ڈاکٹر ایچ ایم اے ڈریگو: انسانیت کا عظیم خدمت گار


انسانیت اور خدمت ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں بالکل اسی طرح ڈاکٹر اور انسانیت کی خدمت بھی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پاکستان کے قیام سے قبل اور آج تک مسیحی مذہب کے لوگوں نے ملکی ترقی، فلاح و بہبود اور استحکام کے لئے جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ کا ایک ایسا سنہری باب ہے جو روز ہمیشہ دمکتا رہے گا۔ لیکن شعبہ تعلیم اور صحت میں اس قوم کے لوگوں کی خدمات انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسز نے مذہب، ذات، رنگ، نسل اور معاشی استحقاق کو پس پردہ ڈال کر انسانیت کی ایسی خدمت کی کہ لوگ اس کی مثال دیتے ہیں۔

آج بھی آپ کی ملاقات ایک ایسی ہی شخصیت سے کروائیں گے جنہوں نے انسانیت سے محبت اور خدمت کی ایسی لازوال داستان رقم کی ہے جو سندھ بالخصوص میرپور خاص کی عوام کے دلوں پر نقش ہے۔ اس آرٹیکل کے لئے مجھے خصوصی طور پر کراچی سے میرپور خاص جانا پڑا۔ میری ڈاکٹر ڈریگو کے نام سے واقفیت گزشتہ سال ہی ہوئی جب میں کا تھولک ڈایوسیس حیدرآباد کے بشپ سمسن شکردین کے ہمراہ ایک پروگرام کے لئے میرپور خاص گیا۔ وہ مجھے ڈاکٹر ڈریگو کے گھر ساتھ لے کر گئے اور ان کی فیملی سے تعارف کروایا۔

میں نے تب سے ہی ارادہ کیا کہ اس عظیم شخصیت کی خدمات سے نئی نسل کو ضرور روشناس کروانا چاہیے۔ اپنی مصروفیات کی وجہ سے میں کام کو بھول گیا لیکن عثمان جامعی صاحب مجھے مسلسل یاد دہانی کرواتے رہے۔ آخر کار میں گزشتہ دنوں کراچی سے میرپور خاص جاکر ڈاکٹر ڈریگو کی فیملی سے ملا۔ ان کی نجی زندگی، خدمات، لوگوں کے ساتھ رویے اور انسانی خدمت کے جذبے کے بارے میں انتہائی اہم اور شاندار معلومات ملیں۔ میں ڈاکٹر ڈریگو کی بیٹی ڈاکٹر فیلومینا جانس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھ سے تعاون کیا اور ڈاکٹر ڈریگو کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر ڈریگو کون تھے، میرپور خاص میں ان کی خدمات کیا تھیں؟ لوگ ان کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

اور آج کی نسل کو خصوصاً شعبہ طب سے وابستہ افراد کے لئے ان کی زندگی کیسے مشعل راہ ہو سکتی ہے؟ کس طرح ہمارے معاشرے میں انسانی ہمدردی مختلف مذاہب کے درمیان آہنگی کو فروغ دیتی رہی اور ہمارا ملک کیسے انسانی ترقی کے ذریعے اپنے مسائل پر قابو پا سکتا ہے۔ اس آرٹیکل میں بات کریں۔

Hermenegildo Marcos Antonio Drago، ایک پاکستانی کا تھولک مسیحی ڈاکٹر تھے جو سندھ کے پس ماندہ علاقوں میں صحت، تعلیم اور سماجی فلاح و بہبود میں اپنے کام کی وجہ سے قابل احترام شخصیت کے حامل تھے۔ ڈاکٹر ڈریگو 28 فروری 1907 کو بھارت کے شہر گوا میں پیدا ہوئے، انہوں نے سینٹ زیویئر کالج، بمبئی اور گرانٹ میڈیکل کالج سے گریجویشن کیا۔ 1933 میں وہ میرپور خاص، سندھ پاکستان آ کر قیام پذیر ہو گئے۔ ڈاکٹر ڈریگو گوینر کیمونٹی سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ان کا خاندان اور کیمونٹی یہ چاہتی تھی کہ وہ وکیل بنیں۔ ڈاکٹر ڈریگو نے اپنے خاندان کی خواہشات کے برعکس ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا اور اس سے بڑھ کر اپنے پروفیشن سے انسانیت کی لازوال خدمت کو سرانجام دینے کا عہد کیا۔

اس سلسلے میں انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ چونکہ ڈاکٹر ڈریگو کے خاندان کی مالی اور سماجی حیثیت کافی بہتر تھی اس لئے ان کے پاس کافی زمین اور دیگر سہولیات تھیں جس کی وجہ سے ہی انہوں نے اس وقت کے بہترین اور نامور میڈیکل کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ڈاکٹر ڈریگو اکثر کہا کرتے تھے کہ جب وہ اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ خدا نے انہیں بے شمار سہولیات اور نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس لئے انہیں ایسے لوگوں کی مدد کرنی ہے جو ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ روزنامہ ڈان میں معروف ادیب ڈاکٹر آصف فرخی نے ڈاکٹر ڈریگو سے کیے جانے والے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب کی زبانی ان کی زندگی کی کہانی یوں بیان کی ہے۔

”ڈریگو صبح کے وقت تقریباً بیس مریضوں کا معائنہ کرتے تھے، ان کی بیماریوں کا علاج تجویز کرتے اور اس حوالے سے مختلف رجسٹروں میں بیماری کے حوالے سے تفصیل درج کرتے تھے۔ ڈاکٹر ڈریگو کا تعلق بھارتی شہر گوا سے تھا، وہ 28 فروری 1907 کو گوا میں پیدا ہوئے۔ ان کی بیوی انھیں ہرمی کہتیں تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے میٹرک گوا سے کیا۔ ان کے خاندان کا پیشہ زمینداری تھا، لیکن انھوں نے اپنے خاندانی زمینیں نہایت ہی سستے داموں اپنے کسانوں کو بیچ دیں۔

بمبئی میں انھوں نے سینٹ زیویئر کالج میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے گریجوایشن گرانٹ میڈیکل کالج سے 1933 میں حاصل کی، تاہم بمبئی میں انھوں نے بہت ہی برا وقت گزارا۔ چوں کے انہیں دمہ ہو گیا تھا اس لیے وہ کوئی اعزاز یا نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ ان کے نانا آٹھ کے جتھے میں گرانٹ میڈیکل کالج کے پہلے گریجویٹ تھے۔ انھوں نے جراحی اور علم الابدال میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر ڈریگو کے ماموں نے چار مضامین میں امتیازی حیثیت سے گریجویشن مکمل کی۔ ڈاکٹر کے دادا جن کے ڈاکٹر ڈریگو اسم برادر بھی تھے، پہلے ہندوستانی تھے جن کا برصغیر میں جج کی حیثیت سے تقرر کیا گیا تو لوگ ڈاکٹر ڈریگو سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ ایم بی بی ایس سے فقط رگڑ نکلنے کے بجائے کچھ اور بھی کر کے دکھائیں گے۔“

1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت مہاجرین سے لدی ٹرینیں میرپور خاص کے قصبے میں پہنچیں تو ڈاکٹر ڈریگو زخمیوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کے لیے رضاکاروں کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر انتظار کرتے رہے اور ان کی تیمارداری کرتے ہوئے انہیں اپنے گھر میں قائم کلینک میں پناہ دی۔ ان کی اس عظیم خدمت کے لیے انہیں 1950 میں پوپ پائس نے سینٹ گریگوری دی گریٹ کے آرڈر میں نائٹ کے خطاب سے نوازا۔ (یہ خطاب کا تھولک چرچ کی جانب سے دنیا بھر میں اعلیٰ انسانی و سماجی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے )

بیماروں اور ضرورت مندوں کے لیے ڈاکٹرڈریگو کی لگن اور محبت نے انہیں تپ دق کی ایسوسی ایشن اور اینٹی نیٹل کلینک شروع کرنے پر متحرک کیا، جسے بعد ازاں خون کی کمی اور اس سے متعلقہ مسائل سے متاثرہ بہت سی خواتین کے فائدے کے لیے مدر اینڈ چائلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن میں تبدیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی مدد سے انہوں نے اپنے کلینک کے ایک کمرے میں ان مریضوں کے لیے جذام کا مرکز بھی شروع کیا جنہیں علاج کے لیے کراچی جانا پڑتا تھا۔

1981 میں انہوں نے پولیو سے متاثرہ بچوں کی بحالی کے لیے ایک سرکاری کمیٹی میں بھی اپنی خدمات سر انجام دیں۔ انہوں نے میرپور خاص اور اس کے گردونواح میں مختلف قسم کے ادارے شروع کیے۔ جذام، تپ دق کے علاج اور روک تھام کے علاوہ اسکول چھوڑنے والوں بچوں کے لیے خصوصی وظائف کا بھی اہتمام کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے میڈیکل مشن سسٹرز کے ساتھ بھی مل کر بھی کام کیا جو میرپور خاص میں سینٹ ٹریسا ہسپتال اور کراچی میں ہولی فیملی ہسپتال چلاتی ہیں۔

تعلیم و تربیت میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے انہوں نے 15 مراکز قائم کیے جن میں 5 سے 12 سال کی عمر کے بچوں کو پڑھنا، لکھنا اور ریاضی سکھائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے ”یونائیٹڈ یوتھ فار اے یونائیٹڈ ورلڈ“ نامی تنظیم کے ذریعے پروگرام شروع کیا۔ ڈاکٹر ڈریگو نے مختلف کمیونٹیز کے نوجوانوں کو چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس پر اکٹھے کام کرنے کے لیے متحد کیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی میں آگے بڑھ سکیں۔

وہ روٹری کلب آف میرپور خاص کے چارٹر ممبر تھے۔ وہ نئے قائم کردہ روٹری ڈسٹرکٹ 327 کے پہلے ضلعی گورنر تھے۔ 1994 میں ڈاکٹر ڈریگو کو سروس اباوو سیلف کے لیے روٹری انٹرنیشنل ایوارڈ ملا۔ روٹری کلب کی خاطر خواہ شراکت سے 1973 میں مقامی اور غیر ملکی عطیہ دہندگان کی مدد سے ایک ملٹی پرپز سنٹر کا افتتاح ہوا اور اس کی پہلی منزل کلب کی طرف سے گولڈن جوبلی گفٹ کے طور پر ڈاکٹر ڈریگو سکول اینڈ گرلز کالج کو عطیہ کی گئی۔ ڈاکٹر ڈریگو کو 1967 میں پہلے تمغہ پاکستان اور پھر 2002 میں بعد از مرگ ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر ڈریگو کی خدمات پناہ گزینوں کی مدد سے لے کر بڑی بیماریوں کے علاج اور روک تھام، تعلیم اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت تک وسیع تھیں۔

ان کی بیٹی ڈاکٹر فیلومینا جونسن نے اپنے والد کی نجی زندگی کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت ہی حلیم اور نرم مزاج کے انسان تھے۔ وہ دنیا کے بہترین والد تھے۔ انہوں نے کبھی بھی ہم پر دباؤ نہ ڈالا کہ ہم یہ پڑھ لیں یا وہ کر لیں۔ انہیں اس بارے میں کبھی پریشانی ہوئی نہیں بلکہ جب بہت چھوٹی عمر میں نے ان کو لوگوں کو میڈیسن دیتے ہوئے دیکھا اور لوگ تندرست ہو جاتے تھے تب سے میں نے سوچ لیا تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں گی۔ ڈاکٹر فیلومینا نے بتایا کہ وہ ہمیشہ لوگوں کی مدد اور رہنمائی کرنے کے لئے تیار رہتے خاص طور پر غریب اور بے سہارا لوگوں کے لئے ان کا دل دھڑکتا تھا۔

کیونکہ ڈاکٹر ڈریگو کے تعلقات ہر سطح کے لوگوں کے ساتھ تھے وہ میرپور خاص کے کئی بڑے خاندانوں کے فیملی ڈاکٹر تھے اس لئے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے غریب لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ بہت سارے لوگ ڈاکٹر ڈریگو کے نام کی وجہ سے دوردراز علاقوں سے اونٹوں پر سفر کر کے راتوں کو ہمارے گھر میں آ جاتے تھے لیکن ڈاکٹر ڈریگو ہمیشہ ہمدردی اور خلوص کے جذبے سے پیش آتے۔

ڈاکٹر فیلومینا کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ڈریگو کی انسانی، سماجی اور فلاحی خدمات میں ان کی بیوی یعنی ہماری والدہ کا بہت اہم کردار ہے۔ امی نے کبھی بھی گھریلو ذمہ داریوں کو ان کے کام میں خلل نہیں ڈالنے دیا۔

کاتھو لک ڈایوسیس حیدرآباد کے بشپ سمسن شکردین نے ڈاکٹر ڈریگو کی زندگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بہت ہی اچھے کا تھولک مسیحی تھے جنہوں نے مذہب، رنگ، نسل، زبان اور ذات پات کی تفریق کے انسانیت کی خدمت کی۔ وہ انسانیت کی اجتماعی ترقی کے لئے کوشاں تھے اس لئے انہوں نے اپنی صلاحیتوں، تعلقات اور سماجی مرتبے و اثر و رسوخ کو بہترین انداز میں استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت، مذہبی ہم آہنگی اور انسانیت کی بقاء کو فروغ دیا۔

ڈاکٹر ڈریگو کا انتقال 16 جنوری 1999 کو میرپور خاص 93 برس کی عمر میں ہوا۔

معروف صحافی اختر بلوچ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ میرپور خاص کے سینئر صحافی سلیم آزاد کے مطابق میرپور خاص کے شہری چاہتے تھے کہ ڈاکٹر ڈریگو کی تدفین مسیحی قبرستان کے بجائے ایک ایسی جگہ کی جائے جہاں ان کی خدمات کے حوالے سے کتبے موجود ہوں۔ جن پر ان کی زندگی اور خدمات کا ذکر ہو تاکہ آنے والی نسلوں کو ان کی خدمات کے حوالے سے آگاہی ہو، لیکن جب ان کے خاندان نے یہ فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی تدفین میرپور خاص کے بجائے کراچی کے گورا قبرستان میں ہوگی تو لوگ خاصے مایوس ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب کی تدفین کراچی میں کیوں ہوئی اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے بھانجے ٹونی ڈریگو نے بتایا کہ ان کی بیوی ارجنٹینا نے کہا کہ میرپور خاص میں ان کے رشتے داروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے وہ بضد تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کی تدفین کراچی میں ہو۔ اور یہ ہو بھی گئی۔ ڈاکٹرصاحب کی بیوی کا انتقال ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے تقریباً دو برس بعد ہوا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ بضد تھیں کہ ان کی تدفین کراچی کے بجائے میرپور خاص میں کی جائے۔ ”

شام تو ہر روز ہوتی ہے لیکن میرپور خاص کی شام بڑی خاص ہوتی ہے۔ سورج آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا میں نے ڈاکٹر ڈریگو کی فیملی سے اجازت لی اور واپس اپنی منزل کراچی کی طرف لوٹنے کے لئے روانہ ہوا۔ میرپور خاص کی ہواؤں میں ایک عجیب سی مانوس رومانی کیفیت تھی جو میری روح کے اندر تک اتر چکی تھی اور میری سوچوں کے سوالوں کے جواب دے رہی کہ ڈاکٹر ڈریگو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس چھوٹے مگر خوبصورت اور خاص شہر میں ہی کیوں رکے، اتنی دیر میں میرا گائیڈ مجھے میرپور خاص کے ریلوے اسٹیشن پر لے گیا اور میری خاموشی کو محسوس کر کے کہنا لگا،

”آپ ڈاکٹر ڈریگو کی زندگی کے بارے میں کیوں لکھ رہے؟“ میں نے جواب دیا اس سوال کے جواب کی تلاش تو مجھے بھی ہے لیکن میرپور کی فضا میں ڈاکٹر ڈریگو کی پر مسرت مسکراہٹ، خلوص اور پروقار شخصیت کی مہک آج بھی محسوس ہو رہی ہے شاید یہ پر سکون فضا ہی تھی جو مجھے یہاں لے آئی ہے یا انسانیت کے عشق میں مبتلا ایک سچے عشق کی محبت جو انسانوں سے محبت کی عظیم داستان رقم کر گیا۔ بس میرے اس سوال کے جواب کی تلاش جاری ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments