مرلے اوبرون: ہالی وڈ کی وہ معروف اداکارہ جنھوں نے مرتے دم تک اپنی انڈین شناخت چھپائی

میرِل سباستین - بی بی سی نیوز دلی


مرلے اوبرون
مرلے اوبرون کی پیدائش ممبئی میں ہوئی تھی
بلیک اینڈ وائٹ دور کی ہالی وڈ سٹار مرلے اوبرون کو انڈیا میں سب بھول چکے ہیں، یعنی وہی انڈیا جہاں وہ پیدا ہوئی تھیں۔

کلاسک فلم ’ووتھرنگ ہائٹس‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے مشہور، اوبرون 1911 میں ممبئی میں ایک اینگلو انڈین خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن ہالی وڈ کے سنہری دور میں بطور ایک سٹار انھوں نے اپنے ماضی کو راز میں رکھا اور زندگی بھر خود کو سفید فام ظاہر کرتی رہیں۔

امریکہ میں مقیم مصنف اور ماہر تعلیم میوکھ سین سنہ 2009 میں ان کا نام سُن کر اُس وقت چونک گئے جب انھیں پتہ چلا کہ اوبرون جنوبی ایشیائی نژاد پہلی اداکارہ تھیں جنھیں آسکر کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

میوکھ سین جوں جوں ان کی فلمیں دیکھتے گئے مرلے اوبرون اور ان کے ماضی کے بارے میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی اور انھوں نے ان کے ماضی کو کریدنا شروع کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بطور ایک انسان میں اس احساس کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں کہ آپ کو ایک مختلف معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے اپنی شناخت کا ایک حصہ چھپانا پڑے، وہ بھی ایک ایسا معاشرہ جو آپ کو اس طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جیسے آپ ہیں۔‘

سین اب اوبرون کی کہانی کو جنوبی ایشیائی نقطہ نظر سے بتانے کے لیے ایک سوانح عمری پر کام کر رہے ہیں۔

مرلے اوبرون کی ابتدائی زندگی

مرلے اوبرون سنہ 1911 میں بمبئی (جو اب ممبئی ہے) میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ سنہالہ اور ماؤری نسل سے تھیں جبکہ ان کے والد برطانوی تھے۔

سنہ 1914 میں اوبرون کے والد کی وفات کے بعد یہ خاندان سنہ 1917 میں کلکتہ (موجودہ کولکتہ) منتقل ہو گیا۔

سنہ 1920 میں انھیں کلکتہ ٹھیئیٹریکل سوسائٹی کے ذریعے اداکاری کا موقع ملا۔

اوبرون نے اپنی پہلی فلم ’دی ڈارک اینجل‘ دیکھی جو ایک خاموش فلم تھی اس فلم کی اداکارہ ولما بنکی سے متاثر ہو کر انھوں نے اداکارہ بننے کا فیصلہ کیا۔ سین کے مطابق، ایک آرمی کرنل نے انھیں ایک فلسماز ریکس انگرم سے متعارف کروایا جس کے بعد وہ 1928 میں فرانس چلی گئیں، ریکس نے انھیں اپنی فلموں میں چھوٹے موٹے رولز دیے۔ اوبرون کی والدہ شارلٹ سیلبی، جن کی جلد براؤن تھی، ان کی خادمہ کے طور پر اُن کے ساتھ رہنے لگیں۔

سنہ 2014 کی ایک دستاویزی فلم ’دی ٹربل ودھ مارلے‘ میں بعد میں پتہ چلا کہ سیلبی درحقیقت اوبرون کی والدہ نہیں دادی تھیں۔ اوبرون سیلبی کی بیٹی کانسٹینس کے یہاں نوعمری میں پیدا ہوئی تھیں اور مبینہ طور پر دونوں کی پرورش کچھ برسوں تک بہنوں کی طرح ہوئی تھی۔

اوبرون کو پہلا بڑا موقع فلسماز سر الیگزینڈر کورڈا سے ملا۔ بعد میں جن کے ساتھ انھوں نے شادی کر لی تھی، الیگزینڈر نے اپنی فلم ’پرائیویٹ لائف آف ہینری دی ایٹتھ‘ میں انھیں اینا بولین کے طور پر کاسٹ کیا۔

مرلے اوبرون

’ہنری دی ایٹتھ‘ میں اوبرون کا کردار اینا بولین کا تھا

ماضی کی فرضی کہانی تیار کی گئی

مبینہ طور پر کورڈا کے پبلسٹی ٹیم کو اوبرون کی نسل کی وضاحت کے لیے ایک کہانی ایجاد کرنی پڑی۔

’تسمانیہ کو ان کی نئی جائے پیدائش کے طور پر منتخب کیا گیا تھا کیونکہ یہ امریکہ اور یورپ سے بہت دور تھا اور عام طور پر اسے ’برطانوی‘ ہی سمجھا جاتا تھا۔ ’دی ٹربل ودھ مارلے‘ کی ڈائریکٹر، ماری ڈیلوفسکی نے اپنی دستاویزی فلم کے نوٹس میں یہ بات لکھی ہے۔

ڈیلوفسکی نے کہا کہ اوبرون کو ہوبارٹ کی ایک اعلیٰ طبقے کی لڑکی کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا جو شکار کے ایک حادثے میں اپنے والد کی موت کے بعد انڈیا چلی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

صبا آزاد: ریتک روشن کی دوست کون ہیں؟

2018 میں ’مرزاپور‘ میں کام کیا اور پھر مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی: رسیکا دُگل

اغوا اور جنسی حملے کا شکار ہونے والی انڈین اداکارہ: ‘کئی بار خودکشی کرنے اور ملک چھوڑنے کا سوچا’

تاہم، اوبرون جلد ہی تسمانیہ میں مقامی روایات کا ایک بنیادی حصہ بن گئیں اور ان کے باقی کیریئر کے دوران، آسٹریلوی میڈیا نے فخر اور تجسس کے ساتھ ان پر گہری نگاہ رکھی۔ انھوں نے تسمانیہ کو اپنا آبائی شہر تسلیم کیا لیکن کلکتہ کا ذکر شاذ و نادر ہی کیا۔

لیکن کلکتہ نے انھیں یاد رکھا۔ صحافی سُنندا رے کہتی ہیں کہ ’1920 اور 1930 کی دہائیوں میں، بہت سے انگریزوں کی یادداشتوں میں اُن کا ذکر ملتا رہا ہے۔‘

’لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسی شہر میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ کہ وہ ٹیلی فون ایکسچینج کے سوئچ بورڈ پر آپریٹر تھیں اور انھوں نے فِرپو کے ریستوراں میں ایک مقابلہ جیتا تھا۔‘

فائل فوٹو

فلمساز سر الیگزینڈر کورڈا اوبرون کے پہلے شوہر تھے

ہالی وڈ میں کامیابی کا سفر

جب انھیں ہالی وڈ کی مزید فلمیں ملنی شروع ہوئیں تو اوبرون امریکہ چلی گئیں اور سنہ 1935 میں دی ڈارک اینجل میں اپنے کردار کے لیے آسکر کے لیے نامزد ہوئیں۔

لیکن 1939 کی ’ووتھرنگ ہائٹس‘ میں اداکار لارنس اولیور کے مقابل ان کی کارکردگی نے انڈسٹری میں ان کا مقام مضبوط کیا۔

سین کا کہنا ہے کہ انھیں مبینہ طور پر انڈیا میں پیدا ہونے والی ایک اور اداکارہ ویوین لی کے مقابلے میں منتخب کیا گیا تھا، کیونکہ فلم کی ٹیم کو لگا کہ وہ ایک بڑا نام ہے۔

فلم کے بارے میں نیویارک ٹائمز کے رویو میں کہا گیا ہے کہ اوبرون نے فلم کے کردار کو پوری طرح اپنے اندر سمو لیا تھا۔

سین کا کہنا ہے کہ 1930 کی دہائی کے اواخر نے اوبرون کو نام نہاد بڑی لیگ میں شامل کیا۔ ان کے قریبی حلقے میں میوزک کمپوزر کول پورٹر اور ڈرامہ نگار نول کاورڈ جیسی شخصیات شامل تھیں۔

سین کا کہنا ہے کہ کورڈا اور تجربہ کار پروڈیوسر سیموئیل گولڈ وِن نے اوبرون کو ان کے لہجے کو تبدیل کرنے میں مدد کی جس سے ان کے جنوبی ایشیائی لہجہے کو ختم کرنے میں مدد ملی۔

سین کا کہنا ہے کہ اوبرون کا راز اکثر ان پر بھاری پڑ جاتا تھا،حالانکہ ان کی ہلکی جلد والی رنگت نے سکرین پر انھیں سفید فام ثابت کرنے میں مدد کی لیکن اب بھی انھیں اکثر ان سرگوشیوں کو خاموش کرنے کی ضرورت پڑتی تھی کہ وہ مخلوط نسل تھیں۔ صحافی ان کے گندمی رنگ پر سوال اٹھاتے تھے۔

کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اوبرون کی جلد کو سفید کرنے یا بلیچ کرنے کے علاج سے نقصان پہنچا تھا۔

مرلے اوبرون

ایک کار حادثے کے بعد انکے چہرے پر نشان آ گئے تھے

سنہ 1937 میں ایک کار حادثے میں اوبرون کے زخمی ہونے اور ان کے چہرے پر نشان پڑنے کے بعد، سینماٹوگرافر لوسیئن بالارڈ نے ایک ایسی تکنیک تیار کی جس سے ان کے چہرے پر اس طرح روشنی پڑتی تھی کہ ان کے چہرے کے داغ ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ سنہ 1945 میں اوبرون نے کورڈا کو طلاق دی اور بالارڈ سے شادی کر لی۔

سین کے مطابق ’کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک مرلے کے چہرے کو کیمرے کے سامنے ’سفید‘ کرنے کا ایک طریقہ بھی تھی۔‘

اوبرون کے بھتیجے مائیکل کورڈا، جنھوں نے سنہ 1979 میں چارمڈ لائیوز کے نام سے ایک خاندانی یادداشت شائع کی تھی، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اوبرون کے ماضی کی اصل تفصیلات کو چھپا دیا تھا کیونکہ اوبرون نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر خاندانی یادداشت میں ان کے اصلی نام اور جائے پیدائش کو ظاہر کیا گیا تو وہ ان کے خلاف مقدمہ کر دیں گی۔

ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا ’میں نے سوچا تھا کہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزر چکا ہے، لیکن وقت گزرنے کے بعد بھی اپنے ماضی کے بارے میں بہت زیادہ محتاط تھیں۔‘

حقیقت کا چھپانا مشکل ہو رہا تھا

اب اس ڈرامےکو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔

سنہ 1965 میں جب اوبرون کو معلوم ہوا کہ مقامی صحافی ان کے ماضی کے بارے میں تجسس کا شکار ہیں تو انھوں نے اپنی عوامی تقریبات منسوخ کر دیں اور آسٹریلیا کا دورہ مختصر کر دیا۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ وہ سنہ 1978 میں تسمانیہ کے اپنے آخری دورے کے دوران پریشان تھیں کیونکہ ان کی شناخت کے بارے میں سوالات مسلسل گردش کر رہے تھے۔

لیکن انھوں نے کبھی بھی عوام کے سامنے سچائی کا اعتراف نہیں کیا۔ سنہ 1979 میں انھیں فالج ہوا اور وہ انتقال کر گئیں۔

سنہ 1983 میں ایک سوانح عمری ’پرنسس میرلے: دی رومانٹک لائف آف میرلے اوبرون‘ میں اُن کا اینگلو انڈین ورثہ سب کے سامنے آیا۔ مصنفین کو ممبئی میں ان کا پیدائشی ریکارڈ، سرٹیفکیٹ، اور ان کے انڈین رشتہ داروں کے پاس موجود خطوط اور تصاویر ملیں۔

سین کو امید ہے اس کتاب سے اس بات کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی کہ ایک جنوبی ایشیائی خاتون کے لیے ایک ایسی انڈسٹری میں جگہ بنانا کتنا مشکل تھا، ایک ایسی صنعت میں جہاں ان کے جیسے لوگوں کا خیر مقدم نہیں کیا جاتا تھا اور اوبرون کو کس قدر دباؤ کا سامنا تھا تاہم اتنے دباؤ اور جدو جہد کے دوران بھی انھوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments