا ہم سے بھی ہو نا چاہئے۔”

دونوں بہت سلجھی ہوئی گفگتو مدبرانہ انداز سے کر رہے تھے۔ کیونکہ ابھی طاقت کی عمر تھی جوانی تھی۔ جیسے ہی پہلی بار پھکی کی ضرورت پڑتی ہے اسی دن مرد نر گدھا بن جاتا ہے۔ حالانکہ سائنس ثابت کر چکی ہے۔ جسم بھی ذہن کا تابع ہے اور دل کا ہو جائے تو پھر عمر اور ذہن دونوں بے حیثیت ہو جاتے ہیں۔

آخر ایسی کونسی جسمانی اور ذہنی بیماری ان نر گدھوں کو بے چین کئے رکھتی ہے۔ آخردل معصوم کیوں نہیں بھرتا۔ یہ جو اس وقت ضمیر فروش کہلا رہے ہیں۔ آپ سب بھی ان سب کے قافلہ منافقین میں شامل ہیں۔

ان شدید سنجیدہ، کامیاب، ترسے ہو ئے نر گدھوں پہ ہمیں ایسا ہی ترس آتا ہے جیسا آج کل ہینڈسم پہ ڈاکٹر ردا کو آ رہا ہے۔

آہ، اب اپ گدھوں کی باری ہے۔  ورنہ عرصہ ہوا, ہم بھی زندگی گزار ہی رہے ہیں۔ بہت اچھے اچھے الو بھی ہو تے ہیں۔ طوطے بھی ہوتے ہیں۔ کبوتر بھی ہوتے ہیں۔ زرافے بھی ہوتے ہیں، مور بھی ہوتے ہیں۔ مرغے بھی ہوتے ہیں۔ سب گدھے اور کتے ہی نہیں ہوتے۔ محسوس بس آخری دو مخلوقات کو ہو گا۔ باقی سب مسکرا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments