سیاسی پتلی تماشا اور ہم


گزشتہ کئی ایام سے سیاسی ماحول کی گرما گرمی نے تمام پاکستانی من چلوں اور سوشل میڈیا کے بے کار مصروف لوگوں کی دل بستگی کا سامان فراہم کیا ہوا ہے۔ لوگ مہنگائی کو بھول کر عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی پر لاحاصل گفتگو میں مصروف ہیں، ہر شخص سیاسی تجزیہ کار ہے تو ہر فرد مجھے بین الاقوامی اور قومی سیاست میں ڈاکٹریٹ کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ آپ جہاں بھی چلے جائیں، عوام کا موضوع گفتگو سیاست کو ہی پائیں گے۔

مداری اپنا کھیل جما چکے ہیں۔ کہیں دھرنے تو کہیں ہارس ٹریڈنگ کی باتیں، کہیں جلاؤ گھیراؤ، کہیں کروڑوں میں بکنے والے لوٹوں پر لعنتیں بھیجی جا رہی ہیں تو کہیں ان کو شاباش دی جا رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی گرانی، خاندانی نظام کی بربادی اور معاشی مسائل کو بھول کر ہم سب علی بابا اور اس کے چالیس چوروں کی فرسودہ اور پرانی کہانیوں کے ایک بار پھر پیچھے پڑ گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے دیہاتوں میں پتلی تماشا کرنے والے آتے تھے جن کے پاس کپڑے سے تیار شدہ گڑیا نما مختلف اشکال کی پتلیاں ہوتی تھیں۔

ایک ماہر کاریگر اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں کی مدد سے ان کو نچانے کے ساتھ ساتھ اپنے منہ سے مختلف آوازیں نکال کر نہ صرف ان کے کردار پر روشنی ڈلواتا تھا بلکہ طبلے اور سازینے کی تھاپ پر ہر نئی شکل کی پتلی کو کسی نہ کسی گانے پر نچوانے کا کام بھی کرتا تھا۔ انہی پتلیوں کے سردار کا نام پاٹے خان ہوتا تھا، پاٹے خان ہی ہر اس پتلی تماشے کی جان بھی ہوتا تھا اور ان سب کرداروں کو اٹھانے بٹھانے، ان سے باتیں کرنے اور سزا جزا دینے کا اختیار رکھتا تھا۔

موجودہ سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران مجھے آج اسی پاٹے خاں کا کردار حقیقی محسوس ہو رہا ہے۔ آج بھی سیاسی پاٹے خان تمام پتلیوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے کے ساتھ ساتھ سیاسی سٹیج پر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لئے ان کی جگہ بدل رہا ہے اور ہم تماشائیوں کی طرح تالیاں پیٹنے اور نعرے لگانے میں مصروف ہیں، اسی دوران یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی پتلی کا کردار زیادہ پسند آئے تو نوٹ کے ساتھ ساتھ اپنی جان بھی نچھاور کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم کو دیکھ لیں، سیاسی گرما گرمی اور مارا ماری میں ہمیں صف اول میں سفید پوش، کم تعلیم یافتہ اور ذہنی طور پر پسماندہ لوگ ہی ملیں گے جن کو آج تک اتنا سیاسی شعور بھی نصیب نہیں ہو سکا کہ ہمارے ملک کا نظام تو کوئی رہنما تبدیل نہیں کر سکا لیکن چہرے بدلنے کی بھی حاجت محسوس نہیں کی گئی، کل کے وفادار، آج کے غدار اور آج کے غدار، کل کے وفادار بن جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے عوام کے کان پر جوں تک بھی رینگتی ہو۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی کا آغاز قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہوا، جب بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ نے تمام سیاسی پتلیوں کی ڈور اپنی انگلیوں میں رکھنے کے ساتھ ساتھ، سیاسی پاٹے خان بھی اپنی مرضی اور شرائط پر منتخب کرنے شروع کر دیے۔ اقتدار کے محلات کی غلام گردشوں نے سکندر مرزا، ملک غلام محمد، چوہدری محمد علی، بوگرہ، ایوب خان اور یحییٰ خان کے بعد نہ صرف سقوط ڈھاکہ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے بلکہ اس کے بعد بھٹو کے عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کی سازشوں کے تانے بانے بھی انہی غلام گردشوں میں بنے گئے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری عوام کو اصل کہانی کا نہ ماضی میں علم ہوا اور نہ ابھی تک اس کو اتنا سیاسی شعور ہے کہ وہ کہ ان سازشوں کو سمجھ سکیں۔

آج بھی ہمارے قومی اسمبلی کے حلقہ میں پچیس ہزار سے تیس ہزار ووٹ صرف پیپلز پارٹی کا ہے جو صرف ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نام پر ان کے سیاسی وارث زرداری خاندان کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں، قصبوں اور میٹرو پولیٹن کی اکثریت آج بھی نواز شریف اور اس کے وارثان کو اپنا قیمتی ووٹ ہر وقت دینے کو تیار ہے۔ بر سر اقتدار پارٹی کے اکثر ورکر سے سے تو میں خود واقف ہوں کہ جب وہ اشیائے ضرورت لینے کسی دکان پر جاتے ہیں تو وہ تحریک انصاف کو دل ہی دل میں اور بعض اوقات با آواز بلند گالیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جیسے ہی سوشل میڈیا پر اپنے محبوب لیڈر کا کوئی پرجوش بیان سنتے ہیں، ان کے جذبات کا ابلتے لاوے کا رخ، اپنی توپوں سمیت زرداری اور نواز شریف کی طرف ہو جاتا ہے اور اس میں تھوڑا بہت حصہ مولانا فضل الرحمان کو بھی عنایت کر دیا جاتا ہے۔

سیاسی شعور سے بے بہرہ عوام نے آج تک کسی بھی حاکم کا احتساب کرنے کا نہیں سوچا، اقتدار کا ہما جس بھی رہنما کے سر پر بٹھایا گیا، اس نے نہ صرف دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ اس اقتدار کو اپنی وراثت سمجھ کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیم یافتہ اور جدید سوشل میڈیا کے افلاطون حضرات کی بھی بات کی جائے تو آج بھی اس بدو سے کم شعور رکھتے ہیں جس نے مال غنیمت کی چادروں کی تقسیم پر حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر خلیفہ کا احتساب کیا تھا۔

آج بھی شخصیت پرستی میں قبل از اسلام کی اقوام سے کم نہیں ہیں۔ دیہی علاقہ جات کی سیاست کا تو میں اس حد تک واقف ہوں کہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک سیاسی جماعت کی رنگ اور لوگو والی ٹوپیاں، مفلر اور اپنے سیاسی امیدوار کے پینا فلیکس ہم روزانہ کی بنیاد پر پورا نہیں کر سکتے تھے، ہمارے لوگوں کی سوچ اپنے ہمسائے اور رشتہ دار کی مخالفت سے شروع ہوتی ہے اگر ہمارے کسی ہمسائے نے تحریک انصاف کا جھنڈا یا پینا فلیکس اپنے گھر کے باہر لگا لیا اور ہماری اس سر شکر رنجی ہے تو لامحالہ ہم نے مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کو ہی سپورٹ کرنا ہو تا ہے اور اس کے گھر کیے جھنڈوں کی تعداد سے زیادہ اور بلند جھنڈے لگانا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہماری عوام کو کاسہ لیسی، خوشامد اور شخصیت پرستی جیسی سیاسی بیماریاں تقسیم پاکستان کے بعد ورثے میں ملی ہیں لیکن موجودہ دور میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹی اور افواہ پر مبنی پوسٹس، مباحث اور ٹاک شوز نے ہماری عوام کی اذہان سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ہمارے بھولے بھالے اور سیاسی فہم سے نابلد لوگوں کے پاس نہ تو کوئی ایسا پیمانہ ہے جس کو معیار بنا کر وہ کسی بھی خبر یا سکینڈل کی صداقت کو جانچ سکیں اور نہ ہی ہماری جذباتی قوم کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ کان کو دیکھنے کی بجائے کتے کے پیچھے نہ بھاگیں۔

ہمیں بہ حیلہ مذہب اور وطن ہر دور میں نہ صرف لوٹا جاتا ہے بلکہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی پاٹے خان ہمیں فروخت کرنے کے بعد اپنا اپنا حصہ وصول کر کے غیر ممالک کو سدھار جاتے ہیں لیکن پتلی تماشے کے ادا کار اور ہدایت کار اپنے اپنے کرداروں کو سنبھال کر پھر تماشا لگانے کے منتظر ہوتے ہیں اور جیسے ہی سیاسی موسم سازگار ہوتا ہے، وہ اپنی پٹاری سے وہی زنگ آلود پرانے، مدقوق چہروں کو پالش کر کے ہمارے سامنے پھر ڈرامہ کرنے آ جاتے ہیں۔

یہ کردار کھوسے، مزاری، لغاری، دریشک، گیلانی، ممدوٹ، اعوان، گردیزی، قریشی یا نون بھی ہو سکتے ہیں یا پھر اٹک کو گوندل، میانوالی کے نیازی، سرگودھا کے ٹوانے اور نون اور بہاولپور کے نوابین کی صورت میں ہم پر مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ لیکنس وال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمین ابھی تک کوئی بھی ایسا رہبر اور رہنما نہیں ملا جس کو ان کے علاوہ بائیس کروڑ عوام میں قوم کو کوئی مخلص انتخابی امیدوار ملا ہو۔ سیاست کی گھڑ دوڑ میں جیتنے کے لئے ہمیشہ ہی الیکٹیبلز کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان الیکٹیبلز کو ہی ہم عوام کی بنیادی کمزوریوں اور مجبوریوں کی خبر ہوتی ہے۔

ان الیکٹیبلز کی اپنے حلقے کے تمام سیا سی شرفا اور ان کی خامیوں پر گہری نظر ہوتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہی چلا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں۔ کاش، ہماری قوم کے نصاب میں سیاست فہمی کا نصاب بھی ہو، کاش کوئی ایسا معلم ہو جو رحمت العالمین ﷺ اور خلفائے راشدین کے سیاسی اور سماجی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کے دل میں گھر کر جائے، کاش ہماری قوم جذباتی اور کھوکھلی تقریروں اور نعروں کے سحر سے آزاد ہو کر بحیثیت قوم سوچتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کرے تاکہ وہ اپنا ضمیر کروڑوں میں بیچنے کی بجائے قومی فلاح و بہبود کو سامنے رکھ کر فیصلے کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments