مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں!!


ہمارا ذاتی اعتقاد ہے کہ مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مظلوم کا لفظ فقط عورت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ لفظ صنف مخالف کے لیے استعمال کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں، ارے مظلوم تو فقط عورت ہوتی ہے مرد بھلا کہاں؟ ہمارے ہاں عورت کو ہی مظلوم گردانا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ چورن ہے جو اچھا بکتا ہے اور جس کے خریدار بھی موجود ہیں۔ ہم جانتے ہیں اس عنوان پر ہمیں خوب آڑے ہاتھوں لیا جائے گا اور سب سے زیادہ مخالفت ہماری اپنی ہی خاتون برادری کی جانب سے کی جائے گی مگر مرد کی مظلومیت کے ہمارے پاس واضح شواہد موجود ہیں۔

اب آپ ہی بتائیے کہ اس سے زیادہ مظلومیت کیا ہوگی کہ مرد بیچارے منے کے ڈائپر سے لے کر خاتون کے پرس تک کی رکھوالی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی جب بیگمات بیچاری تھک جاتی ہیں تو ان کے لیے شام کی گرماگرم چائے بناتے ہیں۔ ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ ہماری شادی کو پندرہ سال ہو گئے ہیں اور آج تک بیڈ ٹی ہمیں ہمارے میاں پیش کرتے ہیں۔ جب تک ان کے ہاتھ کی چائے نہ پیے ہماری صبح نہیں ہوتی۔ گھر کی کفالت سے لے کر بجلی کے بل، بچوں کی پڑھائی کے اخراجات، سودا سلف، خریداری اور بیگمات کی جابجا خواہشات ان سب کو مرد حضرات پورا کرتے ہیں۔

ہمیں کبھی کبھی اپنا آپ ایک ملکہ سے کم نہیں لگتا جب ہم بازار کی بھیڑ میں ہوں اور ہمارے بابا یا بھائی ہماری ڈھال بن کر بھیڑ سے گزارتے ہیں۔ ہم نے بذات خود ایسے کئی مرد حضرات کو دیکھا ہے جو عید یا شادی بیاہ کے موقعوں پر بیوی بچوں کو شاپنگ کروا دیں گے اور خود پرانا سوٹ پہن کر شکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرض شناسی اور اپنے کنبے سے محبت کی اس سے اعلی مثال اور کیا ہو سکتی۔ مرد وہ ہے جو تن تنہا دھوپ میں سڑتا ہے تاکہ اس کے بیوی بچے عیش کی زندگی بسر کر سکیں۔ جو تنہا باہر لوگوں کے تضحیک آمیز جملے برداشت کرتا ہے تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ سکے، جو خود بھوکا رہ لیتا ہے مگر اپنے کنبہ کو بہترین کھلاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال کے آغاز میں چند نام نہاد لبرلز نکلتے ہیں اور ملکی املاک کو نقصان پہنچاتے، ایسے شرم ناک نعروں کو بلند کرتے ہیں جن کو کوئی شریف النفس شخص دہرا نہیں سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب آپ کے ملک میں خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں تو ایسے بیہودہ نعروں کو بلند کر کے کون سے عزائم حاصل کرنا مقصود ہیں؟ ہر سال عورت مارچ کے نام پر کیا عورت کی تضحیک کرنا جائز ہے؟ وہ تمام حقوق جن کی آڑ میں ایسے سلوگن بنائے جاتے ہیں کیا وہ اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں؟

اپنا کھانا خود گرم کرو یا اپنا موزہ خود تلاش کرو یہ نعرے کن حقوق کو عیاں کر رہے؟ کیا بات واقعی کھانا گرم کرنے کی ہے یا اصل میں عورت کا جنسی استحصال مراد ہے؟ مجھے اور ہر باشعور پاکستانی خاتون کو فخر ہے کہ جب ہمارے باپ بھائی یا شوہر تھکے ہوئے گھر آئیں تو ان کے لیے بہترین دسترخوان آمادہ کریں، آفس جانے کے لیے ہر شے بروقت مہیا کریں یہ وہ ہنر ہے جو ایک عام ان پڑھ خاتون بھی جانتی ہے۔ ہم نے بیشتر خواتین سے ان کے حقوق کے حوالے سے سروے کیا جس میں ستر فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ گھر کی چاردیواری میں بہترین عائلی زندگی بسر کر رہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کو جس نہج پر دھکیلا جا رہا ہے یہ قابل فکر لمحہ ہے۔

وہ مسائل جو ہمارے معاشرے کا جزو نہیں ان کی آڑ میں مغرب جس بے راہ روی اور عریانیت کی جانب ہمیں دھکیل رہا وہ قابل تذکر ہے۔ مگر افسوس تب ہوتا ہے جب معاشرے میں عورت مارچ کے نام پر بیہودہ نعرے بلند کیے جاتے ہیں اور سادہ لوح عوام بآسانی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ایسے نعرے بلند ہونا درحقیقت فرائڈ کے نظریات کو پروان چڑھانا ہے۔ عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کرتے یہ افراد درحقیقت عورت کے نام پر عورت کے جنسی استحصال کے خواہاں ہیں۔

اسلامی معاشرے میں ایسے شرم ناک سلوگن کا بلند ہونا مغربی ثقافتی یلغار کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ہم نے اس موضوع کی طرف توجہ نہ کی تو جلد یہ ناسور تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ آخر میں اپنی ماوٴں بہنوں سے فقط یہ گزارش ہے کہ مغرب کے دلفریب نعروں کے پیچھے کہی اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے نہ گنوا بیٹھیں۔ بقول اقبال

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر مت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments