غالب کے ناقدین کی نظر میں ان کا مسلک


وحشت و شیفتہ اب مرثیہ لکھیں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں

مولانا الطاف حسین حالی نے یادگار غالب میں مرزا کے سفر آخرت کا بیان اس طرح کیا ہے۔ ”مرزا کے جنازے پر جب دلی دروازے کے باہر نماز پڑھی گئی تو راقم بھی موجود تھا اور شہر کے اکثر عمائد اور ممتاز لوگ جیسے نواب ضیاء الدین احمد خان، نواب محمد مصطفے خان، حکیم احسن اللہ خان وغیرہ۔ ہم اور بہت سے اہل سنت اور امامیہ دونوں فرقوں کے لوگ جنازے کی مشایعت میں شریک تھے۔ سید صفدر شاہ نبیرہ، بخشی محمود خان نے نواب ضیاء الدین احمد سے کہا کہ مرزا صاحب شیعہ تھے ہم کو اجازت ہو کہ ہم اپنے طریقے سے موافق ان کی تجہیز و تکفین کریں۔ مگر نواب نے نہی مانا اور تمام مراسم اہل سنت کے موافق ادا کیے۔ اس میں شک نہی کہ نواب صاحب سے زیادہ ان کے اصلی مذہبی خیالات سے کوئی

شخص واقف نہی ہو سکتا تھا مگر ہمارے نزدیک بہتر ہوتا کہ شیعہ اور سنی دونوں مل کر یا علیحدہ علیحدہ ان کے جنازے کی نماز پڑھتے اور جس طرح زندگی میں ان کا برتاؤ سنی اور شیعہ دونوں سے یکساں رہا تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی دونوں فرقے ان کی حق گزاری میں شریک ہوتے ”۔

ذکر غالب میں ملک رام لکھتے ہیں کہ غالب کے مذہب کے بارے اختلاف کی بنیاد اسی واقعے نے ڈالی۔ فرض کر لیا گیا کہ حکیم احمد خان اور خاص کر ضیاء الدین احمد سے زیادہ ان کے معتقدات سے زیادہ بھلا اور کون واقف ہو سکتا تھا۔ لیکن مالک رام کے بقول یہ سراسر مغالطہ تھا۔

عام خیال بھی یہی ہے کہ مرزا کے شیعہ ہونے میں دو رائے نہی ہیں۔

مرزا کے آبا کا پیشہ سپہ گری تھا اور وہ عقیدہ کے اعتبار سے سنی تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیشہ آبا کو ترک کرنے کی طرح انھوں نے مذہب آبا کو بھی آخر کیوں ترک کیا۔ اس سلسلے میں اکثر محققین کی یہ رائے ہے کہ ان کی زندگی میں یہ تبدیلی ملا عبدالصمد لے کر آئے۔ ان کا تعلق ایران سے تھا۔ مرزا کی عمر جب چودہ سال تھی تو ان سے تعارف ہوا۔ آپ دو سال تک مرزا کے فارسی کے معلم رہے۔ آپ پارسی تھے لیکن بعد میں اسلام قبول کیا۔ چونک اہل ایران ایک زمانے سے شیعہ مسلک کے پیروکار رہے ہیں اس لیے ملا عبدالصمد بھی اسی عقیدے کے ماننے والے تھے۔ چنانچہ آپ کے زیر اثر مرزا نے شیعہ مذہب اختیار کیا۔

مرزا کا شیعہ ہونا ان کے فارسی اور اردو کلام اور خطوط سے واضح ہے۔ ہاں ایک بات قابل توجہ ہے۔ آپ شیعہ ہوتے ہوئے بہی تبرا کے قائل نہ تھے بلکہ تولا پر یقین رکھتے تھے، یعنی یہ کہ حضور اکرم کے بعد تمام صحابہ میں بلند حیثیت حضرت علی کی ہے۔ وہ یہ نظریہ رکھتے تھے کہ تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جبکہ حضرت علی چاند ہیں۔ اسی طرح آپ بارہ اماموں کے عقیدے کو بھی مانتے تھے۔

ان کے عقیدہ کا ایک قابل توجہ پہلو یہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کی ذات اور تعلیمات قرآنی کو اپنی شوخی کی ذد پہ رکھنے کو ذرا بھی نہی چوکتے تھے، جیسے۔ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن۔ دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ لیکن نبی اکرم کا ذکر ہمیشہ بہت احتیاط سے کیا اور یوں بقول شخصے با محمد ہشیار باش رہے۔ بقول حالی انہوں نے عبادات ’فرائض و واجبات سے صرف دو چیزیں لی تھیں، ایک توحید وجودی اور دوسرے نبی اکرم اور اہل بیت کی محبت۔

دوسری طرف ان کے سنی العقیدہ ہونے کے قائل حضرات اکثر اس رباعی کا حوالہ دیتے ہیں۔
جن لوگوں کو مجھ سے ہے عداوت گہری
کہتے ہیں وہ مجھے رافعی و دہری
دہری کیونکر ہو جو کہ ہووے صوفی
شیعی کیونکر ہو ماورا النہری۔

اگرچہ بہت سے مداحین غالب کے نزدیک یہ رباعی، مستند ہے میرا فرمایا ہوا، کی قبیل میں آتی ہے لیکن بقول حالی یہ بھی ان کے حیوان ظریف ہونے کی ایک مثال ہے۔ ان کے بقول مرزا کے شیعہ العقیدہ ہونے میں پورے دربار میں کسی کو بھی شک و شبہ نہی تھا لیکن مرزا بادشاہ اور اہل دربار کے تفنن کے لیے ایسے اشعار موزوں کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن دربار میں سلطان نظام الدین اور امیر خسرو کی خصوصیات کا ذکر ہو رہا تھا۔ مرزا نے اسی وقت یہ شعر کہا،

بنے دو مرشدوں کی قدرت حق سے دو طالب
نظام الدین کو خسرو، سراج الدین کو غالب۔
”حکیم فرزانہ“ میں شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں۔

ایک اور دلچسپ مسئلہ مرزا کا مذہب ہے۔ ان کی تصانیف سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں مذہب سے دلچسپی عوام سے زیادہ گہری تھی مہر نیمروز جس کے شروع میں ابتدائے آفرینش سے متعلق ہندو عقائد کا خلاصہ درج ہے اور دوسری طرف بعض اشعار سے ہندو عقائد کے متعلق مرزا کی جو غیر معمولی واقفیت ظاہر ہوتی ہے وہ آج بھی شاید بھت کم مسلمانوں کو ہو گی۔ ان کے جزوی عقائد سے قطع نظر، عام مذہب سے متعلق مرزا کا نکتہ نظر بہت دلچسپ رہا ہے۔ مرزا کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ مذہب کے معاملے میں بے حد آزاد خیال تھے۔

دیر و حرم آیینہ تکرار تمنا
وامانگی شوق تراشے ہیں پناہیں
کیا خوب ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے۔

مصنف کے بقول غالب کی آزاد خیالی میں بیدل کی طرح بے قاعدگی نہ تھی۔ عام طور پر شریعت اور طریقت کے راستوں کو جدا جدا سمجھا جاتا ہے۔ آپ طریقت سے قریب تھے جو شیعہ عقیدے کے تناظر میں غیر مروجہ رجحان تھا۔

” غالب کون ہے“ میں سید قدرت نقوی نے حالی کے خیالات پہ تنقید کی ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ان کا مذہب صلح کل تھا مبہم بات ہے کیونکہ اس نام کا کوئی مذہب اپنا وجود نہی رکھتا۔ دوئم ضیاء الدین خان نے غالب کی تجہیز و تکفین کے وقت ان کے عقیدے کو مد نظر رکھنے کی بجائے اپنے عقیدے کو ملحوظ رکھا۔

مولانا غلام رسول مہر کے مطابق غالب کی تحریروں میں شیعت کی جھلک نمایاں تھی۔ بلاشبہ ان کا میلان مسلک تشیع کی طرف تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شیعت تفضیل تک محدود تھی۔ نقوی صاحب کے بقول یہ بھی ایک الجھا ہوا بیان ہے کیونکہ سب کچھ کہہ دینے کے باوجود شیعت سے انکار کا تاثر موجود ہے۔ نقوی صاحب کے بقول آپ پچیس سال کو پہنچنے سے کافی پہلے یہ عقیدہ اپنا چکے تھے جس کا ثبوت ان کی اس دور کی شاعری میں واضح طور پر ملتا ہے۔

امام ظاہر و باطن، امیر صورت و معنی
علی ولی، اسداللہ، جانشین نبی ہے۔
اسد جہاں کہ علی بر سر نوازش ہے
کشاد عقدہ دشوار، کار آساں ہے۔
غالب ہے رتبہ فہم تصور سے کچھ پرے
ہے عجز بندگی کہ علی کو خدا کہوں

سید قدرت نقوی نے جو نکات حالی اور مہر کے خیالات کے حوالے سے اٹھائے ہیں وہ قابل غور ضرور ہیں لیکن حالی کا یہ کہنا کہ آپ کا مذہب صلح کل تھا کوئی مبہم بات نہی۔ یہ بھی درست کہ صلح کل کوئی مذہب نہی ہے لیکن اس سے کیا انکار کہ یہ طرز زندگی ضرور ہے۔ ایک ایسا طرز زندگی جو مذہب کی روح کے عین مطابق ہے۔ طرز زندگی اس وقت خاص اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے جب عقیدے پہ فرقہ واریت کا رنگ غالب آ جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہب اور فرقہ سے بالا ہو کر جیسی وسیع دوستی و تعلق آپ کے ہاں پایا گیا صلح کل کی ایسی مثال بر صغیر کی گنگا جمنی تہذیب میں پھر ایسی آب و تاب سے شاید کبھی بھی نہیں چمکی۔

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں
المختصر محققین کی رائے، تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ یہی ہے کی آپ شیعہ العقیدہ تھے۔

آپ نے ابھی تک غالب کے ناقدین کی آرا ملاحظہ کیں، اب ذرا ان کے ایک مداح کی بات بھی سن لیجیے۔ یہ ہمارے دوست راجہ محمد خان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر شاعری کی بنیاد پر عقائد کا فیصلہ کرنے لگو تو بڑے بڑے شاعر بشمول اقبال دو چار گام پر تواتر سے فتوے کی ذد میں آتے ہیں۔ لہذا میرے نزدیک تو غالب کا غدر کے بعد ایک گورے کے سامنے پیشی پہ یہ کہنا کہ آدھا مسلمان ہوں کیوں کہ شراب پیتا ہوں سور نہی کھاتا، ان کے مذہب کے باب میں حرف آخر ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مجھے حیرت ہے کہ مذہب کے بارے میں اتنے واضح بیان کے باوجود اہل ذوق کیونکر انہیں نہ صرف پورا مسلمان بلکہ سنی یا شیعہ بھی ثابت کرنے پہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے کمر بستہ ہیں۔ اگر خدا لگتی کہی جائے تو ان اہل ذوق کا اسلام بھی عمومی طور پہ ادھے مسلمان والا ہی ہوتا ہے لہذا اسے ہی بجا اور سچ سمجھنے میں غالب سے زیادہ ان سب کا بھلا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی اس سے بڑھ کر بھلا کیا کہے۔
تم ایسے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments