چوہدری نثار علی خان سے ملاقات اور ان کی حالیہ سرگرمیاں


رات 10 بجے چوہدری نثار علی خان کا فون آیا تو انہوں نے رسمی علیک سلیک کے بعد استفسار کیا کہ ”آپ جاگ رہے ہیں؟“ تو میں نے برجستہ جواب دیا ”جی جاگ رہا ہوں میں رات 2 بجے کے بعد سوتا ہوں۔ ’چوہدری نثار علی خان کی کہانی۔ نواز رضا کی زبانی‘ میری چوتھی کتاب ہے۔ اس کا دیباچہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا فون آ گیا تو چوہدری نثار علی خان نے زور دار قہقہہ لگایا تو انہوں نے پوچھا کہ“ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ ”تو میں نے کہا یہ بات تو کتاب کی طباعت کے بعد ہی بتائی جا سکتی ہے۔ فی الحال اگر آپ کو سب کچھ بتا دیا تو سسپنس ختم ہو جائے گا۔ لہذا آپ کو کتاب کی طباعت تک انتظار کرنا پڑے گا۔ کتاب کی تیاری کے سلسلے میں کچھ سوالات ہیں جن کا آپ سے جواب چاہتا ہوں تاکہ واقعات کی صحت بارے میں کوئی کنفیوژن نہ ہو“ تو انہوں نے کہا کہ پھر ”چکری آ جاؤ میں ان دنوں چکری میں ہی بیٹھتا ہوں“ میں نے ان سے کہا کہ ”مجھے معلوم ہے۔ آپ ہفتہ میں تین چار روز چکری میں ہی رہتے ہیں اور اپنے حلقہ کے عوام سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔“

سو انہوں نے دعوت دے دی کہ ”میں ان کے ساتھ دن کا کچھ وقت گزاروں“ سو ان کے ساتھ اگلے روز 4 بجے شام چکری میں ”بریگیڈئیر فتح علی خان حویلی“ میں ملاقات کا وقت مقرر ہو گیا نابغہ روزگار شخصیت بابو شفقت علی قریشی کی 9 ویں برسی کی تقریب میں شرکت کے بعد چکری چلا آیا ان سے ملاقات کوئی طے شدہ انٹرویو نہیں تھا کیونکہ پچھلے 4 سال سے کوئی انٹرویو نہیں دے رہے تھے بلکہ انٹرویو کے نام سے ہی بدک جاتے پچھلے 4 سال کے دوران بیسیوں اخبار نویسوں اور اینکر پرسنز نے چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے خواہش مند رہے لیکن وہ کسی اخبار نویس سے ملاقات نہیں کرتے ہم صرف پانچ صحافیوں بندہ ناچیز، طارق محمود سمیر (برادر اصغر) ، طارق عزیز، حافظ طاہر خلیل اور عامر الیاس رانا سے مشترکہ ملاقات تک ہی انہوں نے اپنے آپ کو محدود رکھتے انہیں اخبار نویسوں کا مجمع لگانے کا کبھی شوق نہیں مجھ ون آن ون بھی ملاقاتیں کرتے رہتے لیکن وہ مجھے اس بات کا پابند بناتے کہ ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو ”آف دی ریکارڈ“ ہے انہیں ہر وقت اس بات کا خدشہ رہتا تھا کہ میں ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو کہیں شائع نہ کر دوں لیکن اخبار نویس سیاست دان کی مرضی کی باتیں شائع کرتا رہے تو یہ صحافت نہیں کہلاتی پریس ریلیز کہلا سکتی ہے۔ لہذا میں ان کی بعض باتیں وقت گزرنے کے بعد اپنے کالموں کی زینت بنا لیتا

اکثر و بیشتر ان کو مجھ سے شکایت پیدا ہو جاتی لیکن میرا خلوص ان کی ناراضی پر حاوی ہو جاتا دراصل چوہدری نثار علی خان اپنی سیاسی زندگی کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ جہاں وہ پچھلے چار سال سے اپنی منزل کا تعین نہیں کر پائے اپنوں نے انہیں ٹکٹ نہ دے کر ان کے لئے سیاسی مشکلات پیدا کر دیں لیکن انہوں نے بھی مڑ کر پرانے دوستوں کی طرف دیکھا اور نہ ہی تعلقات بحال کرنے میں دلچسپی لی 2018 ء کے انتخابات سے چند روز قبل میجر (ر) عامر کی رہائش گاہ پر ان کی عمران خان سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا جہاں عمران خان ان کو پی ٹی آئی میں شمولیت دعوت دی اگرچہ چوہدری صاحب بھی اس ملاقات کا نجی محافل میں ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن ملاقات کے حوالے سے میجر (ر) عامر کے حوالے یہ بات تحریر کروں گا۔

میجر (ر) عامر راوی ہیں۔ عمران خان نے انہیں پارٹی میں اہم عہدہ دینے کی پیش کش کی اور کہا کہ ”چوہدری نثار علی خان میری پارٹی میں آ جاؤ سب اختیارات آپ کو دے دوں گا۔ پارٹی ٹکٹ بھی آپ کی صوابدید پر ہوں گے۔“ لیکن چوہدری نثار علی خان نے پی ٹی آئی میں شمولیت سے انکار کر دیا اور کہا کہ ”عمران خان جس شخص کے ساتھ میں نے 35 سال رفاقت کی اس کے ساتھ نہ چل سکا آپ کے ساتھ تو ایک روز بھی نہ چل سکوں گا۔“ عمران خان چوہدری نثار علی خان کا ٹکا سا جواب سن کر کہا کہ ”نواز شریف تو کرپٹ ہے۔ میرا کیریئر تو صاف ستھرا ہے آپ میرے ساتھ کیوں نہیں آ جاتے“

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ”میاں نواز شریف مجھے ناپسند کرتے ہیں اور میں بھی ان کے بارے میں ایسے ہی جذبات رکھتا ہوں لیکن میں انہیں کرپٹ نہیں کہتا غائب کا علم اللہ تعالی جانتا ہے۔ میں نے ان کے قریب کرپشن نہیں دیکھی اگر میری نظروں سے ایسی بات گزرتی تو میں کب کا ان کو چھوڑ چکا ہوتا“ جس کے بعد عمران خان سے چوہدری نثار علی کی ملاقات ناکام رہی وہ چوہدری نثار علی خان پی ٹی آئی میں شامل کرنے میں ناکام رہے چوہدری نثار علی خان نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا ان کو انتخابی نتائج پر سخت تحفظات تھے لیکن انہوں احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کر لی اب چار سال بعد چپ کا روزہ توڑنے کا ارادہ رکھتے سیاسی مطلع صاف ہونے کے بعد وہ اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

چوہدری نثار علی خان سے تین گھنٹے کی تفصیلی ملاقات میں نصف سے زیادہ تو نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے تعلقات کار پر بات ہوئی۔ جوں ہی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی و ناکامی اور پی ٹی آئی کی سیاست بات ہوئی تو انہوں نے یہ بات ”آف دی ریکارڈ“ قرار دے دی اس موضوع پر ہونے والی بات چیت کو آف دی ریکارڈ قرار دینے کی حد تک میں صحافتی اخلاق کا پابند ہوں لیکن باقی گفتگو بارے میں انہوں نے کوئی قدغن نہیں لگائی تاہم اس گفتگو میں سے کچھ موضوعات کو دانستہ چھوڑ رہا ہوں کہ مجھے چوہدری نثار علی خان کی دوستی زیادہ عزیز ہے۔

ان باتوں کا ذکر ”چوہدری نثار علی خان کی کہانی۔ نواز رضا کی زبانی“ میں کروں گا۔ میں نے چوہدری نثار علی خان کو اپنی سوانح عمری لکھنے کی ترغیب دی لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہوئے ان کا موقف یہ کہ وہ جھوٹ نہیں لکھ سکتے سچ لکھوں گا تو کئی چہرے بے نقاب ہو جائیں گے اور ان میں سچ برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہو گا۔ اس لئے میں بھی جو کچھ چوہدری نثار علی خان پر لکھ رہا ہوں ان کی مرضی و منشا کے خلاف ہے۔ ممکن ہے۔ کتاب شائع ہونے کے بعد ان سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ میں بھی اپنی کریڈیبلٹی قائم رکھنے کے لئے چوہدری نثار علی خان کی سیاسی زندگی بارے سچ ہی لکھوں گا۔

25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں جس طرح چوہدری نثار علی خان کو این اے 59 اور 63 میں شکست دی گئی وہ ہماری سیاسی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔ چوہدری نثار علی خان کا رزلٹ تیار کرنے میں الیکشن کمیشن کے عملہ کو تین روز لگ گئے لیکن جب چوہدری نثار علی خان کو این اے 59 اور 63 میں ناکام اور پی پی 10 میں کامیاب ہونے کا نتیجہ دیا گیا تو انہوں نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا انہوں نے اس دھاندلی کے خلاف احتجاج تو نہیں کیا لیکن اس انتخاب کی شفافیت کے ”ذمہ دار حلقوں“ کو اپنی ناراضی کا اظہار کر دیا۔ میاں نواز شریف کی جانب سے پارٹی کا ٹکٹ نہ دیے جانے کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی ہے اور گوشہ نشینی اختیار کر رکھی ہے۔

اس دوران ان کے مخالفین ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے رہے اکثر بیشتر ان کے بارے میں یہ افواہ گشت کرتی رہتی ہے کہ ان کی وزیر اعظم عمران خان سے کوئی ملاقات ہوئی ہے اور دو درجن سے زائد ارکان پارلیمنٹ کے ہمراہ تحریک انصاف جوائن کر رہے ہیں لیکن انہوں نے نجی ٹیلی ویژنوں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی کبھی تردید کی اور نہ ہی تصدیق جب پی پی۔ 10 کو خالی قرار دے کر ان کے لئے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے پر مجبور کرنے کوشش کی گئی تو انہوں نے مجبوراً حلف اٹھا کر حکومت کے عزائم ناکام بنا دیے ان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی افواہیں ان کا تعاقب کرتی رہیں لیکن انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ”لوٹا“ بن کر وزیر اعلیٰ بننے سے بہتر ہے کہ وہ سیاست کو خیر باد کہہ دیں ان کو اس وقت طاقت ور حلقوں کی جانب سے چار بار وزارت اعلٰی پنجاب طشتری میں پیش کی گئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ پہلے قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں مسلط کی گئی شکست کی وجوہات بتائی جائیں ان کے اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ سو بات آگے نہ بڑھ سکی

اب پھر جب کہ وفاق میں عمران خان اور پنجاب میں عثمان بزدار کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگا تو ایک بار ان کے بارے میں عمران خان کے لئے کام کرنے والے میڈیا نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں بے تکی افواہیں گھڑنا شروع کر دیں ایسے ایسے نام نہاد اینکر پرسن اور اخبار نویس جن کی چوہدری نثار علی خان کے سائے تک رسائی نہیں کبھی ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور کبھی ان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے کی افواہیں تراشتے رہتے ہیں۔

افواہوں طراز فیکٹریاں ان کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں قصے گھڑتی رہتی ہیں۔ پچھلے چند روز سے خیبر سے لے کر کراچی تک اخبار نویس مجھ سے ان کے مستقبل کے عزائم بارے میں استفسار کرتے رہتے ہیں۔ میرا ان کو ایک ہی جواب ہے۔ آپ عام انتخابات کے انعقاد تک انتظار کریں انتخابات کا طبل بجتے ہی وہ اپنے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کر دیں گے۔ چوہدری نثار علی خان نے پچھلے 4 سال سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ ان کے انتخابی حلقہ میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ قمر الاسلام کی سرگرمیوں اور بالخصوص ان کے آبائی گاؤں چکری میں مسلم لیگ (ن) کے جلسہ کے بعد بڑا جلسہ کر کے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا تو سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی لیکن چوہدری نثار علی خان نے یہ کہہ کر کہ یہ جلسہ علاقے کے عوام سے ملاقات ہے، قومی مسئلہ پر کوئی بات نہیں کروں گا، الیکٹرانک میڈیا کو کوریج کرنے سے روک دیا

بہرحال اس کے باوجود ان کی تقریر کے کچھ جملے وائرل ہو گئے جن میں انہوں نے کہا کہ 4 سال سے اقتدار کا چپ کا روزہ رکھا ہے۔ حلال طریقے سے روزہ افطار کروں گا۔ گویا انہوں نے معنی خیز انداز میں پیغام دے دیا ہے کہ وہ جلد اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ میں سیاسیات کا طالبعلم ہوں چوہدری نثار علی خان ایک ”باخبر“ سیاست دان ہیں۔ لہذا میں نے چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے لئے 80 کلومیٹر کا سفر کرنا ضروری سمجھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments