قصہ ایک خط کا


امریکہ سے آنے والے سائفر جسے عمران خان اور ہمنوا خط بلکہ سازشی خط قرار دینے پر مصر ہیں کہ بارے میں اتنا زیادہ لکھا جا چکا ہے کہ اب بظاہر اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے عمران خان اور ان کے چاہنے والے ابھی تک نہ تو قومی سلامتی کمیٹی کی کسی رپورٹ کو ماننے کے لیے تیار ہیں، نہ ہی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں خاص طور پر آئی ایس آئی کی رپورٹ ماننے کو تیار ہیں اور نہ ہی امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے اس بیان کو ماننے کے لیے تیار ہیں جس میں انہوں نے اپنے سائفر کی وضاحت کی اور قومی سلامتی کمیٹی کو اصل حقائق سے آگاہ کیا۔

اسد مجید سے منسوب کئی فیک سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جعلی بیانات نشر کیے گئے، فوٹو شاپ کی اس ٹیکنالوجی میں چونکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بہت ماہر ہیں اور وہ اس سے قبل کئی دیگر سیاست دانوں کی کردار کشی کرچکے ہیں تو مجبوراً اسد مجید کو میدان میں آنا پڑا اور انہوں نے اپنے اصل اکاؤنٹ سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا یہ ہی اصل اور تصدیق شدہ اکاؤنٹ ہے اس کے علاوہ دیگر اکاؤنٹس سے جاری شدہ تمام بیانات جعلی ہیں اور اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

پی ٹی آئی کا ایک کمال ہے کہ اس نے اپنے چاہنے والوں کے سامنے اس قدر جھوٹ بولے، وہ جھوٹ بے نقاب بھی ہوئے مگر پی ٹی آئی والے حقائق تسلیم نہیں کرتے۔ انہیں جو بات عمران خان بتا دے وہ اس کے علاوہ کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہ اصل میں کوئی سیاسی نظریاتی جماعت تو ہے نہیں کرکٹ سٹار عمران خان کے چاہنے والوں کا ایک گروہ ہے۔ جس طرح ہر کھلاڑی، فلمی اداکار، فنکار یا گلوکار کے چاہنے والے ہوتے ہیں یا کسی خوبصورت لڑکی کے عاشق جنہیں صرف معشوق کی کسی ایک ادا سے پیار ہوتا ہے اور وہ محض اس ادا کی خاطر معشوق کی ساری خامیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے یہ ہی کر رہے ہیں نہ عمران خان کی شخصی خامیوں کو دیکھتے ہیں، نہ اس کے جھوٹے سیاسی بیانات کو اور نہ ہی اس کے ان غلط فیصلوں کو جس سے قوم و ملک عالمی برادری میں سر اٹھانے کے قابل نہیں۔

انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق مذکورہ بالا خط ایک سیدھا سادا سائفر تھا جس میں محض ڈونلڈ لو سے ایک نجی ملاقات کا تذکرہ تھا جو سفیر نے ذاتی حیثیت میں کی۔ اس ملاقات میں ڈونلڈ لو نے بتایا کہ امریکہ موجودہ پاکستانی حکومت کے کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سے ناراض ہے جس میں سے ایک وزیراعظم کی جانب سے بار بار طالبان حکومت کی وکالت کرنا اور اس کو تسلیم کرانے کے لیے دیگر اسلامی ممالک کو راضی کرنے کی کوششیں کرنا اور دوسرا حالیہ روس، یوکرین تنازعہ میں روس کی حمایت کرنا اور روس کا دورہ ایک ایسے وقت میں کرنا جب تمام عالمی برادری روس کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے روس سے تعلقات منقطع یا محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اگر پاکستانی حکومت نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو اس سے امریکہ کے تعلقات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ آخری تین لائنوں میں سفیر نے اپنا نقطہ نظر لکھا کہ اس ملاقات کے بعد میرا خیال ہے کہ پاکستان میں جب تک موجودہ حکومت رہتی ہے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکیں گے۔

ایک پیشہ ور سفارت کار کا یہ ایک سائفر تھا جو اس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنے ملک کو بھجوا دیا جو ہر سفیر کرتا ہے۔ وزارت خارجہ کے سائفر یونٹ نے اسے ڈی کوڈ کیا اور فائل کر دیا۔ یہ تمام واقعات سات، آٹھ مارچ کے ہیں۔ اس سے قبل اپوزیشن کوئی ایک سال سے تحریک عدم اعتماد کی کوشش کر رہی ہے جس کے روح رواں آصف زرداری صاحب ہیں لیکن مسلم لیگ نون ان سے متفق نہیں کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ قومی اسمبلی میں ہمارے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں ہیں اور تحریک عدم اعتماد کے ناکام ہونے سے سبکی ہوگی۔

نومبر دو ہزار اکیس میں آصف علی زرداری صاحب، شہباز شریف کو ان حکومتی اراکین سے ملوا دیتے ہیں جو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس طرح نومبر میں اپوزیشن باقاعدہ تحریک عدم اعتماد کی تیاری شروع کر دیتی ہے اور اپنے بیانات میں اس کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد باقاعدہ قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ میں جمع ہونے کے بعد عمران خان اعلان کرتے ہیں کہ وہ سرپرائز دیں گے مگر کئی جلسوں میں وہ سرپرائز دینے میں ناکام رہتے ہیں۔

پھر وہ آخری جلسہ بلاتے ہیں اور اس میں سرپرائز دینے کا اعلان کرتے ہیں، کون سا سرپرائز؟ یہ سوال سب کو پریشان کیے ہوئے ہے کیونکہ نہ ہی ق لیگ مکمل طور پر ساتھ دینے کا اعلان کرتی ہے، نہ ہی ایم کیو ایم اور نہ ہی تحریک انصاف کے منحرف اراکین۔ ایسے میں پیر صاحب میدان میں آتے ہیں اور فائلوں سے وہ سائفر نکالتے ہیں۔ وہ عمران خان کو بتاتے ہیں کہ یہ ایک ایسا سائفر ہے جس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کا رخ بدل جائے گا۔ شیخ رشید سمیت کئی دیگر وزراء اس کی مخالفت کرتے ہیں مگر اٹارنی جنرل اور عارضی وزیر قانون حمایت کرتے ہیں اور یوں یہ آخری پتہ کھیل دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کے تمام واقعات سے قارئین واقف ہیں۔ اب اس آخری پتے کو پاکستان کی تمام ایجنسیاں مسترد کر چکی ہیں، قومی سلامتی کمیٹی مسترد کرچکی ہے۔ فوج کے ترجمان مسترد کر چکے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی یہ تک کہ چکے ہیں کہ اگر ملک کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہوتی تو ہم یہاں میز پر نہ بیٹھے ہوتے اس وقت میدان میں ہوتے اور اس سازش کی ناکامی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے۔

سفیر اسد مجید کمیٹی کو سائفر کی حقیقت بتا چکے ہیں لیکن شاہ صاحب بضد ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ میری اطلاعات یہ ہیں کہ آصف زرداری صاحب بھی جوڈیشل کمیشن کے حق میں ہیں کیونکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کے اس جھوٹ کا اگر صحیح طریقے سے سدباب نہ کیا گیا تو اگلے انتخابات میں عمران خان اس سے سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب ہو گا کیا؟ میرا خیال ہے سپریم کورٹ کو جو سائفر سابق ڈپٹی سپیکر نے بھجوایا ہے اس پر سپریم کورٹ سوموٹو لے لے گی اور موجودہ حکومت یہ ہی چاہتی ہے۔

اس سائفر کا آپریشن جب سپریم کورٹ کرے گی تو وہ متعلقہ افراد کا بیان بھی ریکارڈ کرے گی اور ان متعلقہ افراد میں عمران خان بھی شامل ہوں گے۔ عمران خان اپنے موقف کا اعادہ کریں گے۔ کیس کی سماعت کے دوران یہ ثابت ہو جائے گا کہ عمران خان نے قوم سے جھوٹ بولا اور یوں وہ صادق و آمین نہیں رہے۔ صادق و آمین نہ رہنے کی وجہ سے عمران خان نا اہل ہوں گے اور شاہ صاحب پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال لیں گے۔ کم از کم ایک انتخابات تو وہ پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے لڑیں گے۔

عمران خان بہت سادہ ہیں، انہیں نہیں پتہ کہ سازش تو ان کے خلاف ہوئی ہے مگر سازش امریکہ نے نہیں، شاہ صاحب نے کی ہے اور ابھی مزید سازشیں ہو رہی ہیں۔ دو منٹ دس سیکنڈ کی ایک ویڈیو کا بھی چرچا ہے جو مخصوص حلقوں میں گردش کر رہی ہے۔ وہ بھی خیال ہے کہ جلد عام ہو جائے گی اور پبلک کر دی جائے گی۔ اس کا پبلک ہونا خان صاحب کے اس بت کو جو بڑی محنت کے بعد تراشا گیا تھا دھڑام سے گرا دے گا۔ رہے نام اللہ کا

نہ تو جذباتی عمران خان کا دھیان اس اہم سازشی کی طرف جا رہا ہے اور نہ ان کے چاہنے والوں کا۔ عمران خان کے جذباتی ہونے کے اس سے قبل بھی کئی نقصانات پی ٹی آئی اٹھا چکی ہے۔ اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہہ احمد، حامد خان، جہانگیر ترین، علیم خان اور کئی دیگر بڑے نام عمران خان کو چھوڑ چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments