1993 ءتحریک عدم اعتماد: جب سیکرٹری پنجاب اسمبلی حبیب گورائیہ کا اغواء آئی جی پنجاب کو بھی لے ڈوبا


آج سے کم و بیش 29 سال پہلے 1993 ء کا سال پاکستان میں اہم سیاسی واقعات اور تبدیلیوں کا سال تھا۔ آج کل کے موجودہ حالات کی طرح ان دنوں بھی عدم اعتماد کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ خصوصاً صوبہ پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی حکومت اس وقت کے سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد وٹو کے ہاتھوں گرائے جانے کے بعد سے کچھ زیادہ ہی تیزی آ گئی تھی۔

18 اپریل 1993 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم پاکستان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ سات روز بعد 25 اپریل کو پنجاب کے وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کر دیا گیا۔ اور سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد وٹو وزیراعلیٰ بن گئے۔ تاہم 26 مئی کو سپریم کورٹ نے صدارتی حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا۔

غلام حیدر وائیں مرحوم جو کہ ایک شریف النفس تاہم کمزور وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے۔ پنجاب اسمبلی میں ان دنوں سیکرٹری اسمبلی چوہدری حبیب اللہ گورائیہ تھے۔ جو میاں منظور احمد وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے دوران اغواء ہونے کے واقعہ کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے۔

میاں منظور احمد وٹو کم و بیش اپنے ڈیڑھ درجن اراکین پنجاب اسمبلی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے منحرف اراکین اسمبلی کے ذریعے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ دن اور آج کا دن، اس کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت پھر دوبارہ نہیں بن سکی۔

1: میاں منظور احمد وٹو/ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب

وزیر اعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کی حکومت کی جانب سے سیکریٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء کا پرچہ اس وقت کی سیاست میں متحرک مسلم لیگ کے کئی ایم پی ایز کے خلاف درج کرایا گیا تھا۔

چوہدری حبیب اللہ گورائیہ کی گمشدگی کے تقریباً پندرہ ماہ بعد 11 اگست، 1994 ء کو پنجاب اسمبلی کے اسسٹنٹ سیکرٹری ناصر نے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں حبیب اللہ گورائیہ، میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، میاں اظہر حسین، میاں عمران مسعود سمیت تیرہ دیگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے خلاف آئین کی مبینہ خلاف ورزی اور آئین سے بغاوت (آرٹیکل 6 ) سمیت دیگر دفعات ( 6، 124۔ A، 120۔ B، 161، 166، 172، 173، 174، 465، 468، 469 اور 471 ) کے تحت مقدمہ درج کروا دیا۔

میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین اور میاں اظہر کے علاوہ باقی سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ دو کو ”مفرور“ کے طور پر رکھا کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، حبیب اللہ گورائیہ اور سابق ایم پی اے سہیل ضیاء بٹ کے علاوہ سبھی ضمانت پر رہا ہو گئے ”۔

لاہور میں ان دنوں پاکستان کی خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ سے وابستہ صحافی محمد لقمان نے اپنے ایک مضمون میں حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء کا آنکھوں دیکھا احوال کچھ یوں بیان کیا ہے :

”مئی، 1993 ء میں سپریم کورٹ کے حکم سے نواز شریف کی پہلی حکومت بحال ہوئی، تو پنجاب میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی، اس بار جنگ کا میدان پنجاب اسمبلی تھی۔ میاں منظور وٹو کی حکومت ختم کرنے کے لئے مسلم لیگ کی کوششوں کی کامیابی کے لئے اسمبلی کا سیشن میں ہونا ضروری تھا۔ جس کے لئے مسلم لیگ نون کے ارکان چاہتے تھے کہ کسی طور سپیکر یا گورنر اسمبلی کا اجلاس بلا لیں۔

ہاتھیوں کے درمیان اس ٹکراؤ میں سیکرٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ گورائیہ خواہ مخواہ ہی اغوا ہو گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ اے پی پی لاہور کے سینئر رپورٹر وقاراللہ چوہدری نے ماس کمیونیکیشن میں پی۔ ایچ ڈی کرنے پر مال روڈ کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ جس میں پنجاب حکومت کے سرکردہ افراد کے علاوہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ گورائیہ بھی شریک ہوئے۔

چوہدری حبیب اللہ گورائیہ/سیکرٹری پنجاب اسمبلی

شام کے وقت ہونے والی پارٹی میں ڈاکٹر وقار چوہدری نے دفتر سے مجھ سمیت دو چار افراد کو ہی مدعو کیا ہوا تھا۔ کھانے پینے کے دوران گپ شپ چل رہی تھی کہ چار ایم پی اے ہال میں داخل ہوئے، جنہوں نے چوہدری حبیب اللہ سے کچھ بات چیت کی اور ان کو باہر لے گئے۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ کیا ہوا ہے؟ مگر بعد میں پتا چلا کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے میاں عمران مسعود اور دیگر ارکان اسمبلی نے سیکرٹری کو نئے اجلاس کی ریکوزیشن دینے کی کوشش کی، جب انہوں نے وصولی سے انکار کیا تووہ ان کونا معلوم جگہ پر لے گئے۔

میاں منظور احمد وٹو کی حکومت نے واقعے کو بہت اچھالا اور اسے لیگیوں کی غنڈہ گردی قرار دیا۔ ڈاکٹر وقار سے اس بارے میں بہت پوچھ گچھ ہوئی۔ ایم پی ایز کی حراست سے طرف رہا ہونے کے بعد بھی حبیب اللہ گورائیہ اسمبلی آنے کی بجائے ادھر ادھر ہی رہے۔ اور ڈپٹی سیکرٹری اسمبلی سعید احمد ان کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔

مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ جونیجو کے درمیان یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہی، جب تک کہ صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف نے عہدوں سے استعفی نہیں دیا۔ دونوں کے استعفی کے بعد پنجاب کی سیاست میں آنے والا تلاطم خود بخود ختم ہو گیا۔ اس کے بعد عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہو گیا ”۔

آج کل پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رکن، ساؤتھ ایشیاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پنجاب کے سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود کا نام بھی حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء کنندگان اور بغاوت کے مقدمے میں آتا رہا ہے۔ اغواء کے مقدمے میں انہیں بھی ملوث کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی تیاری کے دوران میاں عمران مسعود نے مجھے اپنا موقف دیتے ہوئے بتایا کہ ”یہ بات درست ہے کہ وہ حبیب اللہ گورائیہ کو لینے انٹرنیشنل ہوٹل گئے تھے۔

ماڈل ٹاؤن لاہور میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور غلام حیدر وائیں نے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دینے کا فیصلہ کیا، تو ہم سیکرٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ گورائیہ کو لینے چلے گئے۔ کیونکہ ریکوزیشن انہیں رسیو کروانی تھی۔ حبیب اللہ گورائیہ اس وقت مال روڈ لاہور میں واقع انٹرنیشنل ہوٹل کی بیسمنٹ میں ایک تقریب میں شریک تھے۔

ہم ہوٹل میں جا کر ان سے ملے۔ اور انہیں ریکوزیشن دینے کا بتایا۔ اس پر وہ اپنی مرضی سے ماڈل ٹاؤن لاہور میں میرے ہمراہ آئے، جہاں انہوں نے عدم اعتماد کی ریکوزیشن کی ساری کارروائی مکمل کی تھی۔

میاں عمران مسعود کا مزید کہنا تھا کہ بعد ازاں میاں منظور احمد وٹو نے ان کے اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء اور بغاوت کا پرچہ درج کروا دیا تھا۔ مجھ سمیت جن دوسرے منتخب ایم پی ایز کے خلاف یہ مقدمات درج کروائے گئے تھے، ان میں سیالکوٹ سے شیخ اعجاز احمد، گوجرانوالہ سے اعظم چیمہ، اوکاڑہ سے ایم این اے میاں یاسین وٹو، چوہدری عبدالغفور لاء منسٹر، چوہدری اختر رسول، بھروانہ نام ایک ایم پی اے بھی شامل تھے۔ گجر خان سے راجہ اخلاص، راجہ اشفاق سرور و دیگر شامل تھے۔ ہم بعد ازاں اس مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد کوٹ لکھپت جیل میں بھی رہے۔

میاں عمران مسعود کے بقول ”میاں نواز شریف کی جانب سے جو فوری سماعت کی خصوصی عدالتیں“ انٹی ٹیریرر کورٹس ”بنائی گئی تھیں۔ اب اتفاق ایسا ہوا کہ فوری سماعت کی ایک عدالت میں پہلا ہی مقدمہ ہمارا لگ گیا۔ جو حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء اور آئین سے بغاوت سے متعلق تھا۔ ہم منتخب ایم پی اے اور ایم این اے ہوتے ہوئے کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔ ہمارے ساتھ چوہدری حبیب اللہ گورائیہ بھی کوٹ لکھپت جیل میں رہے۔

جیل میں ہمیں دہشت گردوں کو رکھنے والی خصوصی سیکورٹی وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ جہاں بعد ازاں میاں نواز شریف کو بھی رکھا گیا۔ پھر بعد ازاں ان مقدمات میں ہماری ضمانتیں ہو گئیں۔ اور اغواء وغیرہ کے یہ جھوٹے مقدمات بھی ختم ہو گئے۔

بلکہ وٹو صاحب نے ہمارے نام وفاقی حکومت سے کہہ کر ای سی ایل ”ایگزٹ کنٹرول لسٹ“ میں ڈلوا دیے تھے۔ اس دوران ایک بار مجھے بیرون ملک جانا تھا۔ میں جہاز میں سوار ہو گیا۔ تاہم معلوم ہونے پر مجھے جہاز سے آف لوڈ کر دیا گیا ”۔

میاں عمران مسعود/سابق وزیر تعلیم پنجاب

میاں عمران مسعود کے علاوہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کا نام بھی حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء میں لیا جاتا رہا ہے۔ تاہم میاں عمران مسعود کے بقول ”حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء کے پرچے میں نامزد کیے جانے والوں میں چوہدری پرویز الٰہی کا نام شامل نہیں تھا“ ۔

چوہدری برادران کے ایک انتہائی قریبی معتمد جو ”حبیب اللہ گورائیہ اغواء آپریشن“ میں شریک تھے، نے مجھے رازداری کی شرط پر بتایا کہ ”وہ حبیب اللہ گورائیہ کے روپوش ہونے کی ساری کارروائی میں ذاتی طور پر شریک تھے۔ حبیب اللہ گورائیہ ایک شریف آدمی اور ہمارا“ جٹ بھرا (بھائی) ”تھا۔ اس بھائی بندی میں انہوں نے اپنی رضامندی سے خود اغواء یا روپوش ہو کر ہماری مدد کی تھی۔ اس دوران لاہور اسلام آباد میں جہاں جہاں بھی انہیں رکھا گیا، اس سے چند قریبی لوگ ہی واقف تھے، جن میں ان کے علاوہ راجہ بشارت، راجہ اخلاص، راجہ اشفاق سرور وغیرہ شامل تھے“ ۔

پنجاب کے سابق آئی جی پولیس اور اچھی شہرت کے پولیس افسر سردار محمد چوہدری کے پاس ان دنوں آئی جی پنجاب پولیس کا چارج تھا۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ”جہان حیرت“ میں حبیب اللہ گورائیہ کے اغواء والے واقعہ اور پنجاب کے ان دنوں عمومی حالات پر یوں روشنی ڈالی ہے :

” 29 مئی، 1993 ء کو چوہدری حبیب اللہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی اچانک غائب ہو گئے۔ وہ چوہدری پرویز الہی اور منظور وٹو کے مابین سیاسی دنگل میں، جو وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد شروع ہوا ایک اہم شخص بن گئے تھے۔ سیکرٹری کے بارے میں قیاس کیا گیا کہ انہوں نے عدم اعتماد کا نوٹس وصول کر لیا تھا، لیکن اس وقت سے ان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ پولیس نے ان کے اغوا کا کیس رجسٹر کر لیا۔ وٹو بے تاب ہو رہے تھے اور لاہور پولیس پر برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے نادر شاہی حکم صادر کر دیا کہ جیب اللہ کو 31 مئی تک بہر صورت تلاش کر کے بازیاب کیا جائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments