روبینہ سہگل اور کملا بھسین


دونوں آمرانہ رویوں کے خلاف تھیں اور دونوں ہی ایسے الفاظ برداشت نہیں کرتی تھیں جن سے ”مردانگی“ کی بو آئے۔ وہ پسماندہ اور پرانی یادوں میں گم رہنے کی بجائے مسائل کے حل پیش کرتی تھیں۔ دونوں کا فیمینسٹ نظریاتی موقف خاصا مضبوط تھا۔ لیکن اس میں زہر کی آمیزش نہ تھی۔
ان کے نام تھے روبینہ سہگل اور کملا بھسین۔

ہم نے دونوں کو ایک مہینے کے اندر کھو دیا۔ روبینہ سہگل ستائیس اگست 2021 کو لاہور میں کورونا وائرس کا شکار ہوئیں اور کملا سرطان کے خلاف اپنی جنگ پچیس ستمبر 2021 کو دہلی میں ہار گئیں۔

ان دونوں کی وفات سے جنوبی ایشیا میں دانشورانہ سرگرمی اپنے دو اہم ستون کھو بیٹھی ہے۔ میری ان دونوں کے ساتھ اچھی یادیں وابستہ تھیں اور ان کے چلے جانے سے ایک ذاتی نقصان محسوس ہو رہا ہے۔ ان کے استدلال اور دلیلوں میں کوئی کم زوری نظر نہ آتی تھی۔ دونوں کو ایک صنف کی بنیاد پر غلامی یا عاجزی پسند نہ تھیں اور وہ تمام خواتین کو یہ مشورہ دیتی تھیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں اتنا اضافہ کریں کہ پدر سری سماج کو للکار سکیں۔ کملا اور روبینہ اپنے مدمقابل آنے والے مردوں کو علم و دانش میں پچھاڑ سکتی تھیں اور وہ چاہتی تھیں کہ تمام عورتیں ایسا کرنے کے قابل ہوں۔

دونوں کو یقین تھا کہ خواتین اسی وقت اچھی کارکردگی دکھا سکتی ہیں جب کہ وہ فیمینزم کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

کملا بھسین اور روبینہ سہگل میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ کملا نے ون بلین رائزنگ ( ONE BILLION RISING ) کو 2017 میں جنوبی ایشیا میں شروع کیا اس کا آغاز نیپال سے کیا گیا جب کملا کی عمر ستر سال سے بھی اوپر ہو چکی تھی۔ خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف یہ ایک عالمی تحریک تھی۔

کملا بھسین 1946 کو منڈی بہاؤالدین کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں جو اس وقت متحدہ پنجاب کا حصہ تھا۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان بھارت منتقل ہو گیا۔

کملا اور روبینہ ایسی خواتین نہیں تھیں جو دنیا میں ایک ارب خواتین کو تشدد کا شکار ہوتا دیکھتی رہیں اور کچھ نہ کہیں اسی لیے ون بلین رائزنگ ( OBR ) کی تحریک کا آغاز کیا گیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ تمام خواتین کہیں کہ بس اب بہت ہو گیا اور پھر بیک آواز صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔

روبینہ اور کملا کے لیے فیمینزم حرف ایک نظریہ نہیں تھا بل کہ ظلم و ستم کے خلاف ایک ہتھیار تھا جس کے ذریعے معاشروں میں صنفی امتیاز کے خلاف جنگ لڑی جانی تھی۔

ان کا فیمینزم عورتوں سے انصاف اور مساوات کے لیے ایک نعرہ تھا۔ جس کے تحت تمام دنیا کی عورتوں کو متحد ہونا تھا۔ روبینہ اور کملا چاہتی تھیں کہ خواتین تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ لیں اور آپس میں اتحاد قائم کریں۔

دونوں کئی سماجی تنظیموں کا حصہ تھیں یوں کہ وہ اجتماعی جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔

دونوں میں ایک اور بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان کی جدوجہد صرف خواتین کے مسائل تک محدود نہیں تھی بل کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو بھی اپنا نصب العین سمجھتی تھیں اور اس کے لیے اپنے عمل اور تحریروں کے ذریعے آواز اٹھاتی رہتی تھیں۔

گو کہ روبینہ ایک پاکستانی فیمینسٹ اسکالر اور ماہر تعلیم تھیں وہ کملا کے ساتھ خواتین کی جدوجہد میں برابر کی شریک تھیں۔

دونوں نے درجنوں کتابیں اور مقالے تحریر کیے، دونوں اردو یا ہندی کے علاوہ انگریزی اور پنجابی میں بھی مکمل عبور رکھتی تھیں۔

ان کے دانشورانہ کام کا دائرہ تعلیم اور صنفی شعور سے لے کر قومیت اور شناخت کے مسائل تک پھیلا ہوا تھا۔

برصغیر میں تقسیم ہند کے بعد جو حالات رونما ہوئے اور خاص طور پر خواتین کو جن جرائم اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا یہ روبینہ اور کملا دونوں کا مرکزی موضوع تھا۔ لسانی اور نسلی مسائل اور ان کا فیمینزم سے تعلق بھی دونوں کو انسانی حقوق کی جدوجہد سے منسلک کرتا تھا۔

مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیاد پرستی دونوں کو شدید نا پسند تھی اور دونوں نے ریاست کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح خود ریاستی ادارے معاشروں میں بنیاد پرستی کی داغ بیل ڈالتے ہیں اور عوام میں نفرتیں پھیلاتے ہیں جس سے دہشت گردی جنم لیتی ہے اور پھر ریاستیں اس دہشت گردی سے مقابلے کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔

جس طرح روبینہ اجوکا تھیٹر کے بانیوں میں سے تھی اور خواتین محاذ عمل ( ویمن ایکشن فورم) کے ساتھ سیمرغ نامہ تنظیم کی بھی سرگرم رکن تھیں اسی طرح کملا بھی مختلف فورم اور پلیٹ فارم استعمال کر کے اپنی آواز دوسروں تک پہنچاتی تھیں جن میں سنگت نامی تنظیم خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

روبینہ سہگل نے یونی ورسٹی آف راچیسٹر سے تعلیم میں پی ایچ ڈی اور کولمبیا یونی ورسٹی سے نفسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گوناگوں موضوعات پر درجنوں کتابیں اور سیکڑوں مضامین اور مقالے لکھے۔ ٍغالباً ان کی بہترین کتاب ”پاکستان پراجیکٹ“ تھی جس میں انہوں نے قومیت اور شناخت کے سوال کو فیمینسٹ تناظر میں دیکھا اور لکھا۔ اس کتاب میں وہ تصور پاکستان پر سرسید احمد خان سے لے کر محمد علی جناح تک صنفی تناظر میں نظر ڈالتی ہیں۔

ان میں اتنی جرات تھی کہ وہ تصور پاکستان میں پوشیدہ تضاد اور مفروضوں کو بے نقاب کرسکیں۔

اسی طرح کملا بھسین کے بھی علمی کام کئی بین الاقوامی تحقیقی جریدوں میں شائع ہوتے رہے اور ان کے موضوعات میں بھی بڑی وسعت تھی لیکن زیادہ تر وہ صنف اور فیمینزم کے حوالے سے ہی لکھے گئے تھے۔

روبینہ اور کملا دونوں نے جنوبی ایشیا میں خواتین کے حقوق کی تحریکوں کی تاریخ رقم کی ہے اور ان کے مسائل کو قلم بند کیا ہے۔ دونوں اپنے رفقاء کار اور دوستوں کے لیے رہنما اور استاد کا کردار ادا کرتی تھیں۔ ان کے دوست اور ساتھی ان سے ہمت اور توانائی حاصل کرتے تھے خاص طور پر نصاب صنف کے حوالے سے ان کے کام خاصی اہمیت کے حامل ہیں اور تعلیم میں صنفی امتیازات کو دونوں نے اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔

روبینہ اور کملا دونوں کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ وہ بہت جلد لوگوں میں گھل مل جاتی تھیں اور ان سے سیکھنے اور ان کو سکھانے میں گہری دلچسپی لیتی تھیں۔ دونوں نے اپنی زندگیاں بھر پور طریقے سے گزاریں اور اپنے اصولوں کو کبھی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ دونوں تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھیں اور اظہار کے متنوع ذرائع استعمال کرتی تھیں جن میں شاعری سے لے کر طنز و مزاح تک سب شامل تھا۔

ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے آپ ان کی واضح سوچ اور الفاظ کے چناؤ پر تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

گو کہ کئی اور لکھنے والوں نے ملتے جلتے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے مگر روبینہ اور کملا کے انداز تحریر میں بڑی سادگی ہے جو انہیں عام فہم بنا دیتا ہے۔ ان کی تنقیدی سوچ ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتی ہے۔

روبینہ اور کملا کا غالباً سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اپنے پڑھنے والوں اور سننے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ لے آتی تھیں اور دوسروں کی زندگیاں بہتر بنانے میں ہمہ وقت کوشاں رہتی تھیں۔

دونوں نے تقریباً پچاس سالہ سرگرم ترین زندگی گزاری اور بے شمار اجلاس اور کانفرنسیں منعقد کیں اور ان میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی زبان اور تحریر سے ہمت و جرت کی ترویج کی۔

روبینہ اور کملا نے وہ کام کیے جو ان کے معاشروں میں قابل تعریف نہیں سمجھے جاتے تھے پھر بھی ان کے جاننے اور انہیں ماننے والوں کا بڑا حلقہ موجود تھا۔ جب کملا سنگت ورک شاپ کرتی تھیں تو عورتوں کی تنظیمیں اور گروہ انہیں شوق سے سنتی تھیں اور ان میں حصہ لیتی تھیں۔

اسی طرح روبینہ سہگل بھی ایک ایسی سماجی علوم کی ماہر تھیں جو نوجوانوں فیمینسٹ سرگرم کارکنوں کو مزید کام کرنے پر اکساتی تھیں اور ان کی تربیت کرتی تھیں۔

عورتوں کے خلاف مردوں کے جارحانہ رویوں کے خلاف کس طرح ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے۔ یہ ہی روبینہ اور کملا کی تعلیم کا بنیادی جز تھا۔ خواتین سے نفرت اور پدرسری سماج کی نا انصافیاں دونوں خاص ہدف تھے۔

ان کا پیغام یہ تھا کہ جب کہ خواتین معاشروں میں آزادانہ طریقے سے کام کاج نہیں کر سکتیں گھوم پھیر نہیں سکتیں اور سماج کے تمام شعبوں میں حصہ نہیں لے سکتیں مرد بھی خود کو آزاد نہیں سمجھ سکتے۔

روبینہ اور کملا بار بار اس بات پر زور دیتی تھیں کہ ”صنف مساوات کی جدوجہد عورتوں اور مردوں کے درمیان لڑائی یا جنگ نہیں ہے یہ دراصل دو نظریات کا ٹکراؤ ہے جس میں ایک پدر سری سماج کو بہتر سمجھتا ہے اور دوسرا مساوات کو“

ان کے نزدیک پدر سری سماج وہ ہے جس میں مرد عورت کی نقل و حرکت اور کام کاج کو اپنے قابو میں رکھیں اور ساتھ ہی ان کو جسمانی اور تولیدی طاقت کو بھی اپنے زیر نگیں رکھیں اور اس مقصد کے لیے طاقت کا استعمال بھی جائز سمجھیں۔

اگر اس بات کو ہم بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان پر لاگو کریں تو یہ بات ہمیں کتنی واضح سمجھ میں آجاتی ہے۔

روبینہ اور کملا نے ہمیں سکھایا کہ صنفی امتیاز سے استحصال جنم لیتا ہے۔ وہ مرد کو اس بات کا ذمہ دار نہیں سمجھتی تھیں کہ وہ عورتوں کی حفاظت کرے اس طرح مرد خود اپنے آپ پر غیر ضروری بوجھ محسوس کرتے ہیں اور معاشرے میں تشدد کا استعمال بڑھتا ہے اور طاقت پر مبنی تعلقات وجود میں آتے ہیں۔

روبینہ اور کملا نے اپنی زندگیوں میں خواتین کی تحریکوں کو کئی مراحل سے گزرتے دیکھا اور یہ تحریکیں تعلیم اور بنیادی حقوق سے آگے بڑھ کر بہت کچھ مطالبہ کرنے لگیں۔

اب ان کی جدوجہد ثقافتی میدانوں میں بھی جاری ہے۔

اگر ہم ان کی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں عورت دشمن رویوں کے خلاف کھل کر بولنا ہو گا اور قانون ساز اداروں میں ان کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے مطالبے کرنے ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی مطالبہ کرنا ہو گا کہ شادی کے بعد بھی زبردستی جنسی تعلقات مسلط کرنا بھی ایک جرم ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments