سیاسی توشہ خانے کے تحفے


اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے قبل توشہ خانہ سے متعلق عام آدمی کی معلومات نا ہونے کے برابر تھیں اور شاذ و نادر ہی کوئی توشہ خانہ سے متعلق خبر آتی تھی۔ یہ عمران خان ہی تھا جس نے توشہ خانہ سے متعلق عوام کے اندر بات کرنا شروع کی اور حکمرانوں پر مہنگے تحائف کی کم قیمت پر خریداری پر سوالات اٹھانے شروع کیے۔ عمران خان کے سوال پر میڈیا کو جیسے کوئی کھلونا ہاتھ لگ گیا اور اس دن کے بعد سے توشہ خانہ کی تفصیلات بھی سیاسی مکس اچار کا لازمی جزو سمجھی جانے لگیں۔ مگر کسی کو کیا معلوم تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد یہ کپتان ہی ہو گا جو توشہ خانہ کی تفصیلات جاری کرنے سے اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ انکار کردے گا کہ اس سے دوست ممالک ناراض ہوجائیں گے۔

اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا مگر کپتان کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ ان کا اقتدار جلدی ختم ہو گیا وہ اپنی مدت ہی پوری نہیں کرسکے اور آج ان کے مخالفین برسراقتدار ہیں اور نتیجے میں توشہ خانہ کی تفصیلات کپتان کے دوستوں سمیت ہر سیاسی مخالف کے ہاتھ میں موجود ہیں۔ کپتان اپنے ہی توشہ خانہ کے جال میں پھنس چکے ہیں اور اب تحفوں کی فروخت کے بعد حاصل ہونے والی رقم سے متعلق بھی وضاحتیں پیش کر رہے ہیں۔ کبھی جوش میں آ کر کہتے ہیں میرے تحفے میری مرضی اور ان کے مخالفین ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ریاست کے تحفوں پر ریاست کی مرضی چلتی ہے نا کہ فرد واحد کی۔

جب تحفوں کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو کیوں نا تاریخ کے توشہ خانے سے ان تحفوں کا بھی ذکر کر لیا جائے جن کو ملک و قوم کا مسیحا بنا کر مسلط کیا گیا۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے عطا کیے جانے والے یہ کوئی معمولی تحفے نہیں تھے۔ بلکہ اپنے عہد کے گوہر نایاب، بیش قیمت اور اپنی نوعیت کے لمیٹڈ ایڈیشن تھے۔ ہر تحفہ اپنی مثال آپ تھا نا اس سے پہلے کوئی تحفہ ایسا ہوتا تھا اور نا بعد میں عطا ہونے والے تحفوں کے معیار میں کوئی کمی تھی۔ مگر ستم یہ کہ کوئی بھی تحفہ زیادہ دیر نا چل سکا اور اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس وقت کپتان جیسے نادر و نایاب تحفے کے ساتھ ہو رہا ہے۔

ملک و قوم کے لیے پہلا تحفہ گورنر جنرل غلام محمد تھے جو نا تو مسلم لیگی تھے اور نا ہی سیاسی کارکن تھے بلکہ بیوروکریٹ تھے اور موصوف نے ناصرف وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو گھر بھیج دیا بلکہ اسمبلی کو بھی ختم کر دیا۔ اس تحفے کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا ہی جا رہا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں تعینات سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم نامزد کر دیا۔ یوں قوم کو یہ دوسرا تحفہ ملا۔ بالآخر اختیارات کی جنگ فیصلہ کن مرحلے پر پہنچی اور گورنر جنرل نے اپنے لائے ہوئے وزیراعظم کے خلاف ایگزیکٹو پاور کو استعمال کرتے ہوئے 1954 میں دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔

وہیل چئیر پر براجمان فالج زدہ گورنر جنرل علاج کے لیے لندن گئے اور جاتے جاتے گورنر جنرل کا عہدہ توشہ خانے کے تحفے کی طرح میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا کو ہدیہ کر گئے۔ اسکندر مرزا نے محمد علی بوگرہ کو وزارت عظمی سے معزول کر کے واپس امریکہ سفیر بنا کر بھیج دی گویا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ اسکندر مرزا نے سول سروس میں گوہر نایاب ڈھونڈ نکالا اور بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو 1955 میں وزیراعظم بنا دیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سیاسی توشہ خانے کے تحفوں کی بھی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی جا سکتیں کہ دوست ممالک کی طرح کچھ دوستوں کے ناراض ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسکندر مرزا کے بعد ایوب خان، یحیحی خان، ضیا الحق، پرویز مشرف جیسے ہیروں کی قدر ہم جیسے ناعاقبت اندیش کیسے جان سکتے ہیں یہ تو جوہریوں کا ہنر ہے کہ وہ ان جیسے ہیروں کی قدرومنزلت اور قیمت سے واقف ہوتے ہیں۔ لہذا ملک و قوم کی تین دہائیاں ان ہیروں کی چکا و چوند کی نظر ہو گئیں۔ ان کے عہد زریں میں کیا بننا تھا اور کیا سے کیا بن گئے۔

ایک دہائی سکون سے گزری مگر پھر شوق ہوا کہ نیا تجربہ کیا جائے بہت مدت ہو گئی و قوم کو ایک نیا بیش قیمت تحفہ دیا جائے ایسے میں ایک پتھر کی تراش خراش شروع کی گئی اور ماہر ترین کاریگروں نے پتھر کو قیمتی ہیرے میں ڈھال دیا۔ اس پتھر کی چمک دمک، تراش خراش کاریگری کا شاہکار اور دیدنی تھی۔ اس شاہکار کی کی تخلیق پر جوہری بے اختیار بول پڑے کہ کیا شاہکار ہے۔ قوم کو اتمام حجت کے طور پر تبدیلی کے نام پر یہ ہیرا سونپ دیا گیا گویا اپنی محبت اور حجت تمام کردی گئی۔ اور بڑے فخر سے کہا گیا کہ قوم کس کس ہیرے کو جھٹلائے گی۔

تبدیلی کا یہ کوہ نور تاج شاہی میں تو سج گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے موتی بھی باہر سے منگوا کر تاج کی زینت بنائے گئے جس سے اس ہیرے کی شان و شوکت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہیرے کی چمک دمک ماند پڑنے لگی۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ سیاسی توشہ خانے کے اس تحفے کی تفصیلات بھی منظر عام پر آنے لگیں۔ چار سال میں اس ہیرے کی چمک دمک کیا ماند پڑی کہ کاریگروں کے ہنر پر سوالیہ نشان لگ گئے۔

سیاست کے حقیقی بازار میں اس ہیرے کے نرخ آئے روز گرنے لگے۔ تاج شاہی میں ایک اور ہیرا ایسے اپنی جگہ بنا چکا ہے کہ جیسے اسی کا انتظار تھا۔ جبکہ تبدیلی کے نام کا یہ ہیرا گلی کوچوں میں لوگوں کو اکٹھا کر کے دہائی دیتا پھر رہا ہے کہ شان و شوکت میرے دم سے تھی قدرومنزلت میرے سبب تھی اور تاج شاہی میں فقط میں ہی جچتا ہوں۔ مگر اس کو کون سمجھائے کہ ریاست کے تحفوں پر ریاست کے قوانین اور ریاست کی مرضی چلتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments