ووٹر بتائے گا کہ کتنے ہی بیس کا سو ہوتا ہے



کیا جلسوں کا بڑا ہونا اور سوشل میڈیا پر زیادہ لوگوں کا کسی ایک ٹرینڈ یا سپیس میں شامل ہونا کسی پارٹی کی اگلے الیکشن میں کارگردگی کا بتا سکتا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو ان دنوں عوام میں زیر بحث ہے۔ میں نے اس ملک کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد سے سے لے تحریک عدم اعتماد تک تمام ایونٹ بڑے قریب سے دیکھے۔ والد صاحب کے ساتھ لاہور بے نظیر کے استقبال کو گیا۔ واقعہ کارساز والے دن دوبارہ والد صاحب کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے کراچی خوش آمدیدی جلسے میں موجود تھا لیکن کارساز پہنچے سے پہلے رس کی وجہ سے نیپا سے نارتھ ناظم آباد واپس آ گیا تھا۔

اب چونکہ صرف ایک پارٹی جلسے کر رہی ہے۔ تازہ تازہ اقتدار کے ایوان سے نکلی ہے وہ ایک زخمی سانپ کی مانند جان بچانے کو تیزی سے میدان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھاگ رہی ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ان کے حامی اپنا بھرپور غم و غصہ نکال رہے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔ جلسوں ریلیوں میں شرکت کر رہے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے اب تک کسی نے زبردستی نہیں روکا اس لیے یہ تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ رمضان کی وجہ سے لیٹ نائٹ ہلا گلا بھی ہوجاتا ہے اور نوجوانوں کی دل پشوری بھی۔

لیکن یاد رکھا جائے کہ جب نواز شریف کو نکالا گیا تھا تب ان کے لیے ماحول انتہائی خطرناک بنا دیا گیا تھا۔ مذہب کا استعمال کر کے ان کے لیڈروں اور کارکنوں کو گولی سے کافر تک کے خطابات مل رہے تھے۔ حکومت ہوتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کو رینجر کورٹ میں داخل ہونے سے روک لیتی تھی۔ ان کی اولاد کو لندن سے بلوا کر عدالتوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ پھر تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی تھیں۔ ثاقب نثار و دیگر جج ہر روز ان کے خلاف ایسے ریمارکس دیتے جون کے کارکنوں کی ہمت کرنے کو کافی ہوتے تھے۔

پندرہ بیس بریف کیس پر عدالتی ثبوت لائے جاتے تھے۔ الیکشن سے قبل ن کے امیدواروں کو نا اہل کیا گیا۔ ایک ہی دن میں چالیس امیدواروں سے ٹکٹ واپس کروائے گے۔ جس نے مزاحمت کی اسے مارا پیٹا گیا۔ سارا میڈیا ان کی کردار کشی پر مرکوز تھا۔ کارکن تو اپنی جگہ اہم لیڈر خوف میں مبتلا تھے لیکن جی ٹی روڈ سے نواز شریف کی واپسی کے مناظر کو میڈیا بلیک آؤٹ ہونے کے باوجود پاکستان کی سیاست میں ایک کامیاب سیاسی ایونٹ کہا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف ابھی پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب لیڈر موجود ہیں۔ ایک لاٹھی تک نہیں چلی، راستہ نہیں روکا گیا۔ کسی کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جب آگے سے کوئی مذہبی جنونی تلوار لیے کھڑا ہو یا پولیس ڈنڈے، رینجرز راستہ روکے ہو یا پولیس آنسو گیس لیے تو کتنے لوگ ان کے سامنے کتنی دیر تک کھڑے ہو سکیں گے۔ کتنی فیملیز لش پش ہو کر مع بچوں کے جلسے میں آئیں گی اور باہر ملکوں سے کتنے لوگ ایسے وقت میں رو رو کر انٹرویو دیں گے۔

اب آتا ہوں سوشل میڈیا اور الیکشن کے زمینی حقائق کی طرف۔

پاکستان کی سیاست کا محور برادری اور قبائلی سسٹم ہے۔ اس میں جاگیردار، نواب سردار خان اور ملک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں سے کئی لوگ مرحوم ڈاکٹر عبد الحی بلوچ نے کسٹم میں بھرتی کیے مگر میں نے ان لوگوں کو کھلے عام سردار یار محمد رند کو اپنا سردار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیتے دیکھا۔ میرے آفس میں دس بارہ ایسے نوجوان ہیں جنھیں گوریج نے پنجاب سے پوسٹیں منگوا کر بھرتی کیا مگر ان سب سے اگلے الیکشن میں اپنے سردار نوتیزئی کو ووٹ دیا اور کھلم کھلا اس کی کمپین چلائی۔

الیکشن کے میدان کا فیصلہ سوشل میڈیا نہیں بلکہ بہترین حکمت عملی، طاقتور امیدوار کا انتخاب اور برادری کی حمایت کرتی ہے۔ اس معاملے میں نون لیگ سے بہتر حکمت عملی کوئی نہیں بنا سکتا اور نہ برادری لیول کو کوئی ان سے بہتر کیش کروا سکتا ہے۔ ابھی الیکشن کا میدان سجنے دیں۔ ووٹر کو چارج ہونے دیں پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا۔

بڑے جلسوں اور سوشل میڈیا کو دیکھ کر دل برداشتہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جو آج کپتان کے ساتھ ہیں یہ سب لوگ دہائیوں سے نواز شریف کا انٹی ووٹ ہیں یا کچھ ایک برانڈ پسند کرنے والے، پاکستان آرمی کی محبت میں ان کے ساتھ آ ملے ہیں۔ جن کے پاس فواد چوہدری کی طرح واپسی کا راستہ نہیں۔ ن یا پی پی کا ایک بھی ووٹر دو ہزار تیرہ کے بعد کپتان کی طرف نہیں گیا اور نہ وہ جائے گا۔ ابھی وہ الیکشن موڈ میں نہیں۔ ان کے لیڈر بزی ہیں۔ اس لیے مخالفین اپنی اکثریت دکھا رہے ہیں۔ ذرا ماحول بننے دیں۔ ٹکٹ مل مل لینے دیں۔ ن کا ووٹر جو انتہائی مشکل وقت میں اپنی قیادت کے ساتھ کھڑا تھا، دوبارہ نکلے گا اور پھر فیصلہ ہو گا کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments