افسانہ لکھ رہی ہیں


اس وقت حال ہی میں چھپے اردو افسانوں کا مجموعہ ”گونجتی سرگوشیاں“ میرے ہاتھ میں ہے۔ اس افسانوی مجموعے کی انفرادیت یہ ہے کہ تمام افسانے نوجوان خواتین افسانہ نگاروں کے فکر و فن کا شاہکار ہیں۔ اردو زبان میں اس سے قبل بھی ایسی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ معروف ادیبہ کشور ناہید نے ایک افسانوں پر مشتمل ایک مجموعہ شائع کیا تھا جس کا نام ہے ”خواتین افسانہ نگار“ اس کتاب میں 23 افسانے شامل ہیں، جو سب کے سب معروف خواتین افسانہ نگاروں نے لکھے ہیں۔ اگرچہ شعر و ادب کے تخلیقی عمل کو کسی خاص جنس سے وابستہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ تخلیق کار صرف تخلیق کار ہوتا ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے مگر ہمارے معاشرے میں عورت کے اس طرح کے تخلیقی کام کو اس لیے زیادہ پذیرائی ملتی ہے اور ملنی بھی چاہیے کہ ہم نے بد قسمتی سے ابھی تک عورت کو انسان کا درجہ دیا ہی نہیں ہے۔ جس معاشرے میں معاشرتی جبر کا یہ حال ہو کہ شوہر اپنی بیوی کو معمولی بات پر تشدد کر کے بری طرح زخمی کر دے، بازو یا ٹانگ توڑ ڈالے اور پھر سماج کے طعنوں کی وجہ سے اسے ہسپتال لے جانے کی جرات بھی نہ کر سکے، اس معاشرے میں عورت کے حقوق کی پامالی کا کیا حال ہو گا۔

پیارے وطن میں آج بھی کچھ علاقوں میں عورت گوشت نہیں کھا سکتی، چپل نہیں پہن سکتی، کسی بھی امر میں اپنی رائے نہیں دے سکتی۔ عورتوں کے حقوق کی دستیابی کے حوالے سے ہمارا ملک نچلے ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ایک لرزہ خیز رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سال کے دوران میں پنجاب کے چھتیس اضلاع سے چالیس ہزار سے زائد خواتین کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض حرماں بخت اور سیاہ مقدر تو ایسی ہیں جن کی اب تک مسخ شدہ اور کٹی پھٹی لاشیں بھی نہیں مل سکیں۔

عورتوں کو مختلف غیر انسانی رسموں کی بھینٹ چڑھانے سے گھریلو تشدد اور کم سنی کی شادی تک بے شمار مظالم اس پر مستزاد ہیں۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم کے آبائی علاقے سے ایک اندوہ ناک، دردناک اور افسوسناک خبر آئی کہ ایک درندہ صف اور وحشی باپ نے اپنی سات دن کی بیٹی کے پھول جیسے نرم و نازک جسم میں پانچ گولیاں اتار دیں۔ نومولود کا واحد جرم ضعیفی بیٹی ہونا تھا۔ اس سانحے پر پورا ملک دلگیر اور نوحہ کناں ہے۔

ہمارے ہاں خواتین نے انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس فن میں ایسی باکمال اور بے مثال ہستیاں پیدا کیں کہ اقلیم ادب جن کی ضیا پاشیوں سے جگمگ کرنے لگا۔ قرة العین حیدر، ممتاز شیریں، ذکیہ مشہدی، عصمت چغتائی، صغریٰ سبزواری، جیلانی بانو، ڈاکٹر رشید جہاں، حجاب امتیاز علی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، بانو قدسیہ، خالدہ حسین اور وحیدہ رحمٰن۔ کس کس کا نام لیا جائے۔ یوں سمجھیں کہ ایک قوس قزح ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک رنگ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

ان خواتین کے افسانوں میں موضوعات و مضامین کا ایسا تنوع اور اسلوب بیان کا ایسا بانکپن اور زبان و بیان کا ایسا منفرد سلسلہ ملتا ہے کہ قارئین ششدر رہ جاتے ہیں۔ ان خواتین نے بڑی جوانمردی اور جگر کاوی سے مذہب کے نام پر غلامی، معاشرتی نا انصافیوں، اور معاشی و نفسیاتی ناہمواریوں کا پردہ کچھ اس انداز سے چاک کیا کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر یا اکیسویں صدی کے شروع میں ترنم ریاض، غزالہ ضیغم، تبسم فاطمہ، ثروت خان، شائستہ فاخری اور شبانہ رضوی سمیت بہت سی نوجوان خواتین نے افسانہ لکھنا شروع کیا۔

انہی خواتین میں ”گونجتی سرگوشیاں“ کی سات افسانہ نگار شامل ہیں جنہوں نے افسانے کی صنف میں موضوعات اور اسالیب کے حوالے سے تازگی، ندرت اور جدت پیدا کی۔ ان خواتین نے مٹتی تہذیب، رواں دواں زندگی کی دھول میں گم ہوتے رشتوں کی کرب انگیز داستان، فرقہ واریت، دہشت گردی، خواتین کے ساتھ سفاکانہ سلوک، جنسی گھٹن، شادی شدہ عورت کی ناآسودگی، معاشرتی و معاشی نا انصافیوں کی کتھا اور سیاسی و سماجی شعور کی آبیاری جیسے سلگتے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔

اس کتاب میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی سات خواتین کے افسانے شامل ہیں۔ یہ سات پھولوں کا مہکتا گلدستہ ہے، قوس قزح کے سات رنگ ہیں یا موسیقی کے سات سر ہیں۔ پہلا پھول سکھر سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ابصار فاطمہ کی شکل میں کھلا ہے۔ افسانوں کا دوسرا مہکتا لہکتا پھول افغانستان کی ثروت نجیب کی تخلیقی صلاحیتوں کا بے باک اظہار ہے۔ تیسرا رنگ اسلام آباد کی حساس طبع سمیرا ناز کا ہے۔ اس گلدستے کا چوتھا رنگ صفیہ شاہد کے شاہکار افسانوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ پانچواں نام اسلام آباد ہی کی باسی فاطمہ عثمان کا ہے۔ چھٹی افسانہ نگار فرحین خالد اور ساتواں رنگ اسلام آباد کی معافیہ شیخ کا ہے۔ ساتوں خواتین افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے سلگتے مسائل کو فنی چابکدستی اور مہارت سے سامنے لایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments