امپائر، خان صاحب اور قائد اعظم یونی ورسٹی کے مسٹر نتھنگ


اسلام آباد کی فضا میں اس وقت بے چینی اور بے یقینی کی صورتحال ہے۔ سیکورٹی ہائی الرٹ کو دیکھ کر یہ لگ رہا ہے کہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ تو سب کو تھا کہ خان صاحب عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ آزما سکتے ہیں مگر کسی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ عمران خان صاحب کسی چھوٹے بچے کی طرح بلا میرا اور میں ہی کھیلوں گا کرتے نظر آئیں گے۔ لڈو کے کھیل میں جیسے ہارنے والا اپنے ہاتھ سے ساری گوٹیاں بکھیر کر سارے کھیل کا ستیاناس کر دیتا ہے ایسا ہی کچھ خان صاحب نے کیا ہے۔

اسمبلیاں ٹوٹنے کے باوجود وزیر اعظم، عمران خان ہی ہیں۔ ملک میں قومی حکومت بننے سے پہلے ہی صدارتی طرز حکومت کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اب تو تمام نظریں قاضی کی طرف ہیں کہ وہ ماضی کی طرح نظریہ ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ سناتے ہیں یا پھر آئین کا بول بالا ہو گا یہ تو آنے والا فیصلہ ہی طے کرے گا۔ مگر خان صاحب تو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شاید قانون اور آئین ان کی جیب میں ہے اور اس کی تشریح بھی وہ اپنی مرضی سے ہی کریں گے کیونکہ امپائر کا آشیرباد ان کے ساتھ ہے۔

خان صاحب نوجوانوں کے لیے بڑے بیتاب نظر آ رہے ہیں کہ وہ ان کا ساتھ دے کر نیکی کمائیں اور بدی بقول ان کے یعنی اپوزیشن، کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئیں تاکہ ایرانی انقلاب کے بعد کی طرح خان صاحب اس صدی کے ایک روحانی لیڈر بن کر ابھر سکیں۔ خان صاحب اور ان کے نو رتن جن نوجوانوں کو بار بار سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار کرتے نظر آ رہے ہیں ان کے بارے میں شاید وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ان نوجوانوں کو اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں روزگار دینے کے بجائے بیروزگاری اور بھوک و افلاس کا شکار کیا۔

دیکھا جائے تو خان صاحب کے دور اقتدار میں حکومتی ترجمانوں کی گالی برگیڈ نے ترقی اور خوشحالی کے جو سہانے خواب دکھائے تھے وہ تو پورے نہ ہو سکے بس خان صاحب کے پیروکار ان کی روایتی کھیڑی اور قومی لباس کو دیکھ کر اسے ہی ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کی علامت سمجھنے لگے۔ ابھی بھی خان صاحب قوم کو اپنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے جنت ان کے پاس ہے کا یقین دلاتے اور اپوزیشن کے پاس دوزخ کی آگ ہے کی داستان سناتے نظر آ رہے ہیں۔

خان صاحب آخری گیند تک کیا کھیلتے وہ تو پچ سے وکٹیں ہی اکھیڑ کر لے گئے۔ ملک میں آئینی بحران پیدا کر دیا مگر انہیں کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کے سیانے مشیر جمہوریت اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں نعرے تو بلند کر رہے ہیں مگر افسوس جمہوریت سے ان کا دور دور تک کا واسطہ نہیں جہان تک سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا سوال ہے تو کوئی ان سے یہ پوچھے کہ سمندر پار پاکستانی تو بیچارے اپنا موبائل فون تک ٹیکس دیے بنا اس نئے پاکستان میں استعمال نہیں کر سکتے۔ اب خان صاحب کو ووٹ کی امید صرف ای ووٹنگ اور سمندر پار پاکستانیوں سے ہی ہے کیونکہ ان کی جو شاندار کارکردگی ملک میں رہی اس سے ان کو ووٹ لینا ممکن نظر نہیں آ رہا۔

اپنا موازنہ خان صاحب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے کرتے ہیں اور جو ان سے اختلاف رائے رکھے وہ میر جعفر اور میر صادق۔ خان صاحب کی ہر بات سچ باقی سارے چور۔ خان صاحب عوامی سیاست کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں وہ قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے صرف کھوکھلے وعدے کیے گئے۔ اپنی خراب طرز حکومت، مہنگائی، بیروزگاری، بھوک و افلاس، بیمار حال معیشت پر قوم سے معافی مانگنے کے بجائے وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ خان صاحب کہتے رہے کہ وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے فیض یاب ہو کر اقتدار تک پہنچے۔ اس لیے ابھی بھی خان صاحب عوام سے دور اور ایمپائر، قاضی، سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا اور دیگر ذرائع پر زیادہ انحصار کرتے ہوئے اپنی جیت کا جشن منانے کی تیاریوں میں مگن ہیں۔

اس وقت گالی برگیڈ سے نہ ہی ملک و قوم کی تقدیر بدلنے والی ہے بلکہ اس گالی برگیڈ نے ہمارے معاشرے پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جسے ختم کرنے کے لیے شاید کئی برس لگ جائیں۔ باقی اپنی سیاست کو بچانے کے لیے جس طرح کا مذہبی کارڈ وہ استعمال کر رہے ہیں وہ نہایت نامناسب ہے کیونکہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کردہ جنرل ضیاء کا اسلام اور جہاد ابھی تک ہمارے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ مجھے خان صاحب کے آج کل جو حالات ہیں ان سے قائد اعظم یونی ورسٹی کی ماضی کی ایک مشکوک سی شخصیت مسٹر نتھنگ المعروف آئن اسٹائن الطاف جارویس کی یاد آتی ہے جو کہتا پھرتا تھا کہ زیرو کی ویلیو اس نے دریافت کی اور اس کے پاس تیل کے ذخائر کے نقشے ہیں جن کے پیچھے سپر پاور امریکہ بہادر ہے۔ اسے اپنے ارد گرد موجود ہر شخص اپنے خلاف سازش کرتا نظر آتا اور یونیورسٹی کے طلبا اسے ایجنسیوں کا بندہ سمجھتے۔ اس لیے اس ملک خداداد میں ایمپائر، قاضی، خان صاحب اور قائداعظم یونی ورسٹی کے مسٹر نتھنگ کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments