سن رہا ہے نا تو رو رہا ہوں میں


میں نے بہت لمبی جد و جہد کی ہے۔ 22 سال کے بعد میں اقتدار میں آیا۔ میں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا۔ میں نے ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنا تھا۔ میں نے آئی ایم ایف سے قرض نہیں لینا تھا۔ میں نے اس مقصد کے حصول کے لیے بار بار وزیر خزانہ بدلے۔ میں تبدیلی کا علم بردار ہوں۔ اس لیے باقی وزارتوں میں بھی مستقل بنیادوں پر تبدیلی لاتا رہا۔ کبھی دو وزیروں کی وزارت آپس میں بدل دیتا تو کبھی نئے وزیر اور مشیر لگا دیتا۔ کئی بار تو خود مجھے بھی بھول جاتا تھا کہ ان دنوں کس محکمے کا کون وزیر ہے۔ اتنی محنت کے باوجود یو ٹرن لے کر اتنا قرض لینا پڑ گیا کی ایک ریکارڈ بن گیا، میری ٹیم سے معیشت سنبھل ہی نہیں رہی تھی مگر اپوزیشن نے تو واویلا ہی شروع کر دیا کہ اس نے گزشتہ تمام حکومتوں سے زیادہ قرض اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں لے لیا ہے۔

میں نے وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچیں اور پارلیمنٹ آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا سستا سفر اختیار کیا تا کہ ملک کا خزانہ بھر جائے مگر شاید خزانے کی پوٹلی میں کوئی سوراخ تھا کہ وہ بھرنے میں نہیں آ رہی تھی۔ اب پونے چار سال بعد لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ تین تین کروڑ لے کر ڈی سی لگائے جاتے تھے اور لاکھوں لے کر ٹرانسفر کی جاتی تھی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، پنجاب میں تو میں نے ’وسیم اکرم پلس‘ کو وزیر اعلیٰ لگایا تھا۔ میرا دل جانتا ہے کہ میں نے کس دل سے اسے سبکدوش کیا۔

اتنے سکینڈل تو فلمی ستاروں کے نہیں بنتے جتنے میری حکومت کے بنتے چلے گئے۔ ادویات کا سکینڈل بنا۔ دواؤں کی قیمت میں یک دم 100 سے 350 فی صد اضافہ ہو گیا تھا۔ مجھے اپنے ہی وزیر صحت کو نکالنا پڑا، لیکن پھر نرم دل ہونے کی وجہ سے میں نے اسے پارٹی کا عہدہ دے دیا۔ پشاور کی بی آر ٹی کی کرپشن کا سکینڈل بن گیا۔ 38 ارب کا پراجیکٹ 120 ارب پر پہنچ گیا تھا۔ وہ تو شکر ہے ابھی تک اس کیس پر سپریم کورٹ کا سٹے آرڈر موجود ہے ورنہ خواہ مخواہ جگ ہنسائی ہوتی۔ انرجی سکینڈل، چینی سکینڈل، آٹا سکینڈل، بلین ٹری سونامی سکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، کورونا فنڈ اور ویکسین سکینڈل، کس کس کا ذکر کروں۔ لیکن اس میں میری کیا غلطی ہے؟ میں تو آیا ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے تھا۔

اپوزیشن میرے خلاف سازشیں کرتی ہے۔ انہوں نے سازش کر کے مجھ سے مہنگائی کروا دی۔ ڈالر 105 سے 190 کا ہو گیا۔ آٹا 35 سے 75 روپے کلو ہو گیا، سونا 50 ہزار سے سوا لاکھ فی تولہ ہو گیا، چینی 55 سے 110 روپے ہو گئی، گھی 170 سے 500 ہو گیا، بجلی کا یونٹ 8 سے 21 کا ہو گیا، گیس کے بل کئی سو گنا بڑھ گئے، تجارتی خسارہ بڑھا، بیرونی قرضے بے تحاشا بڑھے، شرح نمو 6 سے گر آدھی سے بھی کم رہ گئی۔ اس کے باوجود میں ڈٹ کر کھڑا رہا۔ میں نے کبھی ہار نہیں مانی۔

امریکا کی میری حکومت نے سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔ میں نے جب امریکا کا دورہ کیا تھا تو اس وقت کی میری اور سابق صدر ٹرمپ کی مشترکہ پریس کانفرنس سن لیں، آپ کو یقین آ جائے گا۔ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا تھا کہ پہلے والی حکومتیں ہماری نہیں مانتی تھیں لیکن اس حکومت میں ہمارے مطالبات پورے ہو رہے ہیں۔ ہم نے افغانستان میں امریکی پالیسی کے تحت فوج بھیج کر طالبان کو قبضہ منتقل کروایا اور امریکی سپلائی اور انخلا میں اسلام آباد کے ہوٹل خالی کروا کے انخلا میں مدد کی، یہ تو سب جانتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے بیسیوں وزیر اور مشیر امریکا سے امپورٹ کیے۔ جیسے شہباز گل، زلفی بخاری، شہزاد اکبر، شوکت ترین، حفیظ شیخ، ندیم بابر، رضا باقر وغیرہ۔ اب کہتے ہیں کہ میری فارن پالیسی ناکام ہے۔

عالمی طاقتیں بھی میری کارکردگی سے جلتی ہیں۔ انہوں نے میرے خلاف سازش کی۔ جب میں نے 23 فروری 2022 کو روس کا دورہ کیا تو امریکا بھی میرے خلاف ہو گیا۔ اور اسی کے کہنے پر اور اسی وجہ سے اپوزیشن نے میرے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری طرح امریکا کے ساتھ بھی روحانی طاقتیں ہیں کیونکہ اسے گزشتہ برس ہی پتا تھا کہ میں فروری میں روس کا دورہ کروں گا، اسی لیے اس نے عدم اعتماد والی سازش گزشتہ برس ستمبر اکتوبر سے ہی شروع کر رکھی تھی۔

اس وقت اپوزیشن ایسے اعلانات کرتی رہتی تھی مگر مجھے لگتا تھا یہ سب مذاق کر رہے ہیں۔ پھر جب انہوں نے تحریک پیش کی تو میں نے شکر کیا کہ یہ کچھ سنجیدہ تو ہوئے۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ سچ مچ ہی مجھے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیں۔ چنانچہ میں نے بھی سرپرائز دے دیا۔ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دے کر تحریک عدم اعتماد ہی مسترد کر دی۔

عدالت نے اس رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا جس پر مجھے بہت افسوس ہے۔ دل رو رہا ہے کیا آپ سب جانتے نہیں کہ میں نے کتنے لمبے انتظار کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کی تھی۔ میں آخر میں یہی کہوں گا کہ میرا ساتھ دیں تا کہ میں دوبارہ اس کرسی پر بیٹھ کر آپ کے لیے اسی طرح کے فیصلے کر سکوں جیسے پہلے کیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments