کیا واقعی اگلی باری پھر زرداری



پاکستان کی بے رحم سیاست میں جب بھی محسن کشی کا شکار بننے والے کا ذکر چھڑے گا تو میاں اظہر بھی شدت سے یاد آئے گا کہ جس کو میاں صاحب نے ایسے بھلا دیا کہ جیسے کبھی آشنا ہی نہ تھے۔ وہ بندہ زرداری کے حوالے سے ایک کمال کی بات کر گیا جو کہ محبان زرداری کے لئے احساس برتری اور بشمول اتحادی و مخالفین احساس کمتری کا سبب بن کر رہ گئی۔

اس نے کہا تھا کہ زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی۔

اب پی ایچ ڈی تو دور کی بات رہی خود میاں نواز شریف صاحب تو زرداری کی سیاست سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ اسے مستقبل میں اپنے شہباز کی پرواز بھی مشکوک نظر آ رہی ہے۔ گجرات کے چودھریوں کے ایک سے تین گھر بن گئے۔

منزل نہیں رہنما چاہیے والے بھائی لوگوں کے پاس بھی خیر سے اب کراچی کے ہر سیکٹر میں اپنی اپنی منزل اور اپنے اپنے متعدد رہنما میسر ہیں۔

ابھی ابھی لندن سے بلاول بھٹو زرداری چارٹر آف ڈیموکریسی پارٹ ٹو کر کے آئے ہیں جس کے اثرات جمہوریت پر پڑیں یا نہ پڑیں پر مولانا کی صدارت کا ساتواں گھر، گردش زحل سے شاید ہی بچ سکے۔

پی ڈی ایم اے کے جلسہ جلوس میں اگلی باری، صدر زرداری کے نعرے ہم نے تو بہت سنے ہیں، آپ نے بھی سنے ہوں گے اور مولانا نے تو بڑے غور سے سنے ہوں گے۔ پر زرداری صدر کیسے بنے گا، اس بات پر شاید وہ غور سے اب سوچنا شروع کریں۔
سنا تو سب نے یہ بھی ہو گا کہ “سیاسی اتحاد کوئی آسمانی صحیفے تو نہیں”۔ پھر بھی ان سے اتحاد کرنا ان کی مجبوری جو ٹھہری۔

ویسے سنجرانی کے سینٹ چیئرمین اور یوسف رضا گیلانی کے لیڈر آف اپوزیشن بن جانے والے دو دو ہاتھ شاید ہی کوئی بھول سکے جب پاکستانی سیاست کی افق پر خلائی مخلوق کے کرشمات کے ساتھ ساتھ، صدر زرداری کے جوہر بھی جلوہ افروز ہوئے تھے۔

(ویسے تو یہ یا تو سابقہ صدر ہیں یا پھر کچھ دنوں کے بعد موجودہ صدر بن جائیں گے، لیکن پتہ نہیں ان کے نام کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسے لوگ، بلاول کی طرح صدر زرداری ایسے بول دیتے ہیں کہ جیسے آج تک ملک کے بیشتر علاقوں میں ایوب خان کے نام کے ساتھ صدر ایوب خان لگانا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے۔)

کچھ چیزیں اعصاب پر سوار ہو جاتی ہیں زرداری بھی ان میں سے ایک ہیں۔

پاکستان کھپے کا نعرہ اب تو پاپولر ہو گیا ہے اور سندھ کی دیواروں پر اس کے برعکس نہ کھپے والے نعرے لکھنے والے ہاتھ کچھ کٹ چکے باقی کھپ چکے۔

ویسے ہم بغیر کسی پریس کانفرنس کے قومی دھارا میں شامل ہونے والے اور روزی روٹی سے مستفیض ہونے والے ان چیئرمینوں کا ذکر نہیں کرتے جو سادہ کپڑوں میں آن ڈیوٹی ہیں، یہ تو ان کا ذکر خیر ہے جو اب سچے پکے پیارے پاکستانی ہیں۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاست کا پہلا سبق اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو سے سیکھا تھا اور وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتی تھی اور عوام اس کو اپنا مسیحا سمجھتی، یہ ہی سبب ہے کہ اب ان کے بیچ وہ نہیں تو اس عوام کو اپنا درد لادوا سا لگتا ہے۔

لیکن جس انداز سے پاکستان کی سیاست میں آصف علی زرداری نے انٹری ماری ہے اس کو دیکھ کر بس یہ گنگنانے کو جی کرتا ہے کہ ”بتا یہ ہنر تم نے سیکھا کہاں سے؟“

اس نے ایوان صدر میں سندھی ٹوپی کیا پہنی، ساری قوم کو ٹوپی پہنا دی۔ اس کے چاہنے والے، اس سے نفرت کرنے والے، اس کے خلاف بولنے والے سب کے سب جئے سندھ جئے سندھ وارا جیئن کے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔

سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ سندھی قوم کو ایک مشترکہ دن مل گیا جو کام جی ایم سید کو کرنا تھا وہ ایک ملک کے صدر، ایک چینل کے اینکر اور ایک سندھی اخبار کے ایڈیٹر نے کر کے دکھا دیا۔ پاکستان کھپے کے نعرے کے ساتھ وہ ایک چھڑی، ایک وصیت لے کر ایوان صدر آئے تھے اور سندھی ٹوپی پہن کر سارے ملک کو جئے سندھ کا نعرہ لگوا کر وہ واپس لاڑکانہ لوٹے۔ ایوان صدر میں اس کے آخری ایام ساری ساری رات جاگتے جاگتے گزرتے تھے،

میاں نواز شریف جس کو اقتدار دیکھ کر بادشاہ بن جانے میں دیر ہی نہیں لگتی ہے اس نے ان دنوں اپنے طرف سے زرداری کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ میثاق جمہوریت کی تو متکبر میاں نے ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی۔

لیکن زرداری کے چھرے کو غور سے دیکھو۔ وہ شریف بھائیوں سے جب مسکراتے ہوئے ملتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے زرداری کا کوئی ماضی تھا ہی نہیں۔ کیا واقعی اس کا کوئی زمانہ ماضی ہے ہی نہیں یا وہ صرف جیتا ہی اپنے مفاد کے خاطر زمانہ حال میں ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اب تو وہ چینل جو اس کے دور حکومت میں دن رات اس کے ہی خلاف بولتا رہتا تھا، اس کے اسٹاف کی تقرری کی خوش خبریاں بھی وہ ہی بتانے لگتا ہے۔

ویسے حامد میر کو بس ایک ہی نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا تھا سو زرداری صاحب کی پی ایچ ڈی نے معاملہ رفع دفع کروا ہی دیا۔

یہ بات اتنی پرانی بھی نہیں ہے، یہ مشرف کا دور تھا میں ان دنوں ایک سندھی میگزین افیئر میں بلاگ لکھتا تھا۔

وہ رہا ہو کر سیدھا سہون شہباز قلندر کے مزار پر گیا۔ افیئر نے رپورٹ کیا تھا کہ یہ کوئی اور زرداری ہے۔

یاد کریں ان دنوں پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین مخدوم امین فہیم نے پریس کانفرنس کر کے اشارہ دیا تھا کہ بینظیر کے بغیر کوئی اور قبول نہیں ہو گا۔
مخدوم صاحب سے تو وہ پریس کانفرنس کروائی گئی تھی لیکن اس کی قربانی میں اس کو دوسری بار وزارت عظمی سرینڈر کرنی پڑی۔ وہ شریف آدمی محلاتی سازشوں کا شکار بن کر وفا کی قبر میں مدفون ہو گیا۔

وہ کہ جس کے بارے میں یہ بات عالم آشکار تھی کہ وہ اپنے مخالفین کو اڑانے میں دیر ہی نہیں کرتے وہ طویل عرصہ جیل گزار کر جب باہر آئے تو ایسا لگا کہ وہ کچھ نئے نئے ہیں۔ جیل سے باہر آنے والا آصف علی زرداری اپنے مزاج میں ایک شاطرانہ سنجیدگی لے کر آیا تھا جس میں مفاہمت، خاموشی اور مٹی پاؤ کا عنصر کچھ زیادہ ہی تھا۔ یہی سبب ہے کہ اختلافات ہونے کے بعد اس کا دوست جب اس کے خلاف بولتے بولتے بے ہوش سا ہونے لگا تھا تو اس نے صرف یہی بولا کہ

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

وہ جب رہائی کے بعد امریکہ میں زیر علاج تھے تو بے نظیر صاحبہ سے کسی نے اس کی خیر خیریت پوچھی تھی، بی بی نے افسردہ لہجے میں اسے بتایا تھا کہ ”اس نے بہت ہی اذیت ناک قید بھگتی ہے، جس کے اثرات اس کی صحت اور سوچ پر بھی پڑے ہیں لہذا اب وہ ری ہبلی ٹیشن کے پراسیس سے گزر رہے ہیں“

کہنے والے کہتے ہیں کہ اس ری ہبلی ٹیشن والے مرحلے نے ہی اس آصف علی زرداری کو جنم دیا ہے جو آج سارے سسٹم کو اپنی انگلیوں پر گھما رہا ہے۔
لوگوں کی پرکھ وہ جیل میں اپنے انہی جوڑی والوں سے سیکھ کر آیا تھا جو کہ جیل کی سلاخوں سے وقت، حالات اور رشتوں کو اچھی طرح دیکھ چکے تھے۔ زرداری نے اپنے انہی اسباق کی پریکٹس عملی میدان میں اپنے قریبی لوگوں پر کی اور اس کے نتائج بھی حاصل کیے۔

نواز شریف تو اب کی بار فضل الرحمان سے وعدہ کر چکے ہیں اور فضل الرحمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس مرتبہ میں صدر نہیں بنا تو پھر کبھی بھی نہیں بن پاؤں گا۔

اقتدار کے نشے میں متکبر بن جانے والے میاں صاحبان اور کپتان کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ زرداری کو صحیح وقت پر ٹھنڈے دماغ سے صحیح فیصلے کرنے کی فراست صرف بھنڈی اور بکری کا دودھ پینے سے نہیں آئی ہے بلکہ اس کے لئے سخا اور سب سے یاری نے بھی اپنا کام دکھایا ہے۔

اس بات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے اپنے خط میں نامزد کیے جانے والے، اس وقت کی قاتل لیگ کہی جانی والی پارٹی کے لیڈر کو جمہوری مفاہمت کے تحت ملک کا نائب وزیر اعظم بنانے والا ڈاکٹر آف فلاسفی اسی مفاہمت کے نام پر عمران خان کو بھی اپنے ساتھ ملا لے۔ اور جو ناراض ہیں ان سے معافی تلافی بھی کروا لے۔ نواز شریف، مریم نواز، حامد میر، علی وزیر وغیرہ کا ضامن کل عمران خان کا بھی ضامن بن سکتا ہے۔ سو بات چل رہی تھی مولانا کے صدر بننے کی اور زرداری پر پی ایچ ڈی کی۔

افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر مولانا کا صدر بن جانا بھی ایک معمہ سا لگتا ہے، ادھر موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی بھی آ بیل مجھے مار کے بیانیے پر بضد ہے۔ اس ساری الجھی ہوئی صورتحال میں دیکھنا یہ کہ آصف علی زرداری سب سے یاری کی بنیاد پر کس طرح ایوان صدر تک پہنچ کر اپنی اگلی باری لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔

ویسے واقعی میاں اظہر بات کمال کی کر گیا ہے کہ زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے اس پر بھی پی ایچ ڈی کرنی پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments