خان صاحب سوچیے گا ضرور


خان صاحب! امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے، ابن الوقت قسم مشیروں کی بھیڑ بھی کم ہو گئی ہو گی، ریاستی امور کی انجام دہی سے بھی چونکہ فارغ ہو چکے ہیں، لہذا موقع محل دیکھتے ہوئے چند ایک چیزوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں، امید ہے کہ آپ ان غور کریں گے۔

سادہ لوح مسلمانوں کو آپ کے جس نعرے نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھا ریاست مدینہ کا نعرہ، کیا آپ جانتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں کسی کو گالی نہیں دی جاتی تھی، کسی کا نام نہیں بگاڑا جاتا تھا، ریاست مدینہ میں کسی ڈاکو سے اتحاد بھی نہیں کیا جاتا تھا، ریاست مدینہ میں کسی بہن بیٹی کے سر سے چادر نہیں کھینچی جاتی تھی بلکہ کافروں کی بیٹیوں کے سر بھی ڈھانپے جاتے تھے، وہاں کسی پر الزام لگتا تھا تو اس کی تحقیق کی جاتی تھی، گواہ طلب کیے جاتے تھے، جرم ثابت ہو جاتا تھا تو سزا دی جاتی تھی اور پھر کسی کی سفارش قبول نہیں کی جاتی تھی، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کسی مخالف کو اٹھا کر اسے جیل میں ڈال دو، دو سال بعد جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دو اور یہ بھی نہ سوچو کہ اس کے ان دو سالوں کا جواب کون دے گا؟

وہاں دشمن کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیا جاتا تھا، اگر عبدااللہ بن اریقظ اچھا گائیڈ تھا تو اسے اجرت دے کر اس کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، احد چیمہ یا فواد حسن کی طرح قید نہیں کیا جاتا تھا کہ تمہارا تعلق ہمارے مخالف سے کیوں ہے؟ وہاں کسی سیاسی مخالف کی کردارکشی کرانے کے لیے ریاستی پیسے سے میڈیا سیل نہیں بنائے جاتے تھے، وہاں کسی دشمن پر ہیروئن کے جھوٹے مقدمے نہیں بنائے جاتے تھے اور نہ ہی ان کو ثابت کرنے کی بجائے شواہد کی بجائے جھوٹی قسمیں کھائی جاتی تھیں، وہاں کے حاکم اپنی بات کو حرف آخر نہیں سمجھتے تھے، اگر کوئی عورت انہیں ٹوک کر اپنی رائے دیتی تھی تو وہ اسے دھکے دے کر اپنی محفل سے نکلوانے کی بجائے اس کی بات درست ہونے کی صورت میں سرعام اپنی بات سے رجوع کرتے تھے اور غلط ہونے کی صورت میں اسے پیار سے سمجھاتے تھے۔

خان صاحب! یہ بھی سوچیے گا کہ ریاست مدینہ کے حاکم صرف نام کے صادق اور امین نہیں تھے، انہیں صادق اور امین کا خطاب کسی مفاد پرست ٹولے نے نہیں بلکہ ان کے جانی دشمنوں نے دیا تھا، وہاں کے حاکم کا بیٹا اپنے والد کے لباس کا حساب بھرے مجمعے میں دیتا تھا، وہاں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ خود تو دشمن کی عاقل بالغ اولاد کا حساب ان کے والد سے لو لیکن جب اپنی بہن کی کسی ملک میں پراپرٹی کا پوچھا جائے تو اسے عاقل بالغ کہہ کر جان چھڑا لو، وہاں ریاستی وسائل سب کے سامنے تقسیم کیے جاتے تھے، وہاں کسی بھی ریاستی تحفے کو اپنا ذاتی مال سمجھ کر چوری چھپے بیچا نہیں جاتا تھا، وہاں کے حاکم کسی بھی کافر ملک میں مسلمان کی مدد کیا کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں کسی کافر کی مہم نہیں چلایا کرتے تھے، ریاست مدینہ میں ذاتی دوستی کی وجہ سے کسی مجرم دوست کو کیا گیا جرمانہ اس دوست کی جیب میں نہیں بلکہ قومی خزانے میں جاتا تھا، وہاں کے حاکم انصاف پر یقین رکھتے تھے، ان کی بیویاں کسی مافیا سے کروڑوں کے ہار تحفے میں نہیں لیا کرتی تھیں، وہاں کے حاکم اپنی سالیوں کو بغیر کسی اشتہار، انٹرویو اور اہلیت کے لاکھوں کی نوکریاں نہیں دیتے تھے، وہاں کسی کو بھی خریدنا منع تھا، ایسا نہیں تھا کہ ہم خرید سکتے ہیں لیکن وہ نہیں خرید سکتے، وہاں قانون کی حکمرانی تھی اور اس پر عمل کرنے کی ہزاروں دلیلیں، وہاں قانون سے بھاگنے کے لیے بہانے تلاش نہیں کیے جاتے تھے، احتساب کا عمل بھی ریاست مدینہ کا ایک نمایاں وصف تھا، احتساب کے نام پر صرف اللہ اور اس کے رسول کا حکم چلتا تھا کسی سپیکر کی غیر آئینی رولنگ نہیں، وہاں یتیموں کا ساتھ دیا جاتا تھا نہ کہ ان کے والدین کے قاتلوں کو سپورٹ دی جاتی تھی، وہاں کسی کرپٹ کو وزیر رکھا ہی نہیں جاتا تھا اور اگر کوئی وزیر کرپٹ نکل آتا تو اسے دوسری وزارت دینے کی بجائے برطرف کیا جاتا تھا، خان صاحب!

جب ریاست مدینہ کے حاکم نے لوگوں کو اپنی طرف بلایا تو ان سے کہا تھا کہ میں نے چالیس سال تم میں گزارے ہیں، کیا تم لوگوں نے مجھ میں کوئی عیب دیکھا ہے؟ یہ بہت بڑا چیلنج تھا لیکن سب کی زبانیں گنگ ہو گئیں، کردار ایسا ہو کہ لوگوں کی زبانیں ڈنڈا نہیں بلکہ کردار بند کرائے، زبان بندی کے قانون کا سہارا نہ لیا جائے، وہاں اگر کسی کا کوئی مار دیا جاتا تو ریاست اس کے آنسو صاف کیا کرتی تھی اور حاکم لواحقین کے بلانے کو بلیک میلنگ نہیں کہتا تھا، وہاں کھانے پینے سمیت کوئی بھی چیز غریبوں کی پہنچ سے دور نہیں کی جاتی تھی اور وہاں کوئی بھی حاکم کسی دوسرے کے کاموں کو اپنی جانب منسوب کر کے ان کا افتتاح نہیں کرتا تھا۔

خان صاحب! کہیں آپ نے ریاست مدینہ کا مقدس نام اپنے ذاتی مفادات کے لیے تو استعمال نہیں کیا تھا؟ صرف نعروں کی بجائے عملی اقدامات کیوں نہ کیے؟ آپ نے نبی کریم کی ذات بابرکات سے منسوب ایک بابرکت اصطلاح کو طنزومزاح کا استعارہ بنا دیا ہے، کہیں یہ اسی کی سزا تو نہیں؟

آخری بات! جب تحریک عدم اعتماد جمع ہو گئی تھی تو بھاگنے کی بجائے رائے شماری کراتے یا استعفاء دیتے اور عزت کو اقتدار پر ترجیح دے کر تاریخ میں امر ہو جاتے، یہ تمام اقدامات جن کی وجہ سے آپ اس حال کو پہنچے ہیں، اگر آپ نے خود اٹھائے تھے تو آپ کے خلاف سازش امریکا نے نہیں کی بلکہ خود آپ نے کی تھی، اور اگر یہ آپ کے مشیروں کی رائے تھی تو خدارا دوبارہ ان سے بچیے گا اور انتقام کی بجائے کارکردگی پر توجہ دیجیے گا کہ غریب کو آپ کے جھگڑوں کی بجائے اپنی روٹی عزیز ہوتی ہے۔ سوچیے گا ضرور! خان صاحب پلیز!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments