سول حکومت سے شراکت اقتدار یا انتقال اقتدار


10 اپریل 1988 پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم اور انتہائی دلخراش دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس روز راولپنڈی اور اسلام آباد پر سیکڑوں میزائل اور راکٹ ہر سواڑتے اور شہری علاقوں پر گرتے نظر آئے جس کا مرکز اوجڑی کیمپ راولپنڈی تھا جہاں افغان جہاد میں استعمال ہونے والے اسلحہ کا ایک بڑا ڈیپو تھا۔ اس حادثے میں جڑواں شہروں میں شدید جانی اور مالی نقصان ہوا۔ ہلاک شدگان میں سب سے اہم شخصیت ائر کموڈور ریٹائرڈ خاقان عباسی تھے جو کہ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے پیداوار تھے۔ ان کی سرکاری گاڑی مری روڈ راولپنڈی پر ایک میزائل کا نشانہ بن گئی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہلاک ہو گئے۔ یاد رہے کہ خاقان عباسی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد ہونے کے علاوہ جنرل ضیاء الحق کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔

بعد ازاں ملک میں اس المناک حادثے کی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا اور نتیجتاً اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس کی تحقیقات ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ کرانے کا فیصلہ کیا جسے طاقت کے حقیقی ایوانوں نے مکمل طور پر رد کر دیا۔ درحقیقت جونیجو حکومت کا یہ اقدام ان کے اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان شدید اختلافات کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور ملک ایک بار پھر سیاسی اور حکومتی بحران کا شکار ہو گیا۔

یہ اپریل 1988 کے آخری دنوں کی بات ہے جب جنرل ضیاء الحق نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں اگلی صف میں بیٹھے اس وقت کے وزیر مملکت برائے دفاع رانا نعیم محمود خان کو انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ میں نے اور میرے رفقائے کار نے تمام تر اختیارات اور آئینی قوت ہونے کے باوجود آپ کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا چنانچہ آپ کو اور آپ کی حکومت کو یہ بات ہمیشہ ازبر ہونی چاہیے کہ ہم نے آپ کے ساتھ محض ”شراکت اقتدار کیا ہے نہ کہ انتقال اقتدار“ ۔ جنرل ضیاء الحق کا یہ جملہ ایک تاریخی حقیقت کا حامل تھا اور 34 سال گزرنے کے باوجود اس کی اہمیت اور معنویت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اوجڑی کیمپ کے حادثے کے دو ماہ بعد جنرل ضیاء الحق نے آئین کی بد نام زمانہ شق 58۔ 2۔ B کے تحت محمد خان جونیجو کی حکومت کو 29 مئی 1988 کو مبینہ طور پر کی جانے والی بدعنوانی، مہنگائی اور ناقص طرز حکمرانی کے باعث اس دن برخاست کر دیا جب کہ وہ جنوبی کوریا کے انتہائی کامیاب دورے کے بعد وطن پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف جو کہ اس وقت وزیر اعلی پنجاب کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے بھی وزیراعظم جونیجو کے وفد کا حصہ تھے۔

جونیجو مرحوم کی برطرفی کے دوسرے دن پاکستانی عوام نے ایک انتہائی حیران کن منظر دیکھا جو کہ نواز شریف کی ایک بار پھر بحیثیت نئے وزیر اعلی پنجاب کی تقریب حلف برداری تھی۔ قارئین کرام صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا پاکستان کی کل آبادی میں ہمیشہ سے 60 سے 62 فیصد حصہ رہا ہے۔ جنرل ضیاء کی جانب سے نواز شریف کی بحیثیت وزیر اعلی پنجاب کی تقرری بظاہر اس بات کی مکمل غمازی کر رہی تھی کہ ان کی زیر قیادت ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی اور انتظامی امور انتہائی احسن طریقے سے سرانجام دیے جا رہے تھے۔ چنانچہ یہاں یہ بات لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر ملک کی 62 فیصد آبادی کے صوبے میں حالات انتہائی پرسکون اور معمول پر تھے تو وزیراعظم جونیجو کی برطرفی کا انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ درحقیقت مقتدر قوتوں کی جانب سے اشتراک اقتدار سے مکمل اقتدار حاصل کرنے کی جانب ان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی تھی۔

نواز شریف جو کہ جونیجو دور میں وزیر اعلی اور مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے کی جانب سے جنرل ضیا کی حمایت اور ان کی مکمل تائید ایک انتہائی افسوس ناک امر تھا جس نے آنے والے دنوں میں پاکستان کے جمہوری نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اس کے مضمرات آج بھی قائم و دائم ہیں۔

جنرل ضیا کی جانب سے ادا کردا اشتراک اقتدار اور انتقال اقتدار کا جملہ درحقیقت ایک اٹل اور انمٹ حقیقت ہے۔ لیکن بعد میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی 5 حکومتوں نے ان الفاظ کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے انتقال اقتدار کی جانب پیش قدمی کی لیکن وہ نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ ہمیشہ قبل از مدت اقتدار سے انتہائی رسوائی کے ساتھ محروم ہوئے۔

مندرجہ بالا ناکامیوں میں اب ممکنہ طور پر موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہو چکے ہیں جن کے اقتدار کا سورج باوجود چند تابناک کامیابیوں کے ڈوبنے کے قریب ہے۔ پاکستانی عوام اپریل کے پہلے ہفتے میں جو کہ پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کا مہینہ ہے میں ممکنہ طور پر ایک اور نئے وزیراعظم کو حلف لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

صاحب مضمون نئی آنے والی حکومت کے لئے نیک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک مخلصانہ مشورہ دینا قومی فریضہ سمجھتا ہے جس کے مطابق نئے وزیراعظم اور بصورت دیگر موجودہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو اپنے دفاتر میں جنرل ضیاء کے اوپر بیان کردہ تاریخی جملے یعنی ”ہم نے آپ سے شراکت اقتدار کی ہے نہ کہ انتقال اقتدار“ کو نمایاں حروف میں منقش کروا لینا چاہیے۔ صاحب مضمون کو امید واثق ہے کہ ایسا کرنے سے یہ تمام لوگ انتقال اقتدار کی گمراہ کن سوچ سے مبرا ہوجائیں گے جو کہ ممکنہ طور پر انہیں اپنی حکومتی مدت کو کامیابی سے مکمل کرنے میں انتہائی ممد اور مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments