تجزیہ، ایک نکتہ نظر کا


لاہور سے چھپنے والے ایک ماہنامے میں کچھ عرصہ قبل قرة العین حیدر پہ شائع ہونے والے مضمون کا ایک حوالہ ان خیالات کے اظہار کا باعث بنا ہے۔

صاحب مضمون کے مطابق، ”قرة العین حیدر 1948 میں اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان آئیں اور 1961 تک کراچی میں قیام پذیر رہیں۔ وہ حکومت پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات کراچی میں 1950 میں انفارمیشن افسر رہیں۔ کچھ عرصہ پاکستان ہائی کمیشن لندن میں بطور پریس اتاشی فرائض سرانجام دیے۔ وہ پی آئی اے میں 55 تا 56 بطور انفارمیشن افسر متعین رہیں۔ اسی وزارت میں ڈاکومنٹری اور پاکستان کوارٹر کی قائم مقام ایڈیٹر کی حیثیت سے 56 تا 60 وابستہ رہیں۔

آگ کا دریا 1958 میں مکمل ہوا اور 58۔ 59 میں شائع ہوا۔ اس ناول کے چھپنے کے بعد ان پہ پاکستان دشمنی کے فتوے صادر کیے گئے اور پاکستان سے اخراج کی فضا تیار یو گئی۔ وہ بد دل ہو کر 61 میں ہندوستان چلی گئیں۔ یہاں یہ اظہار معنویت کا حامل ٹھہرے گا کہ ان کا ہندوستان مستقل واپسی کا فیصلہ بڑی دور اندیشی پر مبنی تھا کیونکہ جوش ملیح آبادی کے ساتھ پاکستان میں جو سلوک روا رکھا گیا اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہا جائے یا المیہ۔ جوش صاحب سی تاریخی غلطی دیگر دو عظیم شخصیات علامہ نیاز فتح پوری اور پروفیسر مجنوں گورکھپوری سے بھی سر زد ہوئی۔ ”

سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا یہ مضمون مصنف کے خیالات کی تنقید نہیں بلکہ اس سوچ کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنا ہے جس کا معروضی جائزہ لینے کا رجحان ہمارے ہاں کچھ ایسا تسلی بخش نہیں رہا۔

جیسا کہ اوپر کے دو حوالوں سے واضح ہے کہ عینی آپا پاکستان آنے کے بعد بہت اہم سرکاری عہدوں پہ فائز رہیں اور ان کے کیریر کو اگر بے مثل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کی ہندوستان واپسی کا باعث وہ تنقید بنی جو آگ کا دریا کی اشاعت کے بعد سامنے آئی۔ اس واقعہ کو دلیل بنا کے جوش، نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری کی پاکستان ہجرت کو ان کے غیر دانشمندانہ عمل کی مثال کے طور پر بیان کیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقسیم کے وقت جو ارباب فن ہجرت کر کے پاکستان آئے ان کی تعداد ان تین ناموں سے کہیں بڑھ کے تھی۔ یہ عمل 1947 سے لے کر اگلے 20 / 25 برسوں تک جاری رہا۔ نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری ساٹھ کی دہائی میں پاکستان آئے۔ ان کے علاوہ اس عرصہ میں بے شمار اہل فن پاکستان آتے رہے۔ ان میں نمایاں نام جے نخشب، افتخار عارف، شیون رضوی، ضیاء سرحدی، مصور اقبال مہدی، موسیقار ناشاد اور وجاہت مرزا کے ہیں۔

وجاہت مرزا کا ذرا تفصیلی تعارف کرا دیتا ہوں۔ آپ مشہور ہدایت کار اور مکالمہ نگار تھے۔ آپ مغل اعظم کے چار مکالمہ نگاروں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ دلیپ کمار کی بحیثیت فلمساز اکلوتی فلم گنگا جمنا اور محبوب کی آسکر کے لئے نامزد فلم مدر انڈیا کے مکالمہ نگار بھی تھے۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ سال 61 اور 62 میں مسلسل دو بار فلم فیئر ایوارڈ کے مستحق ٹھہرے۔ سوچیئے انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ دوسری طرف ہجرت کرنے والوں میں ایسے نابغہ روزگار بھی تھے جو تب عمر کے اس حصے میں تھے کہ جب یہ یقین ہو چلا ہوتا ہے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔

عمر کے اس حصے میں تو لوگ محلہ تبدیل کرنے کو راضی نہیں ہوتے کجا کہ وطن۔ سوچنے کا مقام ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا جو چند ہی سالوں بعد کراچی کے کسی قبرستان میں آسودہ خاک ہو گئے۔ جیسے سید سلیمان ندوی اور آرزو لکھنوی۔ بہر حال یہ یاد رہے ان میں کوئی بھی شخصیت ایسی نہ تھی جسے اس فیصلے پہ کوئی پچھتاوا ہوا ہو۔

اہل علم و فن کا اتنے بڑے عرصہ تک ہندوستان میں قیام کے بعد جلد یا بدیر ہجرت کا مشکل فیصلہ کرنا قابل غور ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے وہاں کے ماحول کو سازگار و موافق نہ پایا اور ہجرت کو ترجیح دی۔ یہ، جس تن لاگے سو تن جانے، کا مقام تھا جس کا ادراک ایسا آسان نہیں۔

عینی آپا کے حوالے سے آگ کا دریا پہ ردعمل کے نتیجے میں ان کا واپس لوٹنا اور پھر اسے مجموعی طور پر پاکستان میں غیر موافق ماحول کی دلیل بنانا درست سوچ نہیں۔ پاک و ہند کے معاشرے عدم برداشت کے رجحان کے حوالے سے ایک دوسرے سے کچھ ایسے مختلف نہیں۔ ان میں ان لوگوں سے رواداری کا سلوک یہاں کا طرز زندگی نہیں جن کے خیالات سے آپ متفق نہ ہوں۔ ایسا عینی آپا سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور بعد میں بھی۔ پہلے کی مثال شاعر مشرق کی ہے اور بعد کی ( پاکستان کے تناظر میں ) فیض احمد فیض کی۔ اسی طرح عینی آپا کے ایک ہم عصر کی مثال بھی کچھ کم نمایاں نہیں، میرا اشارہ سعادت حسن منٹو کی طرف ہے۔

عینی آپا نے پاکستان چھوڑا لیکن یہاں اپنا تعلق قائم رکھا۔ وہ کئی بار پاکستان آئیں۔ یہ بھی سن لیجیے کہ ہندوستان میں ان کی پذیرائی ان کے مرتبے کے مطابق نہیں ہوئی۔ قومی سطح پہ تیسرے درجے کا اعزاز پدم شری انہیں دیا گیا جبکہ کرکٹر سچن ٹنڈولکر پہلے درجے کے اعزاز بھارت رتنا کے حقدار ٹھہرے۔ سچن ٹنڈولکر کو تو خیر یہاں کافی لوگ کرکٹ سے دلچسپی کی بدولت جانتے ہیں، یہ بتا دیجئے بھرپن ہزاریکا کے نام سے عینی آپا کے مقابلے میں کون کون واقف ہے۔ وہ بھی بھارت رتنا پانے والوں میں شامل ہیں۔ میدان موسیقی اور تعلق تامل ناڈو سے۔ کشور ناہید کی کتاب ”شناسائیاں رسوائیاں“ کے مطابق ان کی وہ آبائی جائیداد جو سرکار نے بوجہ ہجرت ضبط کر لی تھی اس کی واپسی کے لیے انہیں تقریباً چار دہائیوں پر محیط جدوجہد کرنا پڑی پھر کہیں ستارے ان کے طرفدار ہوئے۔

جن بلاؤں کو میر سنتے تھے ان کو اس روزگار میں دیکھا

جوش کے معاملے میں ہمیں ان کا بھٹو دور کا اکرام ذہن میں رکھنا چاہیے جس کی قابل رشک تفصیل بہت سی کتب میں ملتی ہے۔ باقی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جوش اگرچہ غروب شمس کے بعد ہوش میں کم ہی ہوتے تھے لیکن بہ قائم ہوش و حواس بھی، میرے ہوش لے لو دیوانہ بنا لو، کی کیفیت میں پائے جاتے تھے۔ اس باب میں اور کچھ تو کیا کہا جائے بس اتنا بتا دیجئے کہ ڈپٹی نذیر احمد مرحوم کی املاء کی غلطیاں نکالنا اور جواب میں ”ساقی“ کے جوش نمبر کی صورت جگ ہنسائی کا سامنا کرنا کہاں کی دانش مندی تھی۔ اس پہ بھی اگر کوئی کہے کہ۔

ع۔ بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
تو کیا کیجے۔

دوسری مثال۔ جب بھٹو صاحب کے دور کے خاتمہ کے بعد ان کی پہلے والی حیثیت اور مراعات قائم تھیں کہ 1978 میں انہوں نے ایک متنازعہ فیہ انٹرویو داغ دیا۔ اس کے نتیجہ میں، پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، کے دور کا سامنا ہوا لیکن صدر ضیاء الحق کی حکومت نے پھر بھی کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا اور چند ہی ہفتوں بعد ان کی پہلے والی مراعات بحال کر دیں۔

نیاز فتح پوری کو 1962 میں پدم بھوشن کا اعلی اعزاز ملا۔ اس کے باوجود ہجرت کا فیصلہ قابل توجہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ مذہب کے حوالے سے جس طرح کی ”روشن خیالی“ کے پرچارک تھے وہ گروہ عام میں ایسی مقبول نہ تھی۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس وقت ہجرت کا فیصلہ کیا جب پاکستان میں ”ناموافق حالات“ کی وجہ سے عینی آپا کو لوٹے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا۔

وہ یہاں آنے کے کچھ ہی سالوں بعد وفات پا گئے اور اس دوران بوجہ مروت یا بے خبری ناموافق حالات کی دست برد سے محفوظ رہے۔

مجنوں گھور کھپوری بھی اسی دور میں پاکستان آئے۔ وہ زیادہ عرصہ علی گڑھ میں شعبہ تدریس سے وابستہ رہے تھے۔ اس ہجرت کدہ میں وہ اسی شعبے میں کراچی یونیورسٹی سے پنشن یافتہ ہونے تک منسلک رہے۔ انہیں 1982 میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ یہ اس دور میں ہوا جسے ارباب علم و فن کی اکثریت دور سیاہ کے ناپسندیدہ نام سے یاد کرتی ہے یعنی جنرل ضیاءالحق کا دور۔

حیرت کی بات ہے کہ ان دو اصحاب نے نہ تو خود کبھی اپنے فیصلے پہ پچھتاوے کا اظہار کیا اور نہ ہی یہاں کسی پریشانی سے دوچار ہوئے۔ معلوم نہی مضمون نگار نے اپنے دعوی کی موافقت میں ان مثالوں کا سہارا کس بنیاد پر لیا۔

عدم برداشت یا ناقدری بدقسمتی سے واہگہ کے اس یا اس پار کم و بیش ایک ہی درجہ میں پائی جاتی رہی ہے۔ یہاں اس کا شکار ہونے والوں میں سیاست کو موضوع بنانے والے حبیب جالب اور استاد دامن قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک واہگہ کے اس پار کی بات ہے، اس کی چند مثالوں کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں۔

اوپندر ناتھ اشک جیسا اردو کا مہان لکھاری، منٹو میرا دشمن، جیسے شاہکار خاکے کا خالق، کس ناقدری کا شکار ہوا ذرا رضا علی عابدی کی زبانی سن لیجیے۔

”واپس الہ آباد چلے گئے لیکن و ہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتا چلا اوپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے۔ اور یہ کہ بددیانت سرکاری افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ اتنے بڑے ادیب اور شاعر کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ معاشرے کے منہ پہ تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی۔“

کالم، اشک میرا دوست، روزنامہ جنگ۔ 28۔ 5۔ 2021

ہندوستان کے تیسرے صدر ذاکر حسین سید کے بھتیجے مسعود حسین جو علی گڑھ میں پروفیسر اور جامعہ ملیہ کے سربراہ رہے اپنی سوانح ”ورود مسعود“ میں لکھتے ہیں کہ اقبال کو نظریہ پاکستان کا بانی سمجھتے ہوئے آزادی کے بعد تقریباً ایک دہائی تک کسی صاحب علم کو ان پہ قلم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔

دونوں ملکوں کے غیر موافق حالات کے تناظر میں عینی آپا کا یہاں سے واپس جانا اور وہاں سے ارباب فن کا مسلسل آتے رہنا درحقیقت دو مختلف رویوں کے باعث ہوا۔ یہاں اس کا سبب مصنفہ کی سوچ سے اختلاف تھا جبکہ وہاں اس کا سبب جرم مسلمانی تھا۔ یہ جرم پہلے تو کسی درجے میں برداشت کر لیا جاتا تھا لیکن مودی جی کے سنگھاسن آرا ہونے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ روا ہوا اس کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ۔

کسی بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری

بس آخر میں جاوید اختر کی مثال دیکھ لیں۔ وہ دور حاضر کے ہندوستانی علم و فن کے افق پر چمکتا ایسا چاند ہیں کہ ان کے سامنے کوئی اور چاند سر آسماں ٹھہرنے نہ پائے۔ ان کا خاندانی حوالہ بھی دیکھ لیجیے اور بیگم شبانہ اعظمی کے اماں، ابا کو اپنے اپنے میدانوں میں حاصل شرف کو بھی ذہن میں رکھیئے۔ جاوید اختر علی الاعلان کہتے ہیں کہ وہ مذہب پہ یقین نہیں رکھتے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کا بہانہ اکثر کسی نا کسی طور تلاش کر لیتے ہیں کہ وفاداری بشرط استواری کا وشواس بھی کراتے رہنا مجبوری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی طرف سے آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کے محتاط سے ذکر پر ایسا شدید ردعمل سامنے آیا کہ جلوس نکلا اور ان کا پتلا نذر آتش ہوا۔

سوچتا ہوں ٹی وی پہ یہ منظر دیکھ کے انہوں نے دل ہی دل میں اس کے سوا اور کیا کہا ہو گا۔
ع۔ یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments