عمران خان پیدا کرنے والا معاشرہ


یہ سن دو ہزار تین اور چار کے آس پاس کی بات ہے ملک پر جنرل پرویز مشرف کا تسلط مستحکم ہو چکا تھا۔ اہم سیاسی قائدین ملک سے باہر تھے۔ اس وقت تک عمران خان کوئی اہم سیاسی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے مگر پھر بھی ایک سیاستدان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ٹی وی چینلز جو اپنی نئی نئی آزادی کا فائدہ اور لطف اٹھا رہے تھے عمران خان کو اپنے ٹاک شوز میں مدعو کرتے۔ عمران خان اس وقت جنرل مشرف کو اپنی دی گئی حمایت سے دستبردار ہو چکے تھے اور وہ فوجی جنتا کو خوب تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اور صاف لفظوں میں یہ بتاتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو کس طرح فوج کو اس کے اس رول تک محدود کر دیں گے جو آئین میں لکھا ہوا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ عمران خان تنقید کرنے کے معاملے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں اس لیے ان کی پرویز مشرف پر کی جانے والی تنقید دل کو خوب بھاتی تھی۔ اس وقت وطن سے دور بیٹھے ہم جیسے لوگ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے تھے کہ ملک میں سیاست کی واپسی کیسے ہوگی۔ تمام مین سٹریم سیاسی پارٹیاں سطح سے بالکل ہٹا دی گئی تھیں۔

نواز شریف جدہ میں تھے بے نظیر بھٹو کبھی دبئی میں ہوتی تھیں اور کبھی لندن اور کبھی امریکہ میں۔ عمران خان کی فوج پر تنقید اور فوج کے بارے میں ان کے مستقبل کے ارادے جان کر نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنے کو دل کرتا تھا۔ سیاستدان اپنے حالات اور تجربات سے سیکھتے ہیں اور اپنے نظریات و خیالات اور لائحہ عمل میں تبدیلیاں لاتے ہیں ایسے میں ان کو ماضی کا طعنہ دینا درست نہیں ہوتا۔ فوج کے بارے میں عمران خان کے نظریات کو ان کے خیالات کا ارتقا سمجھ کر قبول کیا۔

سیاسی جماعتوں پر ان کی تنقید سے گو کلی اتفاق تو نہ کل ممکن تھا نہ آج ہے مگر یہ واضح تھا کہ یہ سیاسی جماعتیں جانتے پوچھتے یا انجانے میں کھیل فوج کا ہی کھیلتی رہی ہیں۔ حصول اقتدار کے جو راستے ان جماعتوں نے تیار کیے وہ تمام گیٹ نمبر 4 کے سامنے سے گزرتے تھے۔ ایسے میں عمران خان نے اپنے آپ کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنا شروع کیا جنہوں نے شروع میں پرویز مشرف کی حمایت کی مگر ان کے ارادے بھانپ کر نہ صرف وہ ان سے الگ ہوئے بلکہ ان کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور وہ ”جیل“ بھی کاٹی جس کا وہ آج تک کریڈٹ لیتے ہیں۔

آئرلینڈ میں اس وقت تحریک انصاف کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں تھا تھا۔ یہ خاکسار ان دنوں دنیا بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کی تفصیلات اکٹھا کر رہا تھا۔ لندن کی ایک کانفرنس میں میں نے اپنا ڈیٹا پیش کیا تو وہاں تحریک انصاف کے ایک عہدے دار موجود تھے۔ وہ ملے اور تحریک انصاف کی آئرلینڈ میں تنظیم سازی کی بات کی۔ اس خاکسار نے حامی بھی بھری مگر بات آئی گئی ہو گئی۔ 2006 میں دوبارہ رابطہ کیا گیا اور تحریک انصاف کی ایک تربیتی میٹنگ میں خودکش حملوں پر تازہ تجزیہ پیش کرنے کے لیے مدعو بھی کیا گیا۔

لندن کی میٹنگ سے پہلے دو واقعات ہوئے۔ ایک تو ہماری نصف بہتر ڈاکٹر شازیہ نیلوفر کو آئرلینڈ میں تحریک انصاف کا پہلا کوآرڈینیٹر مقرر کر دیا گیا۔ اور دوسرے اس میٹنگ سے پہلے عمران خان نے طالبان پر ایک مضمون لکھا جو کئی اخبارات میں شائع ہوا۔ اپنے اس مضمون میں انہوں نے طالبان کو حریت کے ایسے علمبردار کے طور پر پیش کیا تھا جو مغربی استعمار کے خلاف ایک طویل جدوجہد کر رہے تھے اور جن کی کامیابی کو عمران خان نے پورے خطے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے مشروط کر دیا تھا۔

اس تحریر میں عمران خان کی طالبان کے بارے میں ناقص معلومات نے مجھے شدت سے چونکا دیا۔ میں نے اس وقت تک جو ڈیٹا اکٹھا کیا تھا وہ عمران خان کے خیالات سے براہ راست متصادم تھا۔ مجھے واضح طور پر یہ لگا کہ ان کی درست معلومات تک رسائی نہیں ہے۔ میں میٹنگ کے لیے لندن پہنچا تحریک انصاف برطانیہ کی کوآرڈینیٹر سے میٹنگ سے پہلے ملا۔ وہ میری گفتگو کی سلائیڈز پہلے ہی منگوا چکی تھی مگر مصروفیت کے سبب دیکھ نہیں پائی تھیں۔

میں نے ان سے صاف کہا کہ جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں وہ خان صاحب کے مضمون کے بالکل خلاف ہے۔ خان صاحب کے پاس موجود معلومات غلط ہیں۔ اس موضوع پر ان کی ناقص معلومات کا پول تو بعد میں متعدد بار کھلا۔ ان خاتون نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ خان اس وقت لندن میں ہے مگر ہم نے میٹنگ کے شرکاء کو ابھی تک نہیں بتایا کیونکہ ان کی یہاں آمد غیریقینی ہے۔ وہ کوشش کرنے لگیں کہ کسی طرح خان صاحب سے میری بات کروا سکیں لیکن خدا معلوم کیا ہوا کچھ دیر کے بعد وہ میرے پاس آئیں اور کہا کہ میٹنگ کے ایجنڈا میں کچھ تبدیلی کرنا پڑے گی اس لیے میرے پاس صرف پانچ منٹ ہوں گے اپنی بات مکمل کرنے کے لئے۔

وہ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی کہ ایجنڈے میں تبدیلی کا تعلق طالبان کے بارے میں میرے خیالات سے نہیں ہے۔ میں نے ان سے معذرت کی اور میٹنگ سے نکل آیا۔ بعد ازاں عمران خان کے طالبان کے بارے میں خیالات اور واضح ہوتے چلے گئے اور پھر شازیہ بھی ابتدائی کاوشوں کے بعد تحریک انصاف کے منصب سے الگ ہو گئیں۔ خان صاحب نے طالبان کے بارے میں پھر اپنی وہ پوزیشن لی جس نے ان کو طالبان خان کہلوایا اور پھر جس پوزیشن سے انہوں نے 2014 میں پشاور سکول کے سانحے کے بعد ظاہراً اور مجبوراً پسپائی اختیار کی۔

2008 کے بعد سے عمران خان کی تنقید کا رخ تبدیل ہو کر صرف اور صرف سیاستدانوں پر مرتکز ہو گیا۔ اب ان کے خیال میں پاکستان کا بنیادی مسئلہ صرف اور صرف کرپشن تھا۔ اس سے جزوی اتفاق تو ممکن تھا مگر کلی اتفاق تو نہ کل ممکن تھا نہ آج ممکن ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ صرف سیاست دانوں کی کرپشن۔ اور یہ عقدہ بھی کھلتے کھلتے کھلا کہ سیاستدانوں میں سے بھی ان کی مراد بنیادی طور پر شریف خاندان تھا۔ آصف زرداری بھی وقتاً فوقتاً ان کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے مگر ان کی نظر کرم خصوصیت کے ساتھ شریف خاندان پر مرکوز رہی۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو پر کبھی کھل کر ایسی تنقید کی ہو جیسی وہ شریف خاندان پر کرتے رہے ہیں۔

2013 کے انتخابات میں ناکامی نے عمران خان کے سیاسی رویوں میں زیادہ شدت اور غصہ داخل کر دیا۔ ان کی تنقید دشنام اور گالم گلوچ میں بدل گئی۔ دھرنے کے دنوں میں وہ گردن کی رگیں بھلا کر جو گفتگو کرتے تھے جہاں وہ بہت سو کی طبیعت منغض اور مکدر کرتی تھی وہی ان کی اس ننگی تنقید نے ان کے حامیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی کیا۔

اپنے طالب علمانہ استدلال میں تفصیل سے عرض کر چکا ہوں کہ پوسٹ کالونیل معاشرے انتہاپسندی کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں۔ اور کس معاشرتی ڈھانچے میں سیاسی رویے سیاسی نہیں رہتے بلکہ اپنی نوعیت میں انتہا پسند مذہبی عقیدے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں انتہا پسند قائدین، شعلہ بیان مقرر، مناظرہ بازی، خود راستی، اور اپنے سے مختلف صرف ہر شخص کو نہ صرف غلط اور گمراہ سمجھنا بلکہ اسے سخت سے سخت اذیت ناک سزا تک پہنچانے کی خواہش کی وجوہات ناصرف یہ کے موجود ہوتی ہیں بلکہ ماہرین نے ان وجوہات کو شناخت بھی کر رکھا ہے۔

پاکستانی معاشرہ اپنے پوسٹ کلونیل ڈھانچے، فوجی استبداد اور اس کی پیدا کردہ مذہبی انتہا پسندی، سیاستدانوں کی نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی اور ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور فرقہ واریت کے سبب اس نہج پر تھا کہ جہاں سے یا تو وہ سیاسی استحکام اور رواداری کی طرف جاتا یا پھر اس عدم برداشت اور انتہا پسندی کی طرف لوٹ جاتا جس کی راہ بالآخر عمران خان نے اس معاشرے کو دکھائی۔

اس معاشرے کے خد و خال جاننے کے لئے اب آپ کو نفسیات کے ہم ایسے طالب علموں کی ضرورت نہیں رہی۔ مقام شکر یہ ہے کہ جہاں یہ سیاسی انتہا پسندی اپنے زوروں پر ہے وہیں اس بات کا علم اور ادراک رکھنے والے لوگ اب مین سٹریم میڈیا میں بھی موجود ہیں جو ماضی میں موجود اسی طرح کے معاشروں کے خد و خال بیان کر کے یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت سے مماثلت رکھنے والی شخصیات نے کس طرح ماضی میں اپنے اپنے معاشروں میں تقسیم اور نفرت کی دیواریں کھڑی کیں۔

معاشروں کو تقسیم اور تشدد پر اکسایا۔ خود کو ہر معاملے کا ماہر قرار دیا۔ خود کو معیار حق ثابت کر کے اختلاف کرنے والوں کے لئے ہر وہ لیبل ایجاد کیا جو عام لوگوں کے جذبات بھڑکانے کا کام کرتا تھا جیسا کہ غدار چور اور ڈاکو وغیرہ۔ اب یہ بات متعدد لوگ بیان کر رہے ہیں کہ عمران خان میں وہ کون کون سے شخصی خواص موجود ہیں جو ماضی میں ہٹلر اور مسولینی اور حالیہ تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں میں بھی موجود تھے۔

میں یہ بات پہلے بھی کر چکا ہوں کہ نفسیات کے ہم جیسے طالب علموں کو ولہلم رائخ جیسے نابغے یہ بتا چکے ہیں کہ یہ عمران خان نہیں جو معاشرے کو فسطائیت کی طرف لے کے جاتا ہے اصل میں ذمہ دار وہ معاشرہ ہے جو عمران خان جیسے کردار تخلیق کرتا ہے۔ اصل ذمہ دار معاشرے کی وہ ذہنی حالت ہے جس میں ایسے کرداروں کی پرستش کی جاتی ہے۔ بالشتیوں پر مشتمل اور مسیحا کی تلاش کرتا معاشرہ جو دھوکا کھانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اقتصادی، علمی اور ثقافتی بدحالی اور اس پر پرتشدد واقعات کا تسلسل ایسے معاشروں میں غصے اور بے بسی کے جو احساسات پیدا کرتے ہیں اس میں عمران خان جیسے دبنگ، آسان زبان میں بات کرنے والے، عوام کے غصے کو نام دینے والے عوام میں دبے ہوئے غصے کو اکسانے والے لوگ خوب مقبول ہوتے ہیں۔

ان کی گالی جتنی ننگی ہوتی ہے اتنی زیادہ تالیاں بجتی ہیں۔ ان کا اپنے بارے میں دعوی جتنا بلند ہوتا ہے اتنا زیادہ یقین کیا جاتا ہے۔ عمران خان جب کہتے ہیں کہ وہ مغرب کو مغرب سے زیادہ سمجھتے ہیں تو ان کے ماننے والے اسی پر ایمان لاتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ملک کا اصل مسئلہ نواز شریف کی کرپشن ہے یا ڈالر کے ریٹ میں اضافہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے ہوتا ہے تو کوئی ان سے ان کی اس سادہ اور غلط تشریح پر سوال نہیں کرتا۔ جب وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہسپتال کے لئے بھی کبھی کسی غیر مسلم سے چندہ نہیں مانگا تو عام آدمی کیا بیچتا ہے پروفیسر احمد رفیق اختر جیسا عالم، عارف اور بارسوخ انسان بھی یقین کر کے گواہی دیتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ اپنے زوال کے جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں عمران خان جیسے لوگوں کے لیے جگہ ہی جگہ ہے۔ طاقت کو پوچھنے والے اور مسیحا ڈھونڈنے والے معاشرے ایسے عقل کور لوگوں کے لئے زرخیز زمین ثابت ہوتے ہیں۔

جب یہ بات دوستوں کے سامنے رکھی جاتی ہے ہے تو ہر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ حل کیا ہے۔ نفسیات کے دو لفظ جاننے والے کی کیا بساط کہ حل بتائے۔ تاہم اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ معاملات آپ سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہیں ان کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا تو وہی سب کچھ کریں جو اب تک کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو آئندہ ان سیاسی جماعتوں کو عمران خان کی اپنی نا اہلی تو کیا فوج بھی نہیں بچا سکے گی۔ دوسرا سیاسی معاملات کو استحکام کی جانب لے جانے کا راستہ ہے۔

ان جماعتوں کو سمجھنا پڑے گا کہ سیاسی نظام پر خاندانوں کا تسلط اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ باپ وزیر اعظم اور بیٹا وزیر اعلی۔ یہ وہ سیاسی نظام نہیں ہے جس کو عمران خان سے بچا سکیں گے۔ آپ کو کچھ اور کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا جعلی سہی، شہری ہی سہی، مگر اب رائے بناتا ہے۔ آپ کو معاملے کا یہ رخ بھی دیکھنا پڑے گا۔ وطن سے باہر رہنے والے پاکستانی ووٹر نہ سہی مگر ان کی رائے اور عمران خان کی جانب ان کی واضح حمایت کے اسباب سمجھنے پڑیں گے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے یہ معاملات نہ دیکھے تو عمران خان صرف ان کی سیاست ہی نہیں پاکستانی معاشرے کے بچے کھچے ڈھانچے کو بھی تہ و بالا کر کے چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments