بیانیہ کی جنگ


اس وقت مملکت خداداد پاکستان میں بیانیہ کی جنگ عروج پر ہے۔ ایک وقت تھا کہ دنیا بھر کی سیاست دائیں اور بائیں بازو میں منقسم ہوا کرتی تھی۔ ایک طرف روایات پسندی، مذہبی رجحان، قومیت پسندی اور قدامت پرستی کی حامل جماعتیں دائیں بازو کی فہرست میں ہوتی تھیں۔ تو دوسری طرف ترقی پسند، لبرل، سیکولر اور انقلابی و سوشلسٹ نظریات کی حامی سیاسی جماعتوں کو بائیں بازو کی جماعتوں کا نام دیا جاتا تھا اور ان دو انتہاؤں کے درمیان معتدل اور غیر جانبدارانہ سیاسی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں مرکز کی جماعتیں کہلاتی تھیں۔ ہر جماعت کا ایک واضح منشور ہوتا تھا جو سیاسی ورکرز کو ازبر ہوتا تھا اور ان کی تمام تر سیاسی سرگرمیوں کا انحصار اسی منشور پر ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ پارٹی منشور کی جگہ عوام کو راغب کرنے کے لئے نت نئے نعروں، حربوں اور دعوؤں سے کام لیا جانے لگا۔ دائیں، بائیں بازو اور مرکز کی پہچان کے بجائے یہی نعرے زبان زد عام ہو کر سیاسی جماعتوں کی پہچان بن کر رہ گئے ان نعروں کو آج کی سیاست میں بیانیہ کی نام دیا جاتا ہے۔ اور آج کل کی سیاست اسی بیانیہ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ملک عزیز میں بیانیہ کی سیاست کو بام عروج پر پہنچانے کا سہرا چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران احمد خان نیازی کے سر جاتا ہے۔

پاکستان میں بیانیہ کی سیاست کی داغ بیل رکھنے کا اعزاز پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جنہوں نے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا دلفریب نعرہ لگا کر سیاسی بیانیہ کی کامیاب بنیاد رکھی۔ یہ نعرہ اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا حصہ ہے۔ ان کے بعد جنرل ضیا الحق مرحوم نے ”نفاذ اسلام“ کے بیانیہ پر دس سال تک بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹے۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے درمیان اقتدار کے کھیل میں ایک دوسرے پر ”بد عنوانی اور اقربا پروری کے الزامات“ کا بیانیہ جاری رہا جس کو ایک اور فوجی آمر جنرل سید پرویز مشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کے بیانیہ میں غرقاب کر دیا۔ جنرل مشرف کے اقتدار سے رخصتی اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت نے آصف علی زرداری کو ”پاکستان کھپے“ اور ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کا سیاسی بیانیہ بنانے کا موقع فراہم کر دیا۔ 2013 کے انتخابات میں ”خدمت کی سیاست“ کا محترم نواز شریف کا بیانیہ 2017 میں اقتدار سے بے دخلی پر ”ووٹ کو عزت دو“ میں بدل گیا۔ 2018 میں جناب عمران خان ”نیا پاکستان“ اور ”ریاست مدینہ“ کے بیانیہ کے ساتھ وزیراعظم کی کرسی پر جلوہ گر ہوئے اور حال ہی میں عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی پر ”بیرونی سازش“ اور ”آزاد پاکستان“ کے بیانیہ کے ساتھ سڑکوں پر ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ بیانیہ کی اس جنگ نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کو کیا دیا

کیا ”روٹی کپڑا اور مکان“ کے بیانیہ کے تخلیق کاروں نے اپنے تین ادوار اقتدار میں مخلوق خدا کے لئے نوالے، لباس اور چھت کا انتظام کیا یا ان کی بھوگ، ننگ اور بے سرو سامانی میں اور اضافہ کیا؟

کیا ”نفاذ اسلام“ کا دلفریب بیانیہ دینے والوں نے ملک کو عالم اسلام کا مرکز بنا دیا یا اسلام کے نام پر مخصوص مکاتب فکر کی حمایت کر کے ملک میں فرقہ بندی کا موجب بنے؟

کیا ایک دوسرے کو ”بدعنوان“ قرار دے کر اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے اپنی صفوں میں موجود بدعنوان عناصر کی سرکوبی کی کوئی کوشش کی؟

”سب سے پہلے پاکستان“ کے بیانیہ کے ہدایتکاروں نے اقوام عالم میں ہمارے مقام کو کتنا بلند کیا؟

کیا ”پاکستان کھپے“ اور ”جمہوریت بہترین انتقام“ کہنے والوں نے پاکستان اور جمہوریت کو اقتدار کے دوام کے لئے استعمال نہیں کیا؟

کیا ”ووٹ کو عزت دو“ کا راگ الاپنے والوں نے اپنی تین ٹرمز میں خود اپنی پارٹی کے اندر ووٹ کی عزت اور قدر کرنے کی کوشش کی؟

کیا ”نیا پاکستان“ بنانے کے دعوے داروں نے پرانے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے بعد اب ”آزاد پاکستان“ اور ”بیرونی سازش“ کا نعرہ لگا کر ملک کو مزید نفرت کی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا دیا؟

خدا را سمجھئے، خواب غفلت سے بیدار ہوئیے، ان بیانیوں کو ترک کیجئیے۔ ہمیں اس وقت بیانیہ کی نہیں کردار کی ضرورت ہے، صاحبان کردار کی ضرورت ہے۔ اہل بصیرت کی ضرورت ہے۔ بھیڑ کو قوم میں بدلنا ہے تو صاحب کردار اور صاحب بصیرت راہنماؤں کی ضرورت ہے۔ ایسے راہنما جن کے کردار سے بصیرت ٹپکتی ہو، جن کی گفتار بھی بصیرت کا پتہ دیتی ہو جن کی نشست و برخاست بھی خاصۂ بصیرت ہو۔ جو قوم کو لایعنی بیانیہ کے پیچھے دوڑانے کے بجائے کردار سازی پر توجہ دے۔ جو بیانیہ کی جنگ کے بجائے معاشی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہو۔ جو میرے ملک کے مزدوروں، کسانوں اور محکوموں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی جستجو کرے۔ جو ہمیں نفرت کی سیاست کی دلدل سے نکال کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ایک قوم بنا دے۔ جو اقوام عالم میں ایک خوددار اور خوشحال قوم کے طور ہماری پہچان بنا دے۔

بصیرت سے عاری راہنما ایک بہترین قوم کو ہجوم میں بدل دیتے ہیں اور صاحبان بصیرت راہنما ایک شتر بے مہار ہجوم کو قوم بنا دیا کرتے ہیں۔

سیاست کو اقتدار کے حصول کا کھیل سمجھنے والو بیانیہ کی جنگ تمہیں مبارک۔ ہمیں بیانیہ کا لالی پاپ نہیں ملک کے مسائل کا قابل قبول حل دے دو۔ اپنا بیانیہ اپنے پاس رکھو ہمیں ایک قوم بنا دو

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments